"IGC" (space) message & send to 7575

پاک چین تعلقات اور بے بنیاد قیاس آرائیاں

بہت بحث مباحثہ ہو رہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو اپنے دورۂ چین سے کیا ملا؟ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ یہ دورہ اگر ناکام نہیں تو اتنا کامیاب بھی نہیں ہے۔ جو بحث مباحثے ہو رہے ہیں ان سے کچھ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ کیا چین اپنے قرضے واپس مانگ رہا ہے؟ کیا سی پیک پر کام بند ہونے جا رہا ہے یا چین کے ساتھ تعلقات میں کمی آگئی ہے؟ اب ایک طرف یہ سب قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں جبکہ دوسری طرف اصل میں جو 33 نکاتی اعلامیہ (صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم عمران خان کے مابین ملاقات کے بعد) سامنے آیا‘ اس میں ایک بھی ایسی خبر کا ذکر نہیں تھا‘ جس سے یہ تاثر ملے کہ تعلقات میں کمی آرہی ہے‘ بلکہ ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں برادر ممالک کے مابین تعلقات مزید گہرے ہو رہے ہیں۔ چین کے پاکستان پر جو قرضے ہیں‘ اگر صرف ان کے بارے میں بات کی جائے تو مجھے خود ایک چینی سفیر نے کہا تھا کہ ہماری ہزاروں سال پرانی روایت ہے کہ جب ایک پڑوسی ہم سے کوئی چیز قرض کے طور پر لے لیتا ہے تو ہم اس سے وہ چیز زبردستی کبھی نہیں وصول کرتے بلکہ ہم ہمیشہ قرض لینے والے کی آسانی کو ملحوظ خاطر رکھ کر حالات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اب اگر چین کا ایک سفیر چینی روایت کے بارے میں بات کرتا ہے تو کیسے یہ بات درست ثابت ہو سکتی ہے کہ چین پاکستان سے اپنے قرضے واپس مانگ رہا ہے؟
چین کے سفیر نونگ رونگ نے وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ چین کا مقصد نہ صرف سرمائی اولمپکس کے افتتاحی تقریب میں شرکت بتایا بلکہ سائیڈ لائنز پر اہم دو طرفہ اور کثیر جہتی ملاقاتوں اور دو طرفہ برادرانہ تعلقات میں مزید اضافے کا بھی امکان ظاہر کیا تھا۔26 اکتوبر 2021 کو صدر شی جن پنگ کی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ فون پر ہونے والی بات چیت کو یاد کرتے ہوئے سفیر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ''دنیا اس صدی میں ایسی تبدیلیوں کو محسوس کر رہی ہیں یا دیکھ رہی ہیں جو اس کے لئے یا تو کم جانی پہچانی ہیں یا بالکل نئی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ہنگامہ آرائی اور خطرات کی علامات اور ذرائع بھی زیادہ ہی ہیں۔ ان نئے حالات میں، دونوں ممالک (پاکستان اور چین) کو مزید مضبوطی سے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونا چاہئے اور دو طرفہ شراکت داری کو آگے بڑھانا چاہئے۔ نئے دور میں چین اور پاکستان کے مابین بھائی چارے کا ایک ایسا رشتہ قائم ہونا چاہئے جس میں دونوں کا مستقبل مشترک ہو۔ آج کل چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اعلیٰ معیار کی ترقی کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جس میں دونوں فریقوں کے مابین تعاون کے مزید امکانات موجود ہیں‘‘
''ہم ترقی کو فروغ دینے اور لوگوں کی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے میں سی پیک کے مثبت اثرات کو مذید بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ چین کثیر جہتی رابطوں کو بڑھانے، بین الاقوامی انصاف کو فروغ دینے، دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کے تحفظ اور عالمی امن و استحکام کو برقرار رکھنے کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے‘‘۔
چین کے صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم عمران خان کے مابین حال ہی میں بیجنگ میں ہونے والی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے 33 نکاتی مشترکہ اعلامیے کا تقریباً ہر ایک لفظ اسی جذبے کی عکاسی کرتا ہے جس کا اظہار سفیر رونگ نے اپنے مضمون میں کیا تھا۔ 3 فروری کو پاک چین دوستی پر ان کے یقین کی عکاسی کرتے ہوئے ایک چینی دوست نے مجھے یہ پیغام ذاتی طور پر بھیجا: بیجنگ 2022 سرمائی اولمپکس گیمز کی شاندار افتتاحی تقریب‘ جس کا عنوان ''ٹوگیدر فار اے شیئرڈ فیوچر ہے‘‘ 4 فروری کو 1700hrs (PKT) کو ہوگا‘ ہمارے ہر موسم کے دوست ملک پاکستان کے وزیر اعظم افتتاحی تقریب میں شرکت کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پاکستانی بھائی اس خوشی اور فخر میں ہمارے سنگ ہوں‘‘۔
اس طرح کے پیغامات صرف ان لوگوں اور عہدیداروں کی طرف سے آتے ہیں جو اپنی قومی مقاصد کے حصول کیلئے پُرعزم ہوتے ہیں، جن کو اپنے منزل کا پتہ ہوتا ہے اور جو بڑے فخر کے ساتھ اسی راستے کو اپناتے ہیں جو ان کے رہنما دکھاتے ہیں۔4 روزہ دورے نے عملی طور پر ان تمام قیاس آرائیوں کو یکسر ختم کر دیا جن میں سی پیک منصوبوں میں سست روی اور چینی پاور کمپنیوں کو بقایا ادائیگیوں کے معاملے پر چینی حکومت کی ناخوشی جیسے معاملات شامل ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے چین کے دورے میں جن باتوں پر اتفاق ہوا‘ ان میں سے چند کا ذکر مندرجہ ذیل ہے:
٭ سی پیک کو پوری قوت کے ساتھ جاری رکھنے کا عزم اور ترقی کو تیز کرنے کے لیے صنعت کاری پر زور۔
٭ مل کر کام کرنے اور انسدادِ دہشتگردی کی کوششوں کو مربوط کرنے کا اعادہ۔
انسداد دہشتگردی کا عزم اس لئے بھی بہت اہم ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں‘ جن میں بلوچستان اور قبائلی اضلاع شامل ہیں‘ میں حال ہی میں چار مہلک حملے ہوئے جنہوں نے پاکستان میں امن عامہ پر سوالیہ نشان کھڑا کیا اور جن میں ہمارے کم از کم 27 سکیورٹی اہلکار بھی شہید ہوئے۔ دہشتگردی کے واقعات میں ڈرامائی اضافہ حیران کن نہیں کیونکہ ایسا متضاد جیوپولیٹیکل مفادات کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس سے چین اور پاکستان دونوں کو خبردار رہنا چاہئے اور ایسا اس لئے ہونا چاہئے کہ گوادر پورٹ کے حوالے سے ایرانی پالیسی سے سب خبردار ہیں۔
کیا خطے کے کچھ ممالک کو گوادر جیسی بڑی بندرگاہ کے ذریعے چین کی مشرق وسطیٰ تک رسائی قابل قبول ہوگی؟ یہ اہم سوال ہے‘ اس لئے خاص طور پر پاکستان میں حالات خراب کرانے کی کوشش اب ماضی کی نسبت مزید تیز ہو گی، اور اسی انسداد دہشتگردی کا ذکر اس دورے میں ہوا کیونکہ اس طرح کی دہشتگردی ایک طرف پاکستان کے وجود پر زخم بناتی ہے تو دوسری طرف چین کی معاشی شہ رگ یعنی بیلٹ اینڈ روڈ اینیشی ایٹو (بی آر آئی) کو زک پہنچتی ہے۔
سی پیک کو مغرب کی طرف افغانستان تک پہنچانے کا معاہدہ صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم عمران خان کے مابین ملاقات کا ایک اور بڑا نتیجہ ہے۔ اس معاہدے سے توانائی کے شعبے میں 2,500 ارب کے گردشی قرضوں کو کم کرانے میں مدد ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔ پاکستان کے پاس ضرورت سے زیادہ بجلی ہے‘ لیکن وہ اسے استعمال نہیں کر سکتا اور نہ ہی خرید سکتا ہے۔ اسے اب بھی پاور کمپنیوں کو فکسڈ کیپیسٹی چارجز ادا کرنا ہوں گے۔ ایک آپشن یہ ہے کہ پاکستان سے بجلی کیلئے افغان کوئلے کا بارٹر کیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چینی کمپنیوں نے اصولی طور پر پاکستان اور افغانستان کے مابین 500 KV کنیکٹیوٹی پر اتفاق کیا ہے۔ اس طرح چین کو سی پیک منصوبوں کی ادائیگیاں ملیں گی۔ یہ ماڈل یعنی نقد یا کوئلے کیلئے بجلی کی بارٹرنگ یا ان دونوں کا مجموعہ سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ پاکستان کیلئے ایک بیل آؤٹ ہوگا۔
اگرچہ چینی سرمایہ کاروں کو رکی ہوئی ادائیگیاں قیاس آرائیوں کے لیے ایک بڑا موضوع بنی ہوئی ہیں لیکن چینی حکام کا کہنا ہے کہ یہ ایک غیر ضروری طور پر پیش کیا جانے والا مسئلہ ہے جو تکنیکی نوعیت کا ہے اور اس سے مجموعی تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ان کی پاکستان کے لیے غیر متزلزل حمایت اور اس کی مالی اور جغرافیائی سیاسی انتشار سے نمٹنے میں مدد کرنے کی خواہش بھی سرمائی اولمپکس یعنی ''ٹوگیدر فار اے شیئرڈ فیوچر‘‘ کے نعرے سے عیاں ہے‘ اور میرے جیسے لوگوں کے لیے جو چینی ذہنیت کو 14 سال سے زیادہ عرصے سے جانتے ہیں، یہ جذبہ اس طویل مدتی یقین سے پیدا ہوتا ہے کہ آپ تبھی ترقی کر سکتے ہیں جب آپ کا پڑوسی بھی امن سے ترقی کر رہا ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں