"IGC" (space) message & send to 7575

موجودہ صورتحال سے کیسے نکلا جائے؟

2013 کے الیکشن میں عمران خان کی جماعت نے خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی جبکہ 2018 میں تحریک انصاف مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ عمران خان کے پاس حکومت کرنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا‘ نہ کوئی خاص ٹیم جس سے امورِ مملکت چلائے جا سکتے۔ عام عوام کے لیے حکومت کی کارکردگی اتنی تسلی بخش نہیں تھی کیونکہ خاص طور پر مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا تھا‘ اور 2022 میں تو حالت یہ تھی کہ لوگ تحریک انصاف کو گالیاں دے رہے تھے کہ ان سے تو وہ دوسری جماعتیں اچھی ہیں‘ کیونکہ ان کے دور حکومت میں عوام پر ایسا بوجھ کبھی نہیں پڑا تھا۔ تحریک انصاف کے جذباتی کارکن بھی منہ چھپائے پھر رہے تھے کیونکہ حکومت کی کارکردگی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ سب کا خیال تھا کہ 2023 میں تحریکِ انصاف کو عوام کا جواب مل جائے گا کیونکہ چند ہفتے قبل خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا جو پہلا مرحلہ ہوا تھا‘ ان میں بہت سارے لوگ ایسے تھے جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر نہیں بلکہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے کیونکہ ان کو پتہ تھا کہ لوگ پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اور جب اس الیکشن کا نتیجہ آیا تو جے یو آئی سویپ کر چکی تھی۔
پھر یکدم‘ چند ہی دنوں میں اپوزیشن کی تقریباً ساری یعنی 13 جماعتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان پر عدم اعتماد کے صلاح مشورے ہونے لگتے ہیں اور پھر ایک روز قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع بھی کرا دی جاتی ہے۔ انہی دنوں میں تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے کوئی درجن بھر ممبران کا ضمیر بھی خلاف توقع جاگ جاتا ہے۔ حکومت پاکستان نے روس اور یوکرین کے معاملے پر جو پوزیشن لی تھی‘ عسکری ذرائع اس پوزیشن کے برعکس بیان دے دیتے ہیں۔ عدم اعتماد پر ووٹنگ والی رات سپریم کورٹ آف پاکستان اور اسلام آباد ہائی کورٹ بھی رات 12 بجے کھل جاتی ہیں۔ قومی اسمبلی کے باہر قیدیوں والی گاڑی بھی دکھائی دیتی ہے اور یوں عمران خان پاکستان کی آئینی تاریخ میں ایسے پہلے وزیر اعظم بن جاتے ہیں‘ جن کو عدم اعتماد کے ذریعے گھر کا راستہ دکھایا جاتا ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ حکومت کے بالکل آخری ٹائم پر عمران خان نے صحافیوں سے پوچھا تھا کہ کوئی رہ تو نہیں گیا جو میرے خلاف نہ ہو‘ اور وزیر اعظم ہائوس سے جب وہ نکل رہے تھے تو ہاتھ میں بس ایک ڈائری تھی۔ اس کے بعد کوئی دس بارہ گھنٹوں کے لیے ملک میں خاموشی رہی اور پھر یکدم کراچی میں ہزاروں لوگوں کے بیک وقت گنگنائے گئے قومی ترانے سے سوشل میڈیا کے در و دیوار ہل گئے۔ پتہ چلا کہ نہ صرف کراچی بلکہ لاہور، پشاور، کوئٹہ، فیصل آباد، ملتان، اسلام آباد بلکہ پورے ملک میں یہی حالت ہے اور لاکھوں لوگ عمران خان کے اس طرح نکالے جانے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اس رات جو لاکھوں لوگ نکلے تھے ان کی خاصیت یہ تھی کہ ان سارے مظاہروں کو لیڈر لیس مظاہروں کا نام دیا گیا کیونکہ کسی بھی مظاہرے میں کہیں بھی کوئی قابل ذکر لیڈر نہیں تھا۔
ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا کہ کسی وزیر اعظم کے نکالے جانے پر لوگ اس قدر نکل آئے‘ حالانکہ عمران خان سے پہلے 21 وزرائے اعظم اور بھی گزرے ہیں‘ جن میں ایک نے بھی اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی لیکن کسی کے لیے بھی کوئی مظاہرہ نہیں ہوا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا؛ تاہم چند مظاہروں کے بعد ان کا معاملہ بھی ٹھنڈا ہو گیا، لیکن اس دفعہ حالات اور ہیں۔ اس دفعہ عمران خان نے اپنی وزارت عظمیٰ کھونے کے بعد پشاور میں جو جلسہ کیا اس میں لاکھوں لوگ تھے‘ ہزاروں تھے‘ یہ کسی کو شاید نہیں معلوم‘ لیکن یہ سب کو معلوم ہے کہ لوگ بہت زیادہ تھے۔
اس کے بعد لاہور، کراچی، فیصل آباد، صوابی، جہلم، مردان وغیرہ میں جلسے کئے اور ہر جلسے میں پہلے سے لوگ زیادہ پائے گئے۔ حیران کن بات یہ ہے لوگ ان جلسوں میں کہہ رہے ہیں کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ عمران خان کی حکومت نے ایسا کوئی قابل ذکر کارنامہ عوام کے لیے سرانجام نہیں دیا لیکن یہ ہمارا اور عمران خان کا معاملہ تھا‘ ہم نے خود یہ حساب 2023 میں برابر کرنا تھا‘ کسی کو یہ جرأت کیسے ہوئی کہ ہمارے ایک منتخب نمائندے کو اس طرح ہٹایا گیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں لوگ عمران خان کے حق میں نکلے ہیں وہاں وہ اپنے ووٹ کی بے حرمتی کے خلاف بھی نکلے ہیں۔
اب جو لوگ عمران خان کے خلاف سازش میں شریک تھے ان کو ہزیمت کا سامنا ہے اور وہ منہ چھپائے پھر رہے ہیں کیونکہ عوام کسی کو بھی نہیں بخش رہے‘ چاہے وہ موجودہ حکومت ہو، عدلیہ ہو، صحافتی ادارے ہوں، یا پھر اسٹیبلشمنٹ ہو، عوام کے غیظ و غضب سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے اور نئی حکومت کے آنے کے بعد ٹویٹر پر ایک ٹرینڈ شروع ہوا (امپورٹڈ حکومت نامنظور) اور وہ ٹرینڈ آج بھی برقرار ہے۔ ٹویٹر کے ہیڈ کوارٹر کے مطابق یہ تاریخ کا سب سے بڑا اور طویل ٹرینڈ ہے جو اس وقت چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ عمران خان نے صرف ٹویٹر سپیس پر ایک لاکھ 65 ہزار لوگوں سے بیک وقت بات چیت کر کے ایک نیا ریکارڈ بنا دیا ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان اب ایک لیڈر ہی نہیں بلکہ ایک انقلاب کی علامت بن چکے ہیں اور اگر دیکھا جائے تو ایسی حالت پاکستان میں پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ملک کی 13 جماعتیں ایک طرف ہیں‘ اور عمران خان دوسری طرف۔ آج کل حالت یہ ہے کہ یا تو بندہ عمران خان کے حق میں ہے‘ یا پھر مخالف‘ کوئی تیسرا فریق بیچ میں نہیں ہے۔ کوئی (نیوٹرل) نہیں رہا۔ ابھی تک صحافتی برادری بھی غیر جانب داری کا مظاہرہ کر رہی ہے لیکن آج کل کھلے عام پتہ چل رہا ہے کہ کون سا صحافی کس پارٹی کو سپورٹ کر رہا ہے۔ کون سا نیوز چینل کون سی پارٹی کو سپورٹ کر رہا ہے۔ اور تو اور ہمارے ڈی جی آئی ایس پی آر کو بھی بیان دینا پڑا ہے کہ فوج میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کرے ایسا ہی ہو۔ سب کسی ایک طرف ہو چکے ہیں۔ سب نے کسی ایک نظریے کو اختیار کر لیا ہے۔
اس ساری صورتِ حال کی وجہ کیا ہے؟ میرے نزدیک وجہ یہ ہے کہ عمران خان سے حکومت چھین کر جس شہباز شریف کو تھمائی گئی ہے ان پر اربوں روپے کے کرپشن کے الزام ہیں اور ان پر فرد جرم اسی دن عائد ہونا تھا جس دن انہوں نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تھا۔ اب معاشی صورت حال یہ ہے کہ ڈالر 200 روپے سے زیادہ کا ہو چکا ہے اور اب مہنگائی ایک بار پھر خلائی راکٹ کے رفتار سے اوپر جائے گی۔ پٹرول کی قیمتیں اگر بڑھائی جاتی ہیں تو مہنگائی تباہی مچا سکتی ہے۔ اگر نہیں بڑھائی جاتی تو آئی ایم ایف قرضہ نہیں دیتا۔ میرے خیال میں اس صورتِ حال سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ الیکشن ہو‘ اور صاف ستھرا الیکشن ہو، کیونکہ وقت آگیا ہے کہ عوام اپنے لیے خود فیصلے کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں