"IGC" (space) message & send to 7575

وزیر اعظم کا دورۂ چین

پاکستان اور چین کے مابین برادرانہ تعلقات کوئی خبر نہیں‘ نہ ہی یہ کوئی ایسی بات ہے جس پر کوئی انسان یا کوئی ملک چونک جائے۔ یہ عشروں پر مبنی دوستی ہے جس کا برقرار رکھا جانا کسی حکومت سے مشروط نہیں کیونکہ یہ عوام کی عوام کے ساتھ دوستی ہے جس کو دونوں ممالک کی حکومتیں دوام بخشتی رہتی ہیں۔ چین پاکستان سے ایک سال بعد معرض وجود میں آیا لیکن اس نے وہ کر دکھایا جس کی دنیا کا تقریباً ہر ملک صرف خواہش ہی کر سکتا ہے۔ چین نے کروڑوں انسانوں کو غربت سے نکال کر ثابت کیا کہ محنت اگر کوئی بندہ انفرادی طور پر کرتا ہے تو ایک فرد تبدیل ہوتا ہے لیکن اگر اجتماعی یا معاشرتی طور پر کی جائے تو ایک معاشرہ یا ملک تبدیل ہوتا ہے۔ چین کی صورت میں دنیا نے ایسے ہی دیکھا ہے کہ ایک غریب ملک چند سالوں میں دنیا کے طاقتور ترین ممالک کے فہرست میں شامل ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
4 فروری سے چین میں شروع ہونے والے سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کیلئے وزیر اعظم عمران خان بھی مدعو ہیں۔ ان کے اس دورے کے بارے کہا جا رہا ہے یا تجزیہ کیا جا رہا ہے کہ یہ دورہ پاک چین تعلقات کو ایک نئی بلندی پر لے جائے گا۔ اس تجزیے کا ایک پورا تناظر ہے۔ چین دیکھ رہا ہے کہ گزشتہ ایک سال سے‘ جب سے امریکی صدر بائیڈن کی حکومت آئی ہے‘ امریکہ کی انتظامیہ نے پاکستان کو دو طرفہ تعلقات کے تناظر میں دیوار سے لگانا جاری رکھا ہے۔ اعلیٰ ترین سطح پر کوئی رابطہ نہیں‘ امریکہ کی ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ وینڈی شرمین پر ہی اکتفا کیا جا رہا ہے اور انہی کے ذریعے پاکستان سے رابطہ کیا جاتا ہے اور وہ بھی تب جب بہت ہی ضروری ہو جاتا ہے۔ اسلام آباد اور واشنگٹن کے بیچ خفیہ سفارتکاری بھی بہت زوروشور سے ہوئی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ نتیجہ سے یہاں مراد رابطہ ہے‘ چاہے وہ سیکرٹری آف سٹیٹ انتھونی بلنکن کی طرف سے ہو یا خود صدر بائیڈن کی طرف سے۔ پاکستان کوئی ایسا ملک نہیں جس کو نظرانداز کیا جا سکے۔ جنوبی ایشیا میں جغرافیائی‘ مذہبی اور عسکری حیثیت یا طاقت دوسرے بہت سے ممالک سے پاکستان کو ممتاز کرتی ہے۔ ایسے ملک کو نظرانداز کرنے یا دیوار سے لگانے کے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ آئیے ہم گزشتہ کچھ عرصے میں پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات کے تناظر میں رونما ہونے والے کچھ ایسے واقعات کا ذکر کرتے ہیں جن کی وجہ سے یہ دلیل زور پکڑ رہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا آنے والا دورہ پاک چین تعلقات کو کیونکر نئی جہت دے سکتا ہے۔
14 ستمبر 2021ء کو امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے ایوانِ نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کو بتایا تھا کہ پاکستان کے بہت سے مفادات ہیں لیکن کچھ مفادات ایسے بھی ہیں جو کہ ہمارے (امریکی) مفادات کے ساتھ متصادم ہیں۔ ان کے بقول: اسی وجہ سے پاکستان مسلسل افغانستان کے مستقبل کے بارے میں اپنی شرائط لگا رہا ہے۔ وہ مفادات‘ اُن کے بقول‘ یہ ہیں جن کیلئے وہ طالبان کے ارکان کو پناہ دینے میں مصروف ہے، جبکہ انسداد دہشتگردی میں ہمارے (امریکہ) ساتھ تعاون کے مختلف نکات میں بھی شامل ہے۔ اس کے بعد 8 اکتوبر کو ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ وینڈی شرمین کی طرف سے ایک نئی اور حیران کن بات سامنے آئی اور وہ بھی دہلی میں۔ انہوں نے کہا کہ ہم یعنی امریکی پاکستان کے ساتھ وسیع البنیاد تعلقات بنتے ہوئے نہیں دیکھ رہے اور ان کے پاکستان کے دورے کا مقصد صرف افغانستان کے دگرگوں حالات ہی ہیں نہ کہ کوئی اور چیز۔ پھر انہوں نے بھارت کے ساتھ اپنے سٹریٹیجک تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے پاس وہ صلاحیتیں موجود ہوں جن سے ہم بھارت سمیت ہر کسی کی سلامتی کو یقینی بنا سکیں۔ اس لیے میں کچھ خاص بات چیت کرنے جا رہی ہوں اور پھر انہوں نے کہا کہ میں اپنے دورۂ پاکستان کے بارے میں معلومات دہلی میں اپنے دوستوں کو فراہم کروں گی۔ اس کے علاوہ ڈیموکریسی سمٹ‘ جو امریکی صدر بائیڈن کی میزبانی میں 9 اور 10 دسمبر 2021ء کو منعقد ہوئی، نے بھی پاک امریکہ تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیا کیونکہ ایک طرف وزیراعظم پاکستان عمران خان کوایک غیرمعمولی سیشن میں رکھا گیا جبکہ دوسری طرف انہیں صرف تین منٹ کی پہلے سے ریکارڈ شدہ تقریر کے ذریعے شرکت کی پیشکش کی گئی۔ عمران خان اور ان کے مشیروں نے اس سمٹ میں شرکت سے انکار کر دیا کیونکہ انہوں نے اس طرح کی دعوت کو واشنگٹن کے غرور اور ایک ایسے ملک کی سبکی کے ایک اظہار کے طور پر دیکھا جس پر اس نے اپنی دو افغان جنگوں اور اگست‘ ستمبر میں افغانستان سے امریکیوں کے بڑے پیمانے پر انخلا میں تعاون کے لیے انحصار کیا تھا۔ ایک صحافی نے جب عمران خان سے امریکہ کو ممکنہ طور پر افغانستان کے خلاف فوجی اڈے دینے کی بات کی تو انہوں نے Absolutely not کہہ کر امریکی انا کو شاید اتنی ٹھیس پہنچائی کہ وہ اب تک اس غم سے باہر نہیں نکل پایا حالانکہ اس طرح کے ریمارکس پر ہمارے اپنے کچھ حلقوں نے بھی نہ صرف ناراضی کا اظہار کیا بلکہ ان ڈگمگاتے تعلقات کو پٹری پر لانے کی بے سود کوشش بھی کی۔
اور اب ہم فروری 2022ء میں ہیں جس میں وزیراعظم کا چین کا ایک اہم ترین دورہ ہورہا جس میں بہت سی سائیڈ لائن میٹنگز کے علاوہ صدر شی جن پنگ سے بھی یقینی ملاقات بھی شامل ہے۔ کیا یہ دورہ اسی لئے اتنا اہم سمجھا جارہا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ اچھا برتاؤ روا نہیں رکھا؟ کیا اس لئے ہی چین اور پاکستان کے تعلقات کی نئی بلندیوں پر پہنچنے کی باتیں ہو رہی ہیں؟ اس سوال کا جواب یقیناً ''نہیں‘‘ میں ہونا چاہئے کیونکہ پاکستان کے پہلے ہی سے چین کے ساتھ کافی خوشگوار تعلقات ہیں اور ایک سے زائد مواقع پر وزیر اعظم عمران خان نے بھی کہا کہ ہمارا یعنی پاکستان کا مستقبل چین کے ساتھ جڑا ہے۔ پاکستان اور چین دونوں سی پیک کے تزویراتی تعلقات میں بندھے ہوئے ہیں جسے اب وہ قریبی تعاون کے ذریعے ایک نئی سطح پر لے جا سکتے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان کی مالی پریشانیوں کے پیش نظر اسے زیادہ مضبوط چینی حمایت کی ضرورت ہوگی۔ اس دوران چینی قیادت نے پاکستان کے سست طرزِ حکمرانی کے نظام کی انتظامی اور تکنیکی حدود کا بھی مشاہدہ کیا جس کی وجہ سے پاکستان کی ترقی سست روی کا شکارہے۔ برطانوی دور کی حکمرانی کی ذہنیت‘ جیسا کہ انتظامی رکاوٹوں کی بھرمار‘ منظوریوں کی متعدد تہیں اور نظام کے اندر چین مخالف لابی‘ جنہوں نے جہاں بھی ممکن ہو منصوبوں کو روکنے یا سست کرنے کا کام کیا ہے۔ مزید رقم جمع کرنے کے بجائے چین اور پاکستان کو اس پر بھی کام کرنا چاہئے کہ پاکستان کے نظامِ حکمرانی کو کس طرح جلد فیصلہ سازی اور عملدرآمد کیلئے کارآمد بنایا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اکنامک زونز کی کاغذی کارروائی کو اگر پاکستان کے عام طریقہ کار سے گزاریں تو ان کی قدر اگر صفر نہیں تو بہت کم ضرور ہو جاتی ہے‘ جس کی ایک مثال رشکئی سپیشل اکنامک زون ہے۔ چین میں سپیشل اکنامک زونز کا آغاز مرکزی حکومت کے ساتھ ہوا جس نے انہیں ریاستی ادارہ قرار دیا اور اس وجہ سے کسی قانونی یا انتظامی رکاوٹ کو ان کے کام میں مخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ پاکستان کواسی طرح کا ٹھوس مشورہ بے جا نہیں ہوگا۔ ایک سپیشل اکنامک زون کو ریاست پاکستان کی اتھارٹی کے ساتھ غیرمنقسم اور تیزی سے عملدرآمد کی ضرورت ہے اور اسے صوبائی حکومتوں اور ان کے سوئے ہوئے محکموں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
بیجنگ کی تاریخ یقینی طور پر دونوں ممالک کو اپنی متعلقہ طاقتوں اور کمزوریوں کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کرتی ہے تاکہ پوری دنیا میں جغرافیائی سیاسی تقسیم کے تناظر میں ایک دوسرے کی مدد کی جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں