"JDC" (space) message & send to 7575

شام اور عالمی سیاست

دنیائے عرب اور عالم اسلام کے اہم ملک سوریا (شام)پر گزشتہ پانچ سال سے شطرنج کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ شطرنج کی اس میز پر سب سے اہم کھلاڑی روس ‘ امریکہ ‘ایران ‘ترکی اور سعودی عرب ہیں۔ روس نے اپنے مہرے بڑی ذہانت سے چلائے ہیں۔ ستمبر 2015ء میں جب صدر بشار الاسد کی حکومت سخت دبائو کا شکار تھی اور ملک کا صرف بیس فیصد رقبہ اس کے کنٹرول میں رہ گیا تھا تو روسی اپنے لڑاکا جہاز اور ٹینک لے آئے۔ روسی مداخلت کے بعد بشار الاسد کی پوزیشن بہت بہتر ہو گئی تو روس نے اعلان کر دیا کہ ہم نے اپنا مشن مکمل کر لیا ہے۔ باغیوں اور دہشت گردوں کو کچل دیا ہے لہٰذا ہم فوج کا بیشتر حصہ واپس بلا رہے ہیں۔ میرے نزدیک روس کا یہ بیان شطرنج کی ایک چال ہے جس کے اغراض و مقاصد کا جائزہ تھوڑی دیر میں اگلی سطور میں لیں گے۔ اچھی بات یہ ہے کہ سوریا میں جنگ بندی پر ایک حد تک عمل ہو رہا ہے اور اس ماہ میں قتل و غارت کم ہوئی ہے۔ 
امریکہ کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ بشار الاسد کو جلد یا بدیر راج سنگھاسن سے فارغ کیا جائے اور دمشق میں ایسی معتدل حکومت لائی جائے جو داعش کا مقابلہ کرنے کے تو قابل ہو لیکن اسرائیل کی سکیورٹی کے لیے خطرہ نہ ہو۔ امریکہ کی سوریا میں پالیسی کنفیوژن کا شکار رہی ہے۔2013ء تک بشار الاسد کے بارے میں واشنگٹن کا رویہ بہت سخت تھا۔ جب دمشق کی حکومت نے کیمیاوی ہتھیار سرنڈر کرنے کی ہامی بھری تو امریکی رویے کی شدت خاصی کم ہو گئی۔ ویسے بھی امریکہ عراق اور افغانستان کی جنگوں سے تھکا تھکا لگ رہا تھا۔ رہی سہی کسر تب پوری ہو گئی جب جون 2014ء میں داعش نے سوریا اور عراق کے بڑے رقبے کا کنٹرول سنبھال لیا اور دونوں ممالک کا نقشہ ہی بدل دیا۔ اب امریکہ اور اسرائیل کی سوچ میں واضح تبدیلی نظر آنے لگی کہ دونوں کی نظر میں بشار الاسد ابوبکر بغدادی کے مقابلے میں بہت بہتر آپشن تھا۔
سوریا کے بارے میں تمام عالمی طاقتوں کا رویہ اپنے اپنے مفادات کے گرد گھومتا ہے۔ پچھلے دنوں کرد لیڈروں نے اعلان کیا کہ سوریا کا کرد اکثریت والا علاقہ خود مختار تصور کیا جائے۔ اس خطرناک چال کے پیچھے امریکہ اور روس دونوں ہیں۔ روس نے تو شامی اپوزیشن کی حیثیت کو کمزور کرنے کے لیے کردوں کا وفد بھی جنیوا بھجوانے میں مدد کی۔وفد کی ڈیمانڈ تھی کہ ہمیں بھی جنیوا مذاکرات میں شرکت کی دعوت ایک علیحدہ فریق کے طور پر دی جائے کہ ہم نو فیصد آبادی کے نمائندہ ہیں ۔ادھر عراق میں کرد پہلے ہی خود مختاری حاصل کر چکے ہیں۔ شامی کردوں کا خود مختاری کا اعلان ترکی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
شام کی بساط پر کھیلا جانے والا یہ کھیل کس قدر بے رحم اور گھنائونا ہو چُکا ہے ‘اس کا اندازہ ایک اسرائیلی وزیر موشے ایلون کے حالیہ بیان سے لگایا جا سکتا ہے۔ موصوف نے واشنگٹن میں کہا کہ سوریا کے وہ علاقے جہاں علوی آبادی اکثریت میں ہے ‘وہاں نئی ریاست بننی چاہئے جس کا نام علوستان ہو۔ اب ذرا سوچیے ‘ سوریا کی کل آبادی 2011ء میں 23 ملین تھی اور علوی عقیدہ کے لوگ اس آبادی کا صرف آٹھ فیصد تھے یعنی دو ملین سے بھی کم۔ مگر اسرائیل کا خواب یہ ہے کہ ہمسایہ عرب ممالک کے حصے بخرے کئے جائیں تاکہ وہ سب کے سب صہیونی سوچ کے آگے دم نہ مار سکیں۔ سوریا اگر کسی طرح حصے بخرے ہونے سے بچ گیا تو بھی فیڈرل سسٹم اب ناگزیر نظر آ رہا ہے۔ 
سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے لیے صدام حسین کاامریکی مداخلت کے بعد جانا ایک بڑا سٹریٹجک دھچکا تھا۔ خطے میں طاقت کا توازن بگڑ رہا تھا ۔ایران کا اثر و نفوذ اب بغداد سے ہوتا ہوا سوریا اور لبنان تک جا چُکا تھا۔ اس راستے سے حزب اللہ کی عسکری مدد ممکن تھی۔ ایران کی اب بھی پالیسی یہی ہے کہ بشار الاسد سوریا کا منتخب صدر ہے اورجو اپوزیشن دمشق کی حکومت کے خلاف لڑ رہی ہے وہ دہشت گرد ہے اور مغربی استعمار کی پروردہ ہے۔ لہٰذا تہران کی نظر میں صدر بشار الاسد کی حکومت کا دفاع ضروری ہے۔ ایرانی اسلامی انقلاب کا عسکری ہر اول دستہ شام میں برسر پیکار ہے۔ عذر یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ اسلامی تاریخی ورثے کو خطرہ ہے۔ میں دمشق میں تین سال رہا ہوں اور اہل بیت کی آرام گاہوں اور دیگر مقدس مقامات پر باقاعدگی سے حاضری دیتا رہاہوں۔ کوئی بھی مسلمان ان مقامات کو نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
ایران کے علاقائی اثرو نفوذ کو کنٹرول کرنا خلیجی ریاستوں کی پالیسی کا حصہ ہے۔ ایک عرصے سے تہران اور دمشق کی علوی حکومت کے تعلقات بہت گہرے رہے ہیں۔ حزب اللہ کے سپاہی بھی 2012ء سے بشار الاسد کی حمایت میں لڑ رہے ہیں۔ خلیجی ممالک آزاد شامی فوج کی کُھل کر مالی مدد کر رہے ہیں گوکہ تیل کی قیمتیں گرنے اور یمن میں لڑائی کی وجہ سے خلیجی ممالک کی توجہ کُچھ ہٹ گئی ہے۔
روس کا طرطوس میں بحری اڈہ پُرانا ہے اور اب الاذقیہ میں اس کا ہوائی اڈہ بھی ہے۔ سابقہ سوویت یونین کے باہر صرف سوریا ہی ایک ملک ہے جہاں روس کے فوجی اڈے ہیں اور روس آسانی سے یہ اڈے نہیں چھوڑے گا۔ دونوں اڈے بحرہ روم پر واقع ہیں اور عسکری لحاظ سے اہم ہیں۔ اور اب روس کا فوجی انخلاء کا اعلان بشار الاسد کے لیے پیغام ہے کہ ہم نے تمہاری عسکری مدد کر دی‘ اب تم بات چیت کے ذریعے سیاسی حل کی جانب بڑھو۔
داعش کے سلسلہ میں امریکہ اور روس کے اہداف میں کچھ مطابقت نظر آتی ہے۔ دونوں داعش کے خلاف ہوائی بمباری کر رہے ہیں۔ البتہ امریکہ سعودی عرب اور ترکی حمایت یافتہ آزاد شامی فوج یعنی الجیش الحر ماسکو کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ ادھر شامی اپوزیشن کے کئی دھڑے ہیں جو کئی دفعہ آپس میں متحارب نظر آتے ہیں۔ پچھلے دنوں ادلب کے قریب نصرت فرنٹ اور آزاد شامی فوج میں شدید جھڑپیں ہوئیں ۔اپوزیشن کے دھڑوں کی آپس کی لڑائی کا بھی بشار الاسد کو خوب فائدہ ہوا ہے۔
مڈل ایسٹ میں امریکی پالیسی تبدیلی ہو رہی ہے۔ شیل گیس کی دریافت کے بعد امریکہ کا مڈل ایسٹ کے تیل پر انحصار خاصا کم ہوا ہے۔ادھر عرب ممالک خاصے کمزور ہو گئے ہیں۔ اب نہ کوئی جمال عبدالناصر ہے‘ نہ ہی حافظ الاسد یا معمر قذافی جو اسرائیل کے لیے خطرہ ہو۔ شام کی ایک چوتھائی آبادی ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئی ہے۔ شامی مہاجر آج بڑی تعداد میں یورپ میںپناہ لیے ہوئے ہیں۔ یورپ جس کی اپنی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے‘ سوریا کے ڈاکٹرز ‘انجینئرز اور دیگر پڑھے لکھے لوگوں کو اپنی اکانومی کا نفع بخش حصہ بنا لے گا۔ امریکہ کی ترقی کا بڑا راز باہر سے آئے ہوئے ذہین اور پڑھے لکھے لوگ ہیں۔
2011ء میں سوریا کی فی کس آمدنی پاکستان سے زیادہ تھی۔ شرح تعلیم 80فیصد کے قریب تھی۔ آج سوریا میں غربت ہی غربت ہے ۔ ہر طرف تباہی ہے۔ تباہی کے اس کھیل میں ملوث اوراس گھنائونے کھیل کے مرتکب ممالک نے کتنے شامی مہاجرین کو خوش آمدید کہا ہے۔ میرا سوال امریکہ ‘روس ‘سعودی عرب اور ایران سے ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں