"IGC" (space) message & send to 7575

پیسہ‘ طاقت اور قانون کی حکمرانی

پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے کنٹینروں سے بھرا ڈی چوک 15 اپریل کو بھی ایک ناخوشگوار منظر پیش کر رہا تھا۔ یہ کنٹینر پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے جلسوں کے دوران حساس عمارتوں اور مقامات کو لوگوں سے بچانے کے لیے لگائے گئے تھے۔ یہ اقدام گورننس یا حکمرانی کے جزوی طور پر مفلوج ہونے کی علامت ہے، بھاری قیمت پر انتظام کاری۔ اس کے ساتھ ساتھ ستم ظریفی یہ ہے کہ مقتول ناظم جوکھیو کی بیوہ کی طرف سے مبینہ قاتل‘ پیپلز پارٹی کے ایک رکن پارلیمنٹ جام عبدالکریم کو راتوں رات معافی دے دی گئی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے مرتب کردہ رُول آف لا انڈیکس 2021 میں پاکستان 139 ممالک میں 130ویں نمبر پر کیوں ہے۔ اس سے بھی زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ اس حوالے سے پاکستان کی جنوبی ایشیا کے 6 ممالک میں 5ویں پوزیشن ہے۔ بغور جائزہ لیا جائے تو یہ سب پارٹی کی سیاست، پرسنیلٹی کلٹس اور اس فوجداری نظامِ انصاف کا ایک ''قابل ذکر‘‘ نتیجہ‘ جو پیسہ اور طاقت رکھنے والوں کے حق میں متزلزل رہتا ہے۔
کنٹینروں کی تازہ ترین دیوار کھڑی کرنے کا محرک عمران خان کی 27 مارچ کی پریڈ گراؤنڈ ریلی اور کشمیر ہائی وے کے قریب پی ڈی ایم کا مہنگائی مخالف احتجاج تھا۔ کنٹینروں کے حوالے سے اس سارے کاروبار کی دو تکلیف دہ جہتیں ہیں: پہلی‘ صرف 150 کنٹینرز‘ جو مقامی انتظامیہ نے سفارتی اور دیگر حساس مقامات کو بلاک کرنے کے لیے کرایے پر لیے تھے، کم از کم‘ کم از کم 50 ملین روپے یومیہ میں پڑے۔ کئی کنٹینرز اب بھی ڈی چوک اور کچھ ملحقہ علاقوں میں پڑے ہیں‘ جیسے کنٹینرز کو یہ علاقہ پسند آ گیا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کرایوں کی مد میں ان کے اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ قیمتی عوامی دولت کا یہ کتنا بڑا ضیاع ہے‘ جو محض اس لیے ہو رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنے پیروکاروں کو ریڈ زون میں ممکنہ تشدد سے باز رہنے کا کہنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ طاہرالقادری صاحب نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران عوامی تکالیف کی قیمت پر ''دھرنے‘‘ کا رجحان قائم کیا تھا، جس کے بعد 2014 میں عمران خان کے دھرنے نے ڈی چوک کو بدبودار کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا تھا۔
دوسری‘ اہمیت کے حامل حساس مقامات پر ادھر ادھر بکھرے ہوئے کنٹینر بد صورت ڈھانچوں کے طور پر سامنے آتے ہیں اور دارالحکومت کی سرسبز اور چوڑی سڑکوں کو خراب کر رہے ہیں۔ کیا سیاست دان اس بات پر متفق ہو سکتے ہیں کہ اس بد صورتی کو بڑھنے یا مزید نہ ہونے دیا جائے؟ سوال یہ ہے کہ ہم کنٹینرز کو راستوں میں کھڑے کئے بغیر احتجاج کیوں نہیں کر سکتے؟ ہم 2022 میں رہ رہے ہیں‘ لیکن ایسا لگتا ہے جیسے 19ویں صدی میں زندہ ہوں۔ سیاسی سٹیک ہولڈرز کا مقابلہ کرتے ہوئے اسلام آباد کو کس طرح ایک مضحکہ خیز حالت سے دوچار کر دیا جاتا ہے۔
اتنی ہی پریشان کن وہ معافی ہے جو ناظم جوکھیو کی اہلیہ نے اپنے شوہر کے مبینہ قاتل جام عبدالکریم اور اس کے ساتھیوں کو دبئی سے آمد سے قبل دے دی تھی۔ پی پی پی کو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے جام عبدالکریم کے ووٹ کی ضرورت تھی۔ ممکن ہے اسی لیے غریب بیوہ نے کیس واپس لے کر متنازع معافی نامہ جاری کر دیا ہو۔ ناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں نے اپنے شوہر کے مبینہ قاتل پی پی پی کے رکن پارلیمنٹ کے خلاف مقدمہ واپس لینے کے بعداپنے ایک بیان میں کہا تھا ''میرے خاندان کے لوگ اب میرا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ میں اپنے بچوں کی وجہ سے ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہوں... میں اب مزید لڑ نہیں سکتی۔ میں ایک وفادار خاتون ہوں، میں کیس لڑنا چاہتی تھی لیکن میرے اپنے لوگوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا‘‘۔
کراچی کے علاقے ملیر سے تعلق رکھنے والے نوجوان ناظم جوکھیو کو مبینہ طور پر 3 نومبر کو اس کے قبیلے کے سردار نے قتل کر دیا تھا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے ٹھٹھہ میں اپنے گاؤں کے قریب غیر ملکیوں کی جانب سے پرندوں کی معدومیت کے خطرے سے دوچار نوع ہوبارا بسٹرڈ (تلور) کے شکار کی ویڈیو فلمائی اور شیئر کی تھی تاکہ عوام کو یہ بتا سکے کہ کیسے طاقت ور لوگ معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار پرندوں کا بے دریغ شکار کر اور کرارہے ہیں۔
ناظم جوکھیو کی بیوہ نے جام عبدالکریم کے خلاف مقدمہ واپس لینے کے بدلے میں کچھ لینے سے انکار کیا کیونکہ اس کا دعویٰ تھا کہ اس کے اپنے خاندان نے اسے تنہا چھوڑ دیا تھا اور ان کے پاس مقدمہ لڑنے کی صلاحیت نہیں تھی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جام اور اس کے ساتھیوں کے لیے معافی اس کے بالکل برعکس ہے جو کچھ شیریں جوکھیو نے 31 دسمبر کو دعویٰ کیا تھا۔ تب کراچی میں ایک عدالت کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے شیریں نے کہا تھا: ڈیل کے بارے میں سوال کرنا بند ہونا چاہیے، ہم کوئی ڈیل نہیں کرنا چاہتے‘ ہم آپ کے پیسوں پر تھوکتے ہیں، ہم ناظم کی لاش نہیں بیچنے والے۔ شیریں نے اس موقع پر یہ بھی الزام لگایا کہ عبدالکریم بکر نے اسے اپنے بھائی جام اویس‘ جو سندھ کا رکن پارلیمنٹ ہے‘ کے خلاف قتل کا مقدمہ واپس لینے کے لیے رقم کی پیشکش کی تھی۔
یہ تصفیہ حیرت انگیز طور پر سرعت کے ساتھ سامنے آیا۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ ایم این اے ضمانت حاصل کر سکے اور عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے اسلام آباد کا سفر کر سکے‘ لیکن کیا جام کریم کو معاف کرنے کی رفتار اور وقت‘ دونوں قانون کی حکمرانی کی بات کرنے والوں کے منہ پر ایک طمانچہ نہیں ہیں؟ کیا نظامِ انصاف طے پانے والے معاہدے کی تحقیقات کروانے کے لیے از خود اس معاملے پر غور کرے گا؟ کیسی عجیب بات ہے کہ یہاں 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز پر مہینوں تک فرد جرم عائد نہیں کی جا سکتی۔ ایسے میں عام معاملات پر توجہ کم ہی پڑتی ہے۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے: شریفوں کے ملازمین کے اکاؤنٹس میں اربوں کس نے بھیجے اور کیوں؟
عدل کا کیسا تمسخر اڑایا جا رہا ہے کہ جب سب کی ہم آہنگی ہو تو بڑے سے بڑا مجرم بھی صاف بچ نکلتا ہے‘ ان لاکھوں لوگوں کے برعکس جو جھوٹے الزامات کے تحت سالوں جیلوں میں پڑے رہتے ہیں‘ اور ان کے بھی برعکس جن کے پاس جیل سے آزادی یا کچھ ریلیف حاصل کرنے کے لیے پیسے ہی نہیں ہوتے۔ جب با اثر درخواستوں کی سماعت کے لیے دروازے کھل جائیں جب کہ پارلیمنٹ کے اندر کارروائی تب بھی جاری تھی تو لوگوں کو انگلیاں کیوں نہیں اٹھانی چاہئیں؟
یہ کیسا نظام ہے جہاں پیسہ اور طاقت‘ دونوں طاقت وروں کے لیے قانون کی حکمرانی کو نرم کر سکتے ہیں جب کہ وہ جو طاقت کے بغیر ہیں‘ بے سہارا اور بے وسیلہ لوگ ہیں‘ مجرم نہ ہونے کے باوجود سالوں پراسیکیوشن برداشت کرتے ہیں! حتیٰ کہ اس وقت بھی جب وہ مجرم نہ ہوں۔ یہ طے ہے کہ جب تک انتظامی اور سیاسی معاملات میں دو رخی پالیسی ختم نہیں ہو گی‘ انصاف کے تقاضے بھی پورے نہیں ہو سکیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں