"JDC" (space) message & send to 7575

تاجک حکایات

تاجکستان سنٹرل ایشیا کا واحد ملک ہے جہاں اکثریت فارسی بولتی ہے۔ سنٹرل ایشیا کے باقی ممالک کی زبانیں ترکی سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ صرف تاجک لوگ ایسے ہیں جو ''خانہ بدوش نہ تھے‘ ورنہ ازبک‘ ترکمان اور گرغیز اکثر و بیشتر چرواہے تھے جو پانی اور سبزے کی تلاش میں اپنے مستقر بدلتے رہتے تھے ۔ یہاں اس بات کی وضاحت کردوں کہ سمرقند اور بخارا شریف دونوں پرانے تاجک شہر ہیں‘ جہاں آج بھی فارسی بولی جاتی ہے گو کہ یہ دونوں تاریخی شہر اب ازبکستان میں واقع ہیں۔
میں جنوری 1995ء میں تاجکستان میں پاکستان کا پہلا سفیر مقرر ہوا۔ اس سے پہلے وہاں ہمارے سفارت خانے کا سربراہ ناظم الامور ہوتاتھا۔ ناظم الامور کا درجہ سفیر سے کم ہوتا ہے۔ جب میں نے تاجک صدر امام علی رحمانوف کو اسناد سفارت پیش کیں تو فرمانے لگے کہ آج کا دن پاک تاجک تعلقات میں تاریخی دن کے طور پر یاد کیاجائے گا۔
فارسی بے حد شیریں زبان ہے اور خاصی آسان بھی۔ میں نے سکول میں فارسی پڑھی تھی اور تاجک صدر کی باتیں کافی حد تک مجھے سمجھ آرہی تھیں۔ تاجک اپنی زبان کو تاجکی کہتے ہیں۔ تاجکی کلاسیکل فارسی اور درّی سے خاصی قریب ہے۔ البتہ اب یہ روسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے جو کہ مغربی ابجد سے ہی تشکیل ہوا ہے‘ لیکن ابجدی حروف کی آوازیں ذرا مختلف ہیں۔ دوسرے سوویت غلبے کی وجہ سے تاجکی میں روسی الفاظ کافی داخل ہوچکے ہیں‘ بالکل ویسے ہی جیسے ہماری اردو نے انگریزی کے متعدد الفاظ اپنالیے ہیں۔
تاجکی زبان سیکھنے کے لیے میں نے پروفیسر عظیم بیضائف کی خدمات حاصل کیں۔ موصوف انگریزی جانتے تھے اور کئی مغربی سفارت کاروں کو تاجکی پڑھا چکے تھے۔ میرا کام نسبتاً آسان تھا۔ فارسی گرامر اور الفاظ سے میں آشنا تھا‘ بس ریفریشر کورس کرنا تھا۔ مقصد روزمرہ بول چال میں مہارت حاصل کرنا تھا۔ یہ ہدف میں نے دو تین ماہ میں حاصل کرلیا۔ اب ایک اور مسئلہ شروع ہوا۔ فارن سروس میں آکر میں نے غربی ز بان سیکھی۔ فارسی ، عربی اور اردو میں بہت سے الفاظ مشترک ہیں۔ کئی الفاظ ایسے ہیں کہ ان کے تینوں زبانوں میں معانی مختلف ہیں‘ لہٰذا متشابہ زبانیں سیکھ کرکچھ کنفیوژن بھی ہوتا ہے۔ استاد عظیم بیضائف کا زبان سکھانے کا اسلوب خاصا دلپزیز تھا۔ وہ مجھے ایک تاجکی کہانی سناتے تھے اور بعد میں سوال پوچھتے تھے۔ تمام گفتگو تاجکی میں ہی ہوتی تھی۔ جو کہانیاں میں نے اپنے استاد سے سنیں‘ وہ درجنوں کی تعداد میں تھیں لیکن ان میں سے تین مجھے آج بھی یاد ہیں۔ یہ قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
ایک نوجوان ایک دوشیزہ کی محبت میں بری طرح گرفتار ہوگیا۔ آگ شاید دونوں طرف نہیں لگی ہوتی تھی یا یوں سمجھیے کہ دوشیزہ نے نوجوان سے جان چھڑانے کے لیے بڑی ہی کڑی شرط عائد کردی۔ اس نے نوجوان سے کہا کہ اپنی وفا اور خلوص ثابت کرنے کے لیے اپنی ماں کا کلیجہ لے کر آئو ، یہ کام تم نے کردیا تو میں شادی کے لیے تیار ہوں۔ نوجوان عشق میں اندھا ہوچکا تھا۔ وہ فوراً گھر گیا‘ اپنی ماں کو قتل کیا اور کلیجہ ہاتھوں میں لے کر اپنی محبوبہ کی طرف روانہ ہوا۔ وہ احساس گناہ کی وجہ سے لرزاں تھا۔ اس کے ہاتھ کا نپ رہے تھے ۔ جسم پسینے سے شرا بور تھا۔ اس پریشانی کی حالت میں اس کا پائوں ایک پتھر سے ٹکرایا اور نوجوان گرگیا۔ ماں کا کلیجہ اس کے ہاتھ سے پھسلا اور زمین پر گر گیا۔ اب گرے ہوئے کلیجے سے نوجوان کو آواز آئی‘ اے میرے بیٹے! تمہیں زیادہ چوٹ تو نہیں لگی۔ مجھے آج بھی یاد ہے اس حکایت کے اختتام پر استاد بیضائف کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
دوسری حکایت یوں تھی کہ ایک جوتے بنانے والا ادب دوست بھی تھا اور ایک اخلاق آموز کہانیاں لکھنے والا ادیب اس کا فیورٹ رائٹر تھا۔ پاپوش باف کو بہت شوق تھا کہ اتنی خوبصورت اور اخلاق سکھانے والی حکایات تحریر کرنے والے ادیب کو ضرور ملے۔ اس کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوچکی تھی کہ اتنی اچھی کہانیوں کا خالق خود بھی بہت بااخلاق اور نفیس شخص ہوگا۔ پاپوش ساز ادیب کے شہر گیا اور بڑے شوق سے اس کی خدمت میں حاضر ہوا۔ گفتگو شروع ہوئی۔ پاپوش باف کہنے لگا کہ آپ کی حکایات اخلاق آموز ہوتی ہیں یقیناً آپ کا اپنا اخلاق بھی بہت بلند ہوگا۔ ادیب خوب ہنسا اور پاپوش باف حیران ہوا کہ قہقہے کا سبب کیا ہے۔ اتنے میں ادیب نے شو میکر سے پوچھا: ''کیا وہ تمام جوتے جو تم بناتے ہو تم وہ سب خود پہنتے ہو‘‘۔ پاپوش باف نے نفی میں جواب دیا اور ادیب نے کہا کہ امید ہے تم جیسا عقلمند انسان میرا جواب سمجھ چکا ہوگا۔
تیسری کہانی ایسے تھی کہ ایک ساٹھ سالہ شخص کی شدید خواہش تھی کہ اس کی عمر طویل ہو۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ علاقے میں لمبی عمر کے لوگوں سے ملاقات کرے اور ان کی طویل العمری کا راز پوچھے۔ پتہ چلا کہ ساتھ والے گائوں میں ایک ستر سالہ شخص رہتا ہے۔ یاد رہے کہ زمانہ قدیم میں ستر سال کی عمر خاصی لمبی تصور ہوتی تھی۔ نوجوان اس شخص کے پاس گیا اور اپنا مدعا بیان کیا۔ ستر سالہ شخص نے جواب دیا کہ میں تمہیں ضرور اپنی طویل عمر کا راز بتاتا‘ مگر ساتھ والے گائوں میں ایک اسی سالہ شخص رہتا ہے تم اس کے پاس جائو؛ چنانچہ ساٹھ سالہ شخص اگلے گائوں گیا اور معمر شخص کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی خواہش بیان کی ۔ معمر شخص نے غور سے بات سنی اور جواب دیا کہ میں تمہاری خواہش کے مطابق ضرور اپنی لمبی عمر کا راز بیان کرتا لیکن مجھے معلوم ہے کہ ہمسایہ گائوں میں ایک نوے سالہ بزرگ رہتے ہیں وہ طویل العمری کے راز مجھ سے یقیناً بہتر جانتے ہوں گے۔ چنانچہ مسافر اگلے گائوں روانہ ہوا اور نوے سالہ شخص کے گھر پہنچ 
کر اپنا مدعا بیان کیا۔ بزرگ بولے: ''کھانے کا وقت ہے تشریف رکھیں ۔ پہلے کھانا کھاتے ہیں اور پھر میں تمہارے سوال کا جواب دوں گا‘‘۔ تاجک مہمان نوازی کے لیے مشہور ہیں۔
نوے سالہ بزرگ نے مہمان کے ہاتھ دھلوائے۔ دستر خوان بچھایا اور بیوی سے کہا کہ کھانا لے کر آئے ۔ کھانا کھا چکے تو طویل عمر کے اسباب کے بارے میں سوال پھر اٹھایاگیا۔ بزرگ بولے: ''کھانے کے بعد فروٹ کھاتے ہیں بعد میں تمہارے سوال کا جواب دوں گا‘‘۔ پھر اپنی بیوی سے گویا ہوئے کہ اچھا سا تربوز لے کر آئو۔ بیوی گھر کے اندر گئی اور ایک تربوز لاکر اپنے شوہر کے سامنے رکھ دیا۔ بڑے میاں نے تربوز کو غور سے دیکھا اور بولے کہ بی بی یہ ہمارے خاص مہمان ہیں یہ تربوز اچھا نہیں اسے واپس لے جائو اور اچھا سا تربوز لے کر آئو ۔ بیوی تربوز اٹھا کرلے گئی اور ایک اور تربوز لے آئی۔ بزرگ نے تربوز کو ہر طرف سے دیکھا اور پھر گویا ہوئے بی بی یہ بہت اہم مہمان ہیں ان کے لیے سب سے اچھا تربوز لے کر آئو ۔ ان کی نصف بہتر نے خاموشی سے تربوز اٹھایا اور تھوڑی دیر بعد ایک اور تربوز لے کر آگئیں۔
اب نوے سالہ بزرگ بولے: ''حضرت کیا آپ کو میری طویل العمری کا راز سمجھ آیا؟‘‘ ساٹھ سالہ شخص بولا: ''نہیں‘‘۔ بزرگ گویا ہوئے‘ ہمارے گھر میں تربوز ایک ہی تھا‘ میں نے بیوی سے جو کہا اس نے فوراً میری بات کو سمجھا اور حکم کی تعمیل کی‘ اگر میاں بیوی میں مکمل مفاہمت ہو تو گھر میں برکت ہوتی ہے۔ ان کے گھر میں کم بھی ہو تو زیادہ نظر آتا ہے اور میاں بیوی کی مکمل مفاہمت دونوں کو لمبی عمر اور خوشیاں عطا کرتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں