"JDC" (space) message & send to 7575

یونانی جزیرے

بحیرۂ روم کو دنیا کا شریف ترین سمندر کہہ سکتے ہیں‘ چونکہ اس سمندر کی لہروں میں کچھ اضطراب مہینے کی مخصوص تاریخوں میں آتا ہے کہ مد وجزر کا سلسلہ چندا ماموں کے ساتھ منسلک ہے اور وہ اضطراب بھی برائے نام ہی ہوتا ہے۔ اس سمندر کے اس قدر شریف ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ دو براعظموں کے درمیان ہے اور اس کا طول تو خاصا ہے مگر عرض کافی کم۔ لہٰذا دو براعظموں کے درمیان پھنسا ہوا یہ پانی زیادہ ٹھاٹھیں مارنے کے قابل نہیں اور پھر اس سمندر میں ہزاروں جزیروںکا وجود اسے مزید شریف بنا دیتا ہے۔ بحیرہ روم یوں سمجھئے کہ شام اور لبنان کے ساحلوں سے شروع ہوکر سپین اور مراکش کے ساحلوں تک جاتا ہے۔ شمال میں ترکی، یونان، اٹلی اور سپین واقع ہیں تو جنوب میں مصر، لیبیا، تونس، الجزائر اور مراکش۔
یونان کی آبی حدود میں تقریباً بارہ سو جزیرے ہیں۔ میں ایتھنز میں اپنے قیام کے دوران صرف بارہ جزیرے دیکھ سکا‘ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ سفیر کا ٹریولنگ (سفری) الائونس لامحدود نہیں ہوتا، دوسرا‘ کسی بھی جگہ دارالحکومت سے باہر دورہ کرنے کے لیے سرکاری کام کا ہونا بھی لازمی ہے اورکامیاب دورہ وہ ہوتا ہے جس کے بعد کوئی مفید رپورٹ اسلام آباد بھیجی جائے لیکن جو بارہ جزیرے میں نے دیکھے وہ خاصے اہم اور مشہور ہیں۔ کریٹ (Crete) یونان کا سب سے بڑا جزیرہ ہے اور سیاحت کے لیے بہت پسندیدہ مقام ہے۔ یونان کی اپنی کل آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے جبکہ وہاں آبادی سے زیادہ سیاح آتے ہیں۔ یونان کا زرمبادلہ کمانے کا بڑا ذریعہ سیاحت ہے۔ کریٹ کی اپنی آبادی سوا چھ لاکھ ہے۔ طول میں یہ جزیرہ تقریباً ڈیڑھ سو میل ہے۔ یہ بحیرہ روم کے جنوب میں لیبیا کے قریب واقع ہے جن لوگوں نے مشہور ناول Zorba The Greek پڑھا ہے یا اس پر بنائی ہوئی انتھونی کوئن کی فلم دیکھی ہے انہیں کریٹ کا ضرور علم ہو گا۔
میں ایتھنز سے بذریعہ ہوائی جہاز کریٹ گیا اور اگلے روز واپس آ گیا۔ سفارت خانہ نے ایتھنز کے مشہور ہوٹل ہلٹن میں پاکستانی برآمدات کی تین روزہ نمائش کا اہتمام کیا تھا۔ کریٹ میں سیاحوں کے لیے بے شمار ہوٹل ہیں، ان ہوٹلوں میں پاکستان کے بنے ہوئے تولیے اور بیڈ شیٹ استعمال ہوتی تھیں۔ ہمارا مقابلہ ترکی، مصر اور بھارت سے تھا۔ میں کریٹ چیمبر آف کامرس والوں کو نمائش میں شرکت کی دعوت دینے خود گیا تھا۔ چیمبر کے صدر نے نہ صرف ایئر پورٹ پر استقبال کیا بلکہ تمام ممبران سے ملاقات بھی اپنے دفتر میں کرائی۔ مجھے یاد ہے ان میں کئی لوگ ہماری نمائش دیکھنے کے لیے ایتھنز آئے۔ برآمدات کی نمائش کے ساتھ ایک شام ہلٹن میں ہی دو سو مہمانوں کا میری طرف سے ڈنر تھا جس کے لیے پی آئی اے نے خصوصی طور پر شیف کراچی سے بھیجا تھا۔ کریٹ کے مہمان بھی ڈنر کے لیے آئے اور پاکستانی کھانوں کو خوب سراہا گیا۔ جس ہال میں ڈنرتھا وہیں پر درمیان میں کیٹ واک کا بندوبست تھا۔ پاکستانی فیشن شو نے ملک کے تاثر کو نئی جہت دی۔ ونیزہ احمد پاکستانی ماڈلز کو لیڈ کر رہی تھیں، دو تین یونانی ماڈلز بھی شامل کر لی گئی تھیں۔ پاکستانی لباس پہن کر وہ دیویاں لگ رہی تھیں۔ مجھے اس
بات کی خوشی تھی کہ سفارت خانے اور ایکسپورٹ پروموشن بیورو کی محنت رنگ لائی اور ہماری برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔
روڈس (Rhodes) یونان کا ایک اور بڑا جزیرہ ہے جو شمال مشرق میں ترکی کے قریب واقع ہے۔ اس جزیرے پرآثار قدیمہ بے شمار ہیں۔ جزیرے کی قدیم عمارات کو بین الاقوامی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ بنوامیہ کے دور میں یہ جزیرہ مسلمانوں نے فتح کیا پھر یہ سلطنت عثمانیہ کا بھی حصہ رہا۔ اس جزیرے کی سیر کے لیے میں ذاتی طور پر اپنی فیملی کے ہمراہ گیا تھا۔ یونان میں جولائی اگست میں درجنوں کروز شپ چلتے ہیں۔ ہم نے اگست میں تین روز اور تین رات کا کروز لیا۔ ٹکٹوں پر سیل تھی اور ایک چوتھائی قیمت پر مل گئے۔ ہم نے جہاز پر دو بیڈ روم بک کرائے اور کروز پر روانہ ہوئے۔ جہازشام کو چلا اور اگلے روز روڈس پہنچا۔ جہاز پر تقریباً چھ سو سیاح تھے اور یہ کئی منزلہ تھا، گویا پانی پر تیرتا ہوا ہوٹل۔ تین ریستوران تھے، ایک سینما ہال اور دوسرے ہال میں رقص و موسیقی کا بندوبست تھا۔ جہاز لنگر انداز ہوا تو مسافروں کو روڈس کے بارے میں سیاحتی پمفلٹ دیئے گئے، اہم تاریخی مقاموں کے بارے میں مختصر بتایا گیا اور اعلان ہوا کہ آپ لوگ جزیرے پر تین گھنٹے گھوم کر واپس آ جائیں؛ چنانچہ ہم اس تاریخی جزیرے کی سیر کو نکلے۔ اسلامی تاریخ کے آثار جگہ جگہ تھے، درجنوں مسجدیں تھیں جو اب بند پڑی ہیں۔ پمفلٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ آپ فلاں بیچ Beach پر ضرور جائیں۔ ہم نے ٹیکسی لی اور اس مشہور ساحل کی طرف روانہ ہوئے وہاں پہنچے تو ڈرائیور نے بتایا کہ جہاں آپ جا رہے ہیں وہ نیوڈز (عریاں) بیچ ہے؛ حالانکہ پمفلٹ میں اس بات کا قطعی ذکر نہ تھا؛ چنانچہ ڈرائیور سے کہا کہ یہاں سے فوراً چلو اور ہمیں دیگر ایک دو مقامات دکھا کر واپس پورٹ پر لے جائو۔ مجھے یاد ہے کہ اسی کروز کے دوران ہم ترکی کے ساحلی قصبہ Kusadasi کوساداسی بھی گئے۔
یونان کا جو جزیرہ مجھے سب سے اچھا لگا وہ کورفو Corfu تھا‘ یہ جزیرہ شمال مغرب میں البانیہ کے بالکل پاس ہے۔ دونوں کی حد فاصل تین کلو میٹر چوڑی آبی گزرگاہ ہے۔ ٹورسٹ گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ البانیہ کے کئی باشندے غیر قانونی طور پر تیراکی کرتے ہوئے یونان پہنچ کر غیب ہو جاتے ہیں۔ یونان کے مقابلے میں البانیہ بے حد غریب ہے۔ کوفو جانے کے لیے تقریباً تین گھنٹے شمال کی طرف بائی کار سفر کیا۔ ایک بندرگاہ سے بحری جہاز میں سوار ہوئے۔ کار کو بھی جہاز پر چڑھایا گیا۔ میرا ڈرائیور ہمراہ تھا لہٰذا سفر آرام دہ رہا۔ آدھے گھنٹے کے سمندری سفر کے بعد ہم کورفو پہنچے۔ یہ جزیرہ کئی لحاظ سے بالکل منفرد ہے اور مختلف ادوار میں ترکی، برطانیہ، اٹلی اور فرانس کے قبضے میں رہا۔ لہٰذا یہاں کئی طرح کا طرز تعمیر نظر آتا ہے۔ انیسویں صدی میں پچاس سال تک یہ جزیرہ انگریزوں کے تصرف میں رہا۔ انگریز گورنر کی رہائش گاہ اور دفتر بھی یہیں تھا۔ یہاں سے انگریز آس پاس کے کچھ اور جزائر کا انتظام بھی چلاتے تھے۔ انگریز گورنر کی رہائش گاہ اب میوزیم ہے اور دیکھنے کے لائق ہے۔
کورفو آنے کی دعوت مجھے وہاں کے مشہورتاجرنے دی تھی جو مچھلی درآمد کرتا تھا۔ بحیرہ روم میں اب مچھلی بہت کم رہ گئی ہے اور سیاح مچھلی کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا مراکش، بھارت اورکئی یورپی ممالک سے مچھلی منگوائی جاتی تھی اور بہت بڑی مقدار میں۔ میری اس تاجرسے ملاقات ایتھنز میں ہوئی اور میں نے اسے بتایا کہ پاکستان ہر قسم کی مچھلی برآمد کرتا ہے‘ پہلے تو اسے یقین ہی نہیں آیا پھرمیں نے اسے پاکستانی مچھلی کے بارے میں لٹریچر اور بروشر بھیجے۔ امپورٹر کو ہائی جین کے بارے میں تحفظات تھے۔ اسے بتایا گیا کہ یورپی یونین کا وفد کراچی جا کر معائنے کے بعد سرٹیفکیٹ ایشو کر چکا ہے۔ میری کوششیں جاری تھیں کہ نائن الیون ہو گیا اور یورپی لوگ پاکستان آنے سے ڈرنے لگے۔ مگر یہ خوبصورت جزیرہ اور اس کے پرانے شہر کی تنگ گلیاں مجھے آج بھی یاد ہیں۔
بحیرہ روم کے نیلگوں پانیوں اور خوبصورت جزیروں کے بغیر یونان کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہی بحیرہ روم آج کل غیر قانونی تارکین وطن کی آماجگاہ ہے۔ ہزاروں لوگ اس خطرناک سفر میں جانیں گنوا چکے مگر انسانی سمگلنگ آج بھی جاری ہے۔ انسانی سمگلنگ کے بارے میں کالم پھر کبھی سہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں