"IGC" (space) message & send to 7575

چین‘ پراکسی ٹیررازم کے خلاف پُرعزم

گزشتہ دنوں کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے قریب ایک وین پر خود کش بم حملہ، جس میں تین چینی ماہرینِ تعلیم ہلاک ہوئے، ایک اور بڑا صدمہ تھا‘ لیکن یہ حیران کن نہیں تھا۔ قابل فہم بات یہ ہے کہ چین کی وزارتِ خارجہ نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ''مطالبہ کیا‘‘ کہ پاکستان اس واقعے کے ذمہ داروں کو سزا دے، چینی شہریوں کو تحفظ فراہم کرے اور ایسے واقعات کے دوبارہ رونما ہونے کا سدِباب کرے۔ ایک بیان میں کہا گیا‘ ''چینی عوام کا خون رائیگاں نہیں جانا چاہیے، اس واقعے کے پیچھے جو لوگ ہیں وہ ضرور اس کی سزا پائیں گے‘‘۔
ٹھوس الفاظ والے اس پیغام نے قیاس آرائیوں کو جنم دیاکہ چینی اپنے تین شہریوں کے تازہ ترین نقصان پر کتنے ناراض ہیں‘ لیکن ساتھ ہی وہ نہ صرف پورے پاکستان میں چینیوں کے خلاف ہونے والی دہشتگردی کی کارروائیوں سے غافل نہیں بلکہ اس قسم کی دہشتگردی کی حرکیات کو پوری طرح سمجھتے بھی ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں سی پیک کے ترقیاتی منصوبے جاری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی ردِ عمل کے بعد 48 گھنٹوں کے اندر ایک ترجمان کا بیان چین اور پاکستان‘ دونوں کیلئے جیو پولیٹکس سے پیدا ہونے والے چیلنجوں کی نوعیت کا بے حد نپا تُلا عکاس تھا۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین نے کہا‘ ''پاکستان مجرموں کی تحقیقات اور تلاش کیلئے ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔ میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ دہشتگردی پوری انسانیت کی مشترکہ دشمن ہے۔ چین اور پاکستان‘ دونوں دہشتگردوں پر قابو پانے اور انہیں کیفرِ کردار تک پہنچانے کیلئے پُرعزم ہیں اور دونوں اس قابل ہیں کہ دہشتگردوں کو انجام تک پہنچا سکیں‘ آہنی دوستی کو دونوں ممالک میں مکمل عوامی حمایت حاصل ہے‘‘۔
درحقیقت ترجمان نے اس امر کی ایک جھلک پیش کی کہ بیجنگ کس طرح دوطرفہ تعلقات کو آگے لے جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا‘ ''چین نے ہمیشہ پاکستان کی قومی ترقی کی حمایت کی ہے۔ ہم پاکستان کی معاشی و سماجی ترقی اور لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کیلئے تعاون جاری رکھیں گے۔ پاکستانی حکومت نے ملک میں چینی اہلکاروں، منصوبوں اور اداروں کی سکیورٹی کو مضبوط بنانے اور کسی بھی طاقت کو عظیم پاک چین دوستی اور تعاون کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہ دینے کا عہد کررکھا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان سنجیدگی کے ساتھ یہ یقینی بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کرے گاکہ چین پاکستان تعاون محفوظ رہے اور ہموار طریقے سے آگے بڑھے‘‘۔
حکام نے اس بات پر بھی زور دیا کہ چین پاکستان دوستی اور تعاون کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی کوشش کو عوام ناکام بنا دیں گے۔ بیجنگ میں وزارت خارجہ نے کہا‘ ''ہم چینی شہریوں، اداروں، منصوبوں اور پاکستان میں موجود اہلکاروں کو یہ بھی یاد دلانا چاہیں گے کہ وہ اضافی حفاظتی اور احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور سکیورٹی کے خطرات پر پوری توجہ دیں‘‘۔
چینی حکام کو یہ بھی احساس ہے کہ پراکسی دہشتگردی‘ جس کا ہدف چین اور اس کے اتحادی ہیں‘ کے ساتھ ممکنہ روابط کی وجہ سے بلوچ شورش اب کوئی کم شدت والا تنازع نہیں رہا۔ بلوچ شرپسند کراچی، گوادر اور دیگر جگہوں پر چینی مفادات کو بڑی چالاکی سے نشانہ بنا چکے ہیں۔ اگست 2018 میں بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے دہشتگردوں نے کراچی میں چینی قونصل خانے کو نشانہ بنایا تھا۔ 2020 میں پاکستان سٹاک ایکسچینج پر ایک ایسا ہی حملہ ہوا تھا‘ جہاں چینیوں کی بڑی سرمایہ کاری ہے۔
ان کارروائیوں کا واضح مقصد پاکستان کے مالیاتی اور تجارتی اعصابی مرکز کو مختل کرنا ہے۔ یہ مقصد زیادہ تر خودکش بم دھماکوں کے ذریعے پورا کیا گیا‘ اور اس بار بی ایل اے نے ایک خاتون بمبار کو اس مقصد کیلئے تیار کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دہشتگردوں کی حکمت عملی بھی تبدیل ہو رہی ہے، خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ اتحاد کے بعد سے، جس نے بی ایل اے کے طریقہ ہائے واردات میں فدائین (خودکش بمبار) حملوں کو متعارف کرایا۔ بی ایل اے کا مجید بریگیڈ چائنہ مخالف حملوں میں کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ یہ بلوچ علیحدگی پسند تحریکوں کیلئے فدائین بھرتی کرتا، ان کی تربیت کرتا اور حملوں کیلئے فراہم کرتا ہے۔ بلوچستان کے مختلف حصوں میں کمیونٹی فوکسڈ سرگرمیوں کے ذریعے مقامی آبادی کیلئے خود کو پسندیدہ بنانے کی پوری کوشش کرتے ہوئے چینی حکام اور ان کی کمپنیاں ان تنظیموں کو پراکسی دہشتگردی کے آلہ کار کے طور پر دیکھتی ہیں‘ اور اسی لیے وہ صرف پاکستان کو اس حوالے سے ذمہ دار قرار دینے پر مائل نہیں ہیں۔
چینی قیادت جیوپولیٹکس کے تشویشناک نتائج پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے (یوکرین کی جنگ اور امریکی مفادات کیلئے ایک بڑے چیلنج کے طور پر چین کے ابھرنے کو امریکہ کی جانب سے بڑھا چڑھا کر پیش کرنا) یہ اس سوچ سے بھی واضح ہوتا ہے جس کا اظہار صدر شی جن پنگ نے بواؤ فورم برائے ایشیا کی سالانہ کانفرنس 2022 کی افتتاحی تقریب میں کیا۔ انہوں نے سب کیلئے ''مشترکہ، جامع، تعاون پر مبنی اور پائیدار‘‘ سلامتی کو برقرار رکھنے کا اپنا وژن متعارف کرایا اور اس بات پرزور دیا کہ تمام ممالک کی سلامتی کے جائز خدشات کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے‘ اور یہ کہ کسی ملک کی سلامتی کو دوسرے ملک کی سلامتی کی قیمت پر یقینی نہیں بنایا جانا چاہیے۔
2014 میں، شنگھائی میں ''ایشیا میں تعامل اور اعتماد سازی کے اقدامات‘‘ سے متعلق کانفرنس کے چوتھے سربراہی اجلاس میں، صدر شی جن پنگ نے ایشیا کیلئے مشترکہ، جامع، تعاون پر مبنی اور پائیدار سلامتی کی حکمت عملی کی تجویز پیش کی تھی۔ اگلے سالوں میں، صدر شی جن پنگ نے مسلسل اس تصور کو اجاگر کیا اور مختلف بین الاقوامی مواقع پر اس کی وکالت کی۔ چینی صدر کے مطابق دنیا کو صرف ایک یا چند ممالک کی سکیورٹی کا خیال نہیں رکھنا چاہیے‘ ایسی صورت میں کہ دوسروں کو غیرمحفوظ چھوڑ دیا جائے۔ ہر ایک کو علاقائی سکیورٹی کے معاملات میں حصہ لینے کا مساوی حق ہے اور سکیورٹی کو برقرار رکھنے کی یکساں ذمہ داری سب پر عائد ہوتی ہے۔
صدر شی جن پنگ کا سکیورٹی ویژن تمام ممالک کو پُرامن ذرائع سے تنازعات حل کرنے اور فوجی طاقت کے من مانے استعمال یا اس کے استعمال کی دھمکیوں کی مخالفت کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس اقدام کی پیروی کرتے ہوئے وزیر خارجہ وانگ یی نے اپنی ایک تحریر میں لکھا کہ شی جن پنگ کا اقدام کثیرجہتی کو برقرار رکھنے اور بین الاقوامی یکجہتی کے تحفظ کیلئے دنیا بھر کے ممالک کی مشترکہ امنگوں کو پورا کرتا ہے۔ یہ اس امتیازی رویے کا براہ راست حوالہ تھا‘ جو امریکہ کی قیادت میں مغرب بعض اوقات ان ممالک کیلئے اپناتا ہے جو اس (امریکہ) کے خیال میں آزادی اور جمہوری حقوق کے مغربی اصولوں کی تعمیل نہیں کرتے۔
بیجنگ کی قیادت کی طرف سے یقین دہانی کے باوجود پاکستانی قیادت کو بہانوں کی آڑ لینے کی ضرورت نہیں۔ صرف چینی سکیورٹی پر توجہ مرکوز کرکے حکام کو بلوچستان میں پسماندگی، انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں، بیروزگاری اور لاپتہ افراد کے سر اٹھاتے ہوئے ایشو جیسے گمبھیر مسائل سے غافل نہیں ہوجانا چاہئے۔ غیر ضروری قیاس آرائیوں اور تنقید کو روکنے کیلئے ہمیں کھلے عام ان سے ایک جامع انداز میں نمٹنے کی ضرورت ہے۔ کسی کو غدار یا ریاست مخالف قرار دینے کے بجائے، بہترین طریقہ یہ ہے کہ نوجوانوں کو مصروف کیا جائے اور ان کیلئے تعلیم، ہنر کو نکھارنے اور تفریح کی گنجائش پیدا کی جائے۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ پورے بلوچستان اور خاص طور پر گوادر کو سی پیک کے تحت ترقی اور خوشحالی حاصل ہو تو ہمیں بلوچوں‘ بالخصوص نوجوانوں کی شکایات کے ازالے کیلئے ایک وسیع البنیاد، کثیر جماعتی طریقہ کار اپنانے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں