"JDC" (space) message & send to 7575

دنیا کے میلے

خوشی اور غم زندگی کا حصہ ہیں۔ انسان تنہا زندگی نہیں گزار سکتا۔ وہ کسی نہ کسی فیملی ‘قبیلہ‘ گائوں‘ شہر اور ملک سے منسلک ضرور ہوتا ہے۔ اس لیے بہت ساری خوشیاں اور غم بھی اجتماعی ہوتے ہیں۔ کچھ خوشی کے تہوار مذہبی نوعیت کے ہوتے ہیں مثلاً عید یا کرسمس۔ لیکن میں ایسے تہواروں کے بارے میں لکھ رہا ہوں جو کہ خاصی حد تک سیکولر ہیں اور ان کی کلچرل روایت پرانی ہے۔ یہ وہ تہوار اور میلے ہیں جو میں نے اپنی فارن پوسٹنگ کے دوران دیکھے ہیں۔
میری سب سے لمبی پوسٹنگ سعودی عرب میں رہی جہاں میں نے ساڑھے سات سال گزارے۔سعودی عرب کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہاں زندگی مذہب کے گرد گھومتی ہے اور یہ تاثر ایک حد تک صحیح بھی ہے لیکن عرب اسلام سے پہلے بھی توانا ثقافتی روایات رکھتے تھے اور وہ ان روایات کا آج بھی فخر سے ذکر کرتے ہیں۔ آپ نے سوق عکاظ کا نام سُنا ہو گا۔یہ ایک سالانہ میلہ نما بازار تھا جو طائف میں لگتا تھا۔یہاں دو چیزیں بہت اہم تھیں ایک تجارت اور دوسری شاعری۔نامی گرامی شعراء اپنے اپنے قصیدے سناتے تھے۔ شاعری کے اس مقابلے کے باقاعدہ جج ہوتے تھے اور اول آنے والے قصیدے کو خانہ کعبہ کی دیوار پر ایک سال کے لیے لٹکا دیا جاتا تھا۔ وہ تمام شاندار قصیدے جنہیں یہ شرف حاصل ہوا انہیں معلقّات کہا جاتا ہے۔ عربی شاعری کے شغف رکھنے والے آج بھی معلقات پڑھتے ہیں۔ کوئی دو سال پہلے کی بات ہے اخباروں میں آیا تھا کہ مکہ المکرمہ کے گورنر پرنس خالد الفیصل سوق عکاظ کا احیا چاہتے ہیں۔ پرنس خالد الفیصل خود بھی نامور شاعر ہیں عرب معاشرے میں شروع سے شعرا کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ 1985ء میں سفارت خانہ پاکستان جدہ سے ریاض منتقل ہوا۔مجھے یاد ہے اسی سال ریاض کے قریب جنادریہ میں لوک میلے کا آغاز ہوا جنادریہ کا ثقافتی میلہ دو ہفتے چلتا تھا۔ اس کے بانی موجودہ بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز تھے جو اس زمانے میں کرائون پرنس تھے۔ اس میلے کا سب سے دلچسپ آئٹم اونٹوں کی دوڑ تھی۔ اس کے علاوہ فوک موسیقی اور فوک ڈانس بھی میلہ کا حصہ تھے۔ گاجر اور میدے سے بنایا ہوا روایتی کیک مہمانوں میں تقسیم ہوتا تھا۔ فوک رقص میں مجھے غرضہ بے حد پسند آیا ۔ غرضہ فتح کا رقص ہے۔ نوجوان لڑکے یہ رقص ہاتھ میں تلوار پکڑ کرکرتے ہیں اور ساتھ ساتھ فتح کی خوشی کے گانے گاتے ہیں۔ 
عرب دنیا میں میری سب سے پہلی پوسٹنگ قاہرہ میں تھی۔ مصر میں شم النسیم کا تہوار بہت اہم ہے۔ اس تہوار کی تاریخ چار ہزار سال پرانی ہے۔ یہ جشن اپریل کے مہینے میں ایسٹر کے فوراً بعد منایا جاتا ہے۔ یہ بہار کی آمد کا جشن ہے۔مسلمان اور مسیحی سب اس تہوار کو مناتے ہیں۔ شم النسیم کا لفظی معنی تازہ ہوا میں سانس لینا ہے۔ اس دن دریائے نیل میں بے شمار کشتیاں نظر آتی ہیں۔ ایک خاص طرز کی مچھلی پکائی جاتی ہے اور انڈے ابال کر ان کے اوپر رنگ کیا جاتا ہے اور پھر مہمانوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ پُرانا مصری عقیدہ تھا کہ کرہ ارض پر افرینش حیات اسی روز ہوئی تھی۔ قدیم مصر میں لوگ انڈے اُبال کر ان کے اوپر دعائیں اور نیک خواہشات لکھ کر درختوں پر باندھ دیتے تھے۔ ان کا اعتقاد تھا کہ اس طرح یہ دعائیں شرفِ قبولیت پاتی ہیں۔ اب یہ اعتقاد تو بدل چکا ہے البتہ روایت کے طور پر رنگین انڈے اب بھی شم النسیم کا حصہ ہیں۔
دوشنبے میں قیام کے دوران جشن نوروز کو تین مرتبہ دیکھا۔ نو روز21مارچ کو منایا جاتا ہے اور جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ نو روز بہار کی آمد کی علامت ہے ۔ عام خیال یہ ہے کہ 21مارچ کو روز و شب کا دورانیہ بالکل برابر ہوتا ہے اور سورج بُرج حوت سے نکل کر بُرج حمل میں داخل ہوتا ہے۔ نو روز دراصل ایرانی جشن بہاراں ہے لیکن اب نو روز افغانستان پورے سنٹرل ایشیا اور ترکی کے مشرقی حصے میں بھی منایا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم میں مختلف علاقوں کے والی نو روز کے دن شہنشاہ آریہ مہر کے پاس بیش بہا تحفے تحائف لے کر حاضر ہوتے تھے۔ نو روز دوشنبے میں بلکہ پورے تاجکستان میں بہت جذبے سے منایا جاتا ہے۔ پورے ملک میں پکنک کا سماں ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں برف باری خوب ہوتی ہے ۔ اکیس مارچ تک برف کی لحاف پگھل جاتی ہے اور سبز رنگ ہر طرف نمایاں ہوتا ہے۔ اب چونکہ تہران‘ تاشقند اور دوشنبے جیسے شہروں میں اکثریت فلیٹوں میں رہتی ہے لہٰذا لوگ گملوں میں گندم کے بیج ڈال دیتے ہیں اور نو روز پر یہ گملے بہار کی علامت بن جاتے ہیں۔ تاجک رقص و سرود کے دلدادہ ہیں۔ ہر طرف موسیقی کے سر بکھیرتے ہیں۔ نوجوان لڑکیاں شوخ رنگوں والی ریشمی قمیضیں پہنتی ہیں۔ جب میں دو شنبے 1994ء میں پہنچا تو ملک نیا نیا سول وار سے نکلا تھا۔ تاجک عمومی طور پر افسردہ تھے کیونکہ دوشنبے میں پچاس ہزار لوگ ہلاک ہو چکے تھے ۔ لیکن نو روز جیسے تہوار اور جشن غم بھلانے کا ذریعہ بھی تو ہیں۔آہستہ آہستہ لوگ جشن نو روز دوبارہ منانے لگے۔ 2010ء میں یونیسکو نے جشن نو روز کو انسانی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔ اس لیے کہ نو روز پرانا جشن ہے جو اب بہت بڑے خطے میں منایا جاتا ہے۔
اور اب چلتے ہیں رنگون جہاں واٹر فیسٹیول بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے۔واٹر فیسٹیول برما کے علاوہ تھائی لینڈ لائوس اور کمبوڈیا میں بھی ہوتا ہے ۔ یہ بھی موسمی تہوار ہے۔اپریل کے وسط میں واٹر فیسٹیول دھوم دھام سے ہوتا ہے۔اپریل اس علاقے کا گرم ترین مہینہ ہے۔ واٹر فیسٹیول کے بعد موسم برسات شروع ہوتا ہے جو چھ ماہ جاری رہتا ہے تو گویا واٹر فیسٹیول برسات کا استقبال ہے۔ لوگ سڑکوں پر نکل کر ایک دوسرے پر پانی پھینکتے ہیں۔بنکاک میں دریا میں ڈریگن ریس ہوتی ہے۔ یہ کشتیوں کی ریس ہے جو ڈریگن کی شکل کی بنائی جاتی ہیں۔گھر کی پرانی اشیا باہر پھینک دی جاتی ہیں یا غریبوں کو دے دی جاتی ہیں۔ فیسٹیول کے تیسرے روز گوتم بدھ کے مجسمے دھوئے جاتے ہیں۔تازہ ناریل کیلے کے پتوں پر رکھ کربدھ بھکشوئوں کو دیے جاتے ہیں۔
رنگون میں واٹر فیسٹیول کے موقع پر وزارت خارجہ سفراء کو مدعو کرتی تھی اور پھر ایک بس میں بیٹھا کرانہیں پورے شہر کی سیر کرائی جاتی تھی۔ آج کل منچلے نوجوان واٹر گن کی مد د سے بہت زور سے ایک دوسرے پر پانی پھینکتے ہیں۔ دوپہر کو سٹی ہال میں میئر کی طرف سے کھانے کا اہتمام ہوتا تھا جہاں سفرا ئے کرام اور چیدہ چیدہ لوگ مدعو ہوتے تھے۔ مجھے یاد ہے اس روز پورا رنگون بھیگا بھیگا ہوتا تھا۔کینیڈا میں قیام کے دوران میں نے عجیب و غریب کارنیوال دیکھا جو جلوس کی شکل میں چلتا ہے اور سخت سردی کے موسم میں یہ پریڈ رات کو ہوتی ہے۔ کینیڈا میں پانچ ماہ سخت سردی ہوتی ہے اور ہر طرف برف ہی برف ہوتی ہے۔یہ کارنیوال کیوبک کے شہر میں ہوتا ہے۔ لوگ برف سے مجسمے بناتے ہیں۔مختلف فلوٹ کارنیوال میں آہستہ آہستہ چلتے ہیں اور لوگ رقص و سرود میں مشغول ہوتے ہیں ۔ دراصل کینیڈا کے لوگ لمبے موسم سرما میں گھروں گھروں میں بیٹھ بیٹھ کر اکتا جاتے ہیں لہٰذا اس موسم کی بوریت کو ختم کرنے کے لیے سردیوں میں بھی ایک روز ہ میلے لگتے ہیں۔ اگر ویک اینڈ ہو اور دھوپ نکلی ہوئی ہو تو برف سے بھی لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں برف کے مجسمے بناتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی دکانیں لگا کر دستکاریاں بیچتے ہیں۔ اس مارکیٹ کو فلیFleaمارکیٹ کہا جاتا ہے۔انہی برف کے میلوں کے تناظر میں کینیڈا کے اردو شاعر نے ایک شعر کہا تھا جو بہت ہی مقبول ہوا تھا۔آپ بھی سنیے ؎
کل دھوپ کے میلے میں خریدے تھے کھلونے
جو موم کا پتلا تھا وہ گھر تک نہیں پہنچا
خوشی اور غم زندگی کا حصہ ہیں۔دنیا کے ہر خطے میں میلے لگتے ہیں۔یونان کے میلوں کا احوال گھر کبھی سہی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں