"JDC" (space) message & send to 7575

قصہ دو بندرگاہوں کا

انٹرنیشنل ٹریڈ میں سب سے بڑا حصہ سمندری تجارت کا ہے۔ دنیا کے اکثر بڑے شہر سمندروں کے کنارے آباد ہیں یا دریائوں کے ۔ بندرگاہیں سمندروں کے کنارے آباد شہروں کی ترقی میں کلیدی رول رکھتی ہیں۔ شپنگ کمپنیاں‘ زمینی ٹرانسپورٹ‘ انشورنس اورکسٹمز کلیئرنس کی طرح کے مختلف بزنس بندرگاہ کی بدولت پھلتے پھولتے ہیں۔ آج بات ہو گی پاکستانی بندرگاہ گوادر اور ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کی جو دونوں175کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔
ابھی حال ہی میں بھارت اور ایران نے چاہ بہار پورٹ کی ڈویلپمنٹ کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے ہیں۔ بھارتی فارن آفس نے کہا ہے کہ چاہ بہار کی موجودہ گودیوں میں سے بھارت دو گودیاں فوری طور پر کرائے پر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ چاہ بہار پورٹ کی ڈویلپمنٹ کے بارے میں بات چیت 2003ء میں وزیر اعظم واجپائی کے زمانے میں شروع ہوئی تھی۔ پھر ایران پر اقتصادی پابندیاں لگنے سے معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ اب چونکہ ایران پر سے پابندیاں اٹھنے کے امکانات نظر آ رہے ہیں لہٰذا بھارت نے پچاسی ملین ڈالر حالیہ بجٹ میں اس پورٹ کے لیے مختص کیے ہیں۔ چاہ بہار کے بارے میں ایم او یو پر دستخط سے پہلے امریکہ نے بھارت کو مشورہ دیا کہ جون تک حتمی نیو کلیئر معاہدے کا انتظار کرے۔ مگر بھارت نے اس مشورے کو نظر انداز کیا اور بہت جلدی میں معاہدہ سائن کیا۔ کسی بھی بندرگاہ کا مرکزی مقصد تو تجارت ہوتی ہے مگر محفوظ تجارت کے فروغ کے لیے بحری دفاع بھی ضروری ہوتا ہے۔ گوادر اور چاہ بہار میں بڑی بندرگاہیں بنانے کاخیال بھی دونوں ملکوں کو عسکری تجارت کے بعد آیا۔ پاکستان نے 1971ء میں محسوس کیا کہ کراچی اور پورٹ قاسم بھارت سے خاصے قریب ہیں اور اگر کراچی کا سمندری محاصرہ ہو جائے تو پاکستان کی اکثر درآمدات بشمول تیل‘ رک جائیں گی ۔ لیکن گوادر پورٹ پر کام شروع ہونے میں بیس سال لگ گئے۔ میں 1992ء میں نیشنل ڈیفنس کالج کی ٹیم کے ساتھ گوادر گیا تھا اور پورٹ پر کام چند ماہ پہلے شروع ہوا تھا۔
ایران کی تین بڑی بندرگاہیں آبادان‘ بوشہر اور بندر عباس ہیں اور یہ تینوں خلیج کے اندرواقع ہیں۔ ایران عراق جنگ شروع ہوئی توایران کو اس امر کا شدت سے احساس ہوا کہ اگر آبنائے ہرمز بند ہو جائے تو تمام انٹرنیشنل تجارت رک جائے گی اور حالت جنگ میں اسلحہ کی بیرونی ممالک سے ترسیل بھی۔ چاہ بہار میں چھوٹی بندرگاہ موجود تھی لیکن یہ بڑے جہازوں کو ہینڈل کرنے کے قابل نہ تھی چنانچہ پورٹ کی توسیع کا کام شروع ہوا اور 1983ء میں یہاں بڑے جہاز آنے لگے۔ چاہ بہار کی بڑی خوبی یہ ہے کہ آبنائے ہرمز سے باہر ہے لہٰذا دوسری بندرگاہوں کی نسبت زیادہ محفوظ ہے۔ خلیج میں جہاز رانی رک بھی جائے تو اس پورٹ کے ذریعہ امپورٹ ایکسپورٹ ممکن ہے۔ بھارت کو چاہ بہار میں پاکستان کو بائی پاس کرنے کا راستہ نظر آیا اور ویسے بھی یہ پورٹ بندر عباس کے مقابلے میں بھارت سے قریب تر ہے۔
ایران پر عائد اقتصادی پالیسیوں کو بائی پاس کرنے کے لیے بھارت نے دو طرفہ تجارت 2012ء میں لوکل کرنسی میں کر لی تھی۔ اس وقت بھارت ایران کو چار ارب ڈالر کے قریب مال ایکسپورٹ کرتا ہے اور پھر بھارت کا اصل مقصد تو افغان اور سنٹرل ایشین مارکیٹ تک رسائی تھی۔ قندھار اور کابل مال پہنچانے کے لیے بھارت نے زارنج دل آرام روڈ2009ء میں مکمل کرلی تھی۔ ہائی وے کا یہ حصہ قندھار کو ہرات سے ملاتا ہے۔ ایران سے ہرات کو سڑک پہلے سے موجود تھی۔ جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ بھارت کی بنائی ہوئی سڑک کا کچھ حصہ آج کل طالبان کے کنٹرول میں ہے مگر بھارت کی اصل منزل تو سنٹرل ایشیا ہے اور ترکمانستان کا دارالحکومت اشک آباد چاہ بہار سے صرف دو ہزار تین سو چار(2304)کلو میٹر ہے۔
گوادر پورٹ کا کام کئی سال تک تعطل کا شکار رہا۔2001ء میں جب جنرل مشرف نے یہ کام چینی کمپنی کے حوالے کیا تو پوری دنیا کے کان کھڑے ہو گئے۔ خاص طور پر بھارت کے پیٹ میں تو سخت مروڑ اٹھنے لگے۔ امریکہ کو باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ چین انرجی کے لحاظ سے بہت اہم خطے میں پائوں جما رہا ہے۔ دلی والوں کو کہا گیا کہ گوادر پورٹ بننے سے ان کی پورٹ متاثر ہو گی۔ دراصل بھارت کو پاک چین تعاون ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ گوادر میں دوبارہ کام شروع ہوا تو بھارت بھاگا بھاگا ایران کے پاس گیا اور چاہ بہار کی بات کا آغاز ہوا مگر جیسا کہ اوپر ذکر آیا ہے ایران پر اقتصادی پابندیاں لگ گئیں۔2013ء میں پاکستان نے گوادر کا انتظام چینی کمپنی کو دیا اور چاہ بہار میں بھارتی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا۔
چاہ بہار کے ذریعے بھارت افغانستان میں ایک تیر سے دو شکار کرے گا۔ ایک مقصد افغان مارکیٹ تک رسائی ہے اور دوسرا ہدف انٹرنیشنل ٹریڈ میں افغانستان کا پاکستان پر انحصار کم کرنا ہے اور چانکیہ کے سنہری اصولوں میں شامل ہے کہ ہمسائے سے نہیں بلکہ ہمسائے کے ہمسائے سے دوستی کرنا بہتر ہے۔
اور اب آئیے گوادر واپس چلتے ہیں۔2006ء میں گوادر کا انتظام سنگا پور کی کمپنی کے حوالے کیا گیا۔ سنگا پور کی اپنی تجارت اس خطے کے ساتھ کم ہے۔ دوسرے ‘کامیاب بندرگاہ کے لیے سڑکوں کا ہونا ضروری ہے جو پورٹ کو اندرون ملک بڑی بڑی منڈیوں سے ملاتی ہوں۔ گوادر کا زمینی رابطہ کوسٹل ہائی وے کے ذریعہ صرف کراچی سے تھا۔ یہ ہائی وے اسٹرٹیجک اہمیت تو رکھتی ہے مگر انٹرنیشنل ٹریڈ کے حوالے سے اہم نہیں۔ اب اگر کسی ملک نے پاکستان مال بھیجنا ہے تو سیدھا کراچی کیوں نہ بھیجے۔ مال گوادر اترے گا تو پھر بھی منزل کراچی ہی ہو گی لہٰذا ٹرانسپورٹ کا خرچہ زیادہ ہو گا۔
اس لیے گوادر پورٹ کو کامیاب بنانے کے لیے گوادر سے کوئٹہ اوررتو ڈیرووالی سڑکیں بنانا ضروری ہے اور چین کے ساتھ اکنامک کوریڈور کے ضمن میں اس پورٹ کی اہمیت بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ یہاں سے سڑک نہ صرف گوادر کو پاکستانی
شہروں سے ملائے گی بلکہ کاشغر تک جائے گی۔
اب گوادر میں انٹرنیشنل ایئر پورٹ بنے گا جس سے سرمایہ کاری آئے گی۔ شپنگ کمپنیاں اپنے دفاتر کھولیں گی۔ ٹرانسپورٹ کمپنیاں مع ٹرالرز آئیں گی۔ توقع ہے کہ اگلے دس سال میں گوادر میں مختلف شعبوں میں دو ملین یعنی بیس لاکھ لوگوں کو نوکریاں ملیں گی۔ معاشی ترقی ہوتی ہے تو سروس انڈسٹری یعنی بنک‘ انشورنس کمپنیاں اور ہوٹل خود بخود آ جاتے ہیں۔ گوادر کی ترقی کے حوالے سے دو باتیں بہت اہم ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ نئی نوکریاں زیادہ سے زیادہ بلوچستان کے لوگوں کو دی جائیں اور اس سلسلہ میں پلاننگ اور تربیت ابھی سے شروع ہونی چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ گوادر امن وامان کے حوالے سے پاکستان کا بہترین شہر ہونا چاہیے۔
اوپر میں نے ذکر کیا ہے کہ چاہ بہار کے پروجیکٹ لینے میں بھارت نے بہت عجلت سے کام لیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ شائد یہ ہے کہ بھارت کے اندازے کے مطابق اقتصادی پابندیاں اٹھنے کے بعد ایران میں بیرونی سرمایہ کاروں کی لائن لگ جائے گی لہٰذا یہ اہم پراجیکٹ بھارت شتابی سے قابو کر رہا ہے۔
چاہ بہار اور گوادر کی بندرگاہوں میں مسابقت تو ہو گی۔ یہ بظاہر چین اور ہندوستان کا مقابلہ لگ رہا ہے لیکن پاکستان اور ایران بھی شریک ہیں۔ خدا کرے کہ دونوں بندرگاہیں ترقی کریں اور دونوں کا مرکزی ہدف تجارت ہی رہے۔ اس سے پاکستانی اور ایرانی بلوچستان دونوں کو فائدہ ہو گا۔ گوادرپورٹ پاکستان اور چین دونوں کے لیے ترقی کی نوید لائے گی اور تعاون کا بہت بڑا سمبل بنے گی۔ چاہ بہار سے بھارت پاکستان کو بائی پاس تو کر سکتا ہے لیکن چاہ بہار واہگہ کا کمزور متبادل ہے۔ کاش بھارت کو یہ بات سمجھ آ جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں