"IGC" (space) message & send to 7575

پاکستان کے وجود کے لیے سنگین خطرہ

پاکستان نے 14جنوری کو اپنی اولین قومی سلامتی پالیسی کا اجرا کیا جس میں واٹر سکیورٹی جیسے اہم مسئلے کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے ''بہترسٹوریج کپیسٹی ، پائیدار واٹر مینجمنٹ اور سرحد پار پانی کے حقوق کی حفاظت کے ذریعے پانی کے درپیش خطرات سے بچاؤ کا جامع لائحہ عمل اپنایا جائے گا‘‘۔ اس دوران جب وزیر اعظم عمران خان مشیرِ قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف کی سرپرستی میں تشکیل دی جانے والی قومی سلامتی پالیسی کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر مزید روشنی ڈال رہے تھے بھارت وولر بیراج میں آبی نقل وحمل کی غرض سے کام جاری رکھے ہوئے تھا اور یہ ان درجنوں پروجیکٹس میں سے ایک ہے جس پربھارتی حکومت گزشتہ دو عشروں سے عمل درآمد کر رہی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان سندھ طاس معاہدے کی روشنی میں ان اقدامات پر جائز اور منطقی اعتراضات اٹھانے میں بھی ناکام رہا ہے۔کیا یہ صریح نااہلی ہے یا اس میں کوئی ملی بھگت شامل ہے؟
1947ء میں پاکستان کی آزادی کے وقت ہندوستان میں آبپاشی کا ایک اجتماعی نظام چل رہا تھا جسے آبپاشی کی حد بندی کیے بغیر ہی بھارت اور پاکستان میں تقسیم کر دیا گیا؛ چنانچہ 1948ء میں پانی پر ایک بین الاقوامی تنازع کھڑا ہو گیاجسے حل کرنے کیلئے عالمی بینک کے تعاون سے سندھ طاس معاہدہ کیا گیا۔اس معاہدے کی رو سے پاکستان کو تین مغربی دریائوں‘سند ھ‘چناب اور جہلم کے پانی کا کنٹرول دے دیا گیا جس میں پانی کاسالانہ بہائو 70سے 80 ملین ایکڑفٹ ہو گا۔ سندھ طاس معاہدے کی رو سے بھارت کو 3.60ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی اجازت ہے ( دریائے سندھ سے 0.40ملین ایکڑ فٹ‘جہلم سے 1.50ملین ایکڑ فٹ اور چناب سے 1.70ایکٹر فٹ)۔بھارتی حکومت کے تخمینے کے مطابق اس کے پاس مغربی دریائوں سے ہائیڈروپاور کی پیداواری گنجائش 20 ہزارمیگا واٹس ہے جس میں سے 3500میگا واٹ بجلی پہلے ہی پیدا کی جا رہی ہے۔اپنی واٹر ریزروائر/مینجمنٹ کی جارحانہ پالیسی کے پیش نظر بھارت سندھ طاس معاہدے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔مغربی دریائوں پر ڈیمز تعمیر کرنے کی تعداد کے حوالے سے یہ معاہدہ خاموش ہے اس لیے رپورٹس کے مطابق بھارت مبینہ طورپرمغربی دریائوں پر یا ان سے ملحق مقامات پر 150 ہائیڈروپاور منصوبوں پر کام کررہا ہے۔ بالفاظ دیگر وہ ہر چند کلو میٹر کے فاصلے پر ایک پاور پروجیکٹ بنا رہا ہے۔ فوری تشویش کی بات یہ ہے کہ پہلے سے تعمیر شدہ پروجیکٹس کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں ماحولیاتی گراوٹ اور بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی کا سامنا ہے ؛چنانچہ 1960ء سے دریائے سندھ‘ جہلم اور چناب میں پانی کے سالانہ بہائو میں کمی آرہی ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے بعد سے پانی کے بہائو میں متواتر کمی ایک سنگین معاملہ ہے۔ اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر ہونے والی تعمیرات‘ جنگلات کی کٹائی اور ان کی جگہ نئی شجر کاری کا نہ ہونا قابلِ تشویش معاملہ ہے۔بلڈرز اکثر ڈائنامائٹ یا دیگر قابلِ اعتراض طریقے استعمال کر تے ہیں جن سے دریائوں کے بہائو میں رکاوٹیں پیدا ہو تی ہیں‘پانی کے ساتھ آنے والے پتھر اور مٹی پاکستا ن کے دو نوں بڑے ڈیمز تربیلا اور منگلا کے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں کمی کی بڑی وجہ بن گئے ہیں۔ پاکستان چونکہ زیادہ تردریائے سندھ کے طاس کے نشیب میں واقع ہے؛ چنانچہ پاکستان کو دہرے نقصان کا سامنا ہے۔ بھارت سے آنے والے دریائوں میں موسم برسات میں بارشوں کی وجہ سے سیلاب آتے ہیں جن کا براہِ راست اثر علاقائی ماحولیات اور طاس سے ملحقہ علاقوں کی معیشت پر پڑتا ہے۔ پاکستان کاوجود اور بقاسرحد پار سے آنے والے دریائی پانی اور اس کے ساتھ بہہ کر آنے والی دریائی مٹی کے مرہونِ منت ہیں؛ تاہم دریائوں میں پانی کے بہائوکے تحفظ کے ضامن پاکستانی اداروں نے مغربی دریائوں پر بھارتی سرگرمیوں کے نتیجے میں پانی کے بہائو میں کمی اور اس کی مٹی کے پاکستان میں آنے جیسے سنگین معاملات پر شاید ہی کبھی کوئی اعتراض اٹھایا ہو۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستا ن نے اگر بین الاقوامی فورمز پر کوئی اعتراضات یا عدالتی کیس اٹھائے بھی ہیں تو فیصلہ پاکستان کے خلاف آیا۔ کشن گنگا کیس کی مثال آپ کے سامنے ہے جس پر اربوں روپے ضائع ہوگئے۔ کشن گنگا ڈیم پر عالمی مصالحتی عدالت نے بھارت کے حق میں فیصلہ دیا تھامگر پاکستان کی لیگل ٹیم نے اپنی عزت بچانے کیلئے مقدمہ جیتنے کا دعویٰ کر دیا تھا۔ حقائق اس کے برخلاف تھے۔ پاکستان کی لیگل ٹیم ایک جیتا ہو ا مقدمہ ہار گئی تھی۔اس سے بھارت کو دریائے نیلم کے پانی کا رخ دریائے جہلم کے طاس کی طرف موڑنے کا اختیار مل گیا۔یہ پانی پہلے پاکستان سے مقبوضہ کشمیر میں جا کر دوبارہ پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ دریائے نیلم کا رخ موڑنے کی وجہ سے 969میگا واٹ کے نیلم جہلم پروجیکٹ کی پیداواری استعداد 25فیصدتک کم ہو گئی ہے۔بھارت کے دریائے نیلم کا رخ موڑنے کے نتیجے میں پاکستان کو سالانہ 28ارب روپے کی کم بجلی پیدا ہونے کا نقصان برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ اس کے برعکس بھارت مغربی دریائوں کے پانی کے ایک ایک قطرے سے فائدہ اٹھانے کے درپے ہے۔اس نے یہ کہہ کر پاکستان کی آبی سکیورٹی پر ایک اور بم گرا دیا ہے کہ وہ دریائے سندھ‘چناب‘جہلم اور دریائے راوی کی آبی گزرگاہوں کو دریائی نقل وحمل کے ذرائع کے طور پر بھی استعمال کرے گا۔اِن لینڈ واٹر ویز اتھارٹی آف انڈیا نے پہلے ہی انڈس نیشنل واٹر ویز پر اُپشی گائوں تا شیہ کے 34.67کلو میٹر محیط علاقے کی فیزیبلٹی سٹڈی مکمل کر لی ہے۔ IWAI نے دریائے جہلم کے 110کلومیٹر طویل واٹر ویز سے وولر جھیل تا ڈنگ پورہ گائوں تک علاقے کی نشاندہی بھی کر لی ہے۔ بیراجوں کا ڈیزائن اس طرح کا رکھا گیا ہے کہ اگرکم ازکم چارفٹ گہرائی اور 100فٹ فرشی چوڑائی مل جائے تو اس سے بننے والی ڈھلوان پانی کے بہائو پر بھارتی کنٹرول کے لیے مددگار ثابت ہوگی۔
پاکستا ن سند ھ طاس معاہدے کے تحت اپنے آبی حقوق کا اس قدر استحصال کیسے برداشت کر سکتا ہے؟ سندھ طاس معاہدے کی شق III (2) کے مطابق ''بھارت کی یہ ذمہ داری ہو گی کہ وہ مغربی دریائوں کے پانی کا بہائو جاری رہنے دے اور وہ ان دریائوں کے پانی میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرے گا‘‘۔ سندھ طاس معاہدے کی یہ شق ہمیں بہترین قانونی دفاع مہیا کر رہی ہے۔اسی طرح آرٹیکل III(4) اور I-(15)اور آرٹیکل I کا پیرا 6 بھارت کو مغربی دریائوں میں کسی قسم کے نقل وحمل کے پروجیکٹس شروع کرنے سے صریحاًمنع کرتا ہے۔پاکستان ایک واضح قومی سکیورٹی پالیسی کی موجودگی میں اپنی واٹر سکیورٹی کو کیسے یقینی بنا سکتا ہے جبکہ اس میں اتنے اہم معاملے کا معمولی سا تذکرہ کیا گیا ہو۔ ہمارے اکثر ادارے جن میں کمشنر سندھ طاس معاہدہ اور قومی سلامتی کی ذمہ دار دیگر ایجنسیاں ماضی میں خواب خرگوش کے مزے لیتی رہیں۔ دریائے چناب کے پانی پر بھارتی کنٹرول ہونے کے بعد 100 کلومیٹر طویل بی آر بی نہرتو یقینا سوکھ جائے گی جسے پاکستان نے 1950ء کی دہائی میں پاک بھارت سرحد کے ساتھ ساتھ دفاعی نقطہ نظر سے تعمیر کیا تھا۔بی آر بی نہر کا خشک ہونا پاکستان کی علاقائی سلامتی کمپرومائز ہونے کے مترادف ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی‘شہروں کے پھیلائو اور روز افزوں ضروریا ت کے پیش نظر پاکستان کو آبی بحران کا سامنا ہے۔ایسے میں بھارت پاکستان کی طرف پانی کے بہائو میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے تو یہ ہمارے کل سالانہ پانی کا 45 فیصد کم کر دے گی‘ یوں ہماری واٹر سکیورٹی پر غیر معمولی منفی اثرات کی حامل ہو گی، حالانکہ واٹر سکیورٹی خوراک‘ توانائی اور معاشی سکیورٹی کی بنیاد ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں