"JDC" (space) message & send to 7575

بدلتا ہوا سعودی عرب

سعودی معاشرہ ایک عرصے سے قدامت پسند رہا ہے مثلاً وہاں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت نہیں تھی۔ یہ اجازت چند روز قبل ملی ہے اور اگلے سال جون سے نافذ العمل ہو گی۔ اب سعودی خواتین مجلس شوریٰ میں بھی ہیں اور چیمبر آف کامرس میں بھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ سعودی معاشرہ کیوں اور کیسے بدل رہا ہے۔ جدید سعودی مملکت کے موسس کنگ عبدالعزیز تھے۔ وہ جدید ٹیکنالوجی سے استفادے کے حامی تھے اور اب یہ رول ان کے پوتے محمد بن سلمان کے حصے میں آیا ہے‘ جو نوجوان ہیں اور اپنے ملک کو بدلنا چاہتے ہیں‘ لیکن سعودی عرب میں تبدیلیاں آہستہ آہستہ اور سوچ بچار کے بعد لائی جاتی ہیں تاکہ وہ دین سے متصادم نہ ہوں اور معاشرے کے لئے ہر حوالے سے قابل قبول ہو سکیں۔ 
بانی مملکت کنگ عبدالعزیز کے زمانے میں ٹیلی فون آیا تو کئی لوگ اس نئی ایجاد کے خلاف تھے۔ روایت ہے کہ بادشاہ نے علماء کو بلایا اور مختلف کمروں میں بٹھایا۔ ایک عالم سے درخواست کی گئی کہ وہ ٹیلی فون ریسیور میں تلاوت کرے۔ وہ تلاوت دور بیٹھے ہوئے علماء نے دوسرے کمروں میں سُنی۔ جب یہ عمل مکمل ہو چکا تو بادشاہ نے علماء سے کہا کہ یہ نئی ایجاد دین کی ترویج کے لئے بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ سعودی بادشاہ ہر سال سردیوں کے موسم میں صحرا میں کیمپ لگاتے ہیں۔ روایت ہے کہ کنگ عبدالعزیز نے قبائل کے سرداروں کو صحرا میں کھانے کی دعوت دی۔ سب سردار بڑی بڑی جیپوں میں آئے۔ کھانے کے دوران ہی خاموشی سے عملے کو حکم ملا کہ تمام جیپیں پارکنگ سے ہٹا کر وہاں اونٹ بیٹھا دیئے جائیں۔ کھانے کے بعد قبائل کے لیڈر رخصت ہوئے تو دیکھا کہ جیپوں کی جگہ اونٹوں نے لے لی ہے۔ قبائل کے والی عملے پر غصہ جھاڑنے لگے۔ پتہ چلا کہ یہ سب حکم شاہی کی بدولت ہوا ہے۔ پھر بادشاہ نے قبائلی لیڈران کو بتایا کہ نئی ایجادات کی افادیت بھی ہے۔ ہم ماضی میں واپس نہیں جا سکتے۔
آپ کو یاد ہو گا کہ 1975ء میں شاہ فیصل مرحوم کو ان کے بھتیجے نے شہید کر دیا تھا۔ اس المناک واقعے سے چند روز پہلے اسی شخص نے ٹیلی ویژن کے خلاف ایک ریلی کی قیادت کی تھی۔ سعودی عرب میں جلسے جلوس شاذ و نادر ہی نکلتے ہیں۔ پولیس نے ٹیلی ویژن کے خلاف مظاہرے کو منتشر کر دیا اور چند روز بعد اس شخص نے اس عظیم لیڈر کو شہید کر دیا۔ آج سعودی عرب میں کئی ٹی وی چینل ہیں۔ ایک چینل اقراء پر دینی پروگرام ہوتے ہیں۔ سیٹلائٹ چینلز کی بدولت لوگ شامی اور مصری ڈرامے شوق سے دیکھتے ہیں۔
سعودی عرب میں سات سال سفارت کاری کے بعد 1992ء میں مجھے پاکستان پوسٹ کیا گیا۔ 1992ء تک سعودی خواتین کا رول گھروں تک محدود تھا۔ بزنس میں کوئی خاتون نظر نہیں آتی تھی۔ 2004ء میں مجھے وزیر اعظم شوکت عزیز کی سربراہی میں پاکستانی وفد کے ساتھ جدہ جانے کا موقع ملا کہ اس وقت میں مڈل ایسٹ اور افریقہ ریجن کا ایڈیشنل سیکرٹری تھا۔ وزٹ کے دوران جدہ چیمبر کا ایک وفد ہمارے وزیر اعظم کو ملنے آیا۔ چیمبر کے ممبران میں ایک خاتون بھی شامل تھی۔ میرے لئے یہ امر خوشگوار و حیرت کا سبب تھا۔ 2014ء میں مجھے ریاض ایک کانفرنس کے سلسلے میں جانے کا موقع ملا۔ کانفرنس کے دوران مجلس شوریٰ کی ممبر دو خواتین سے ملاقات ہوئی۔ دونوں نے سعودی رواج کے مطابق عبایہ پہنا ہوا تھا‘ سر ڈھانپے ہوئے تھے‘ لیکن کئی سعودی خواتین کے برعکس ان کے چہرے مکشوف تھے اور وہ مردوں سے مکمل اعتماد سے گفتگو کر رہی تھیں‘ اور آج کے سعودی عرب میں رانیہ محمود نشار سعودی امریکن بینک (سامبا) کی سی ای او ہیں۔ وہ کسی بینک کی ہیڈ بننے والی پہلی سعودی خاتون ہیں۔ لبنیٰ علیان بہت بڑا بزنس گروپ العلیان چلا رہی ہیں۔ 
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام میں خواتین کو نہ تجارت کرنے کی ممانعت ہے اور نہ کار چلانے کی۔ حضرت خدیجہؓ خود بہت بڑی تاجرہ تھیں۔ اُس زمانے میں خواتین اونٹ پر عام سواری کرتی تھیں۔ اور اب فاسٹ فارورڈ کر کے وقت میں آگے آ جاتے ہیں۔ نومبر 1990ء کی بات ہے۔ میری پوسٹنگ ان دنوں ریاض میں تھی۔ کویت عراق کا مقبوضہ ملک تھا اور کویت کو آزاد کرانے کے لیے کئی افواج سعودی عرب آ چکی تھیں۔ ان میں امریکی دستے سرفہرست تھے۔ امریکی سولجرز میں خواتین بھی تھیں۔ دو چار روز ریاض کی سڑکوں پر عجیب سین نظر آئے۔ امریکی خواتین نیکر پہن کر جاگنگ کرتی نظر آتی تھیں‘ اور پھر سعودی قیادت نے امریکیوں کو سمجھا دیا کہ خواتین کا نیم مکشوف بدن کے ساتھ پبلک مقامات پر پھرنا یا نظر آنا ہمارے رواج اور دین دونوں کے خلاف ہے‘ اور امریکی بھی یہ بات سمجھ گئے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب صدام حسین سعودی عرب پر میزائل برسانے کی روزانہ وارننگ دیتا تھا۔ سعودی فوج بارڈر کی جانب روانہ ہو رہی تھی۔ سب سے زیادہ خطرہ دارالحکومت الریاض کو تھا۔ انٹرنیشنل فوجی دستوں کے کمانڈر بھی وہاں تھے۔ سعودی وزارت دفاع اور سب سے بڑا سعودی ایئر بیس بھی یہیں تھے۔ ایک دن اچانک پچاس کے قریب سعودی خواتین سیف وے سُپر مارکیٹ کے باہر جمع ہوئیں اور کاریں چلا کر شہر کی سڑکوں پر آ گئیں۔ ان میں چند ایک گرفتار بھی ہوئیں کچھ سرکاری جاب سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ ان میں فوزیہ البکر بھی تھیں جو اُس زمانے میں یونیورسٹی پروفیسر تھیں وہ یقیناآج بہت خوش ہوں گی۔
سعودی خواتین نے اس وقت اپنی ڈرائیونگ کے حق میں بڑے تگڑے دلائل دیئے تھے۔ ایک دلیل فوجی افسروں کی بیگمات کی تھی کہ ہمارے خاوند محاذ پر ہیں۔ ریاض یا دوسرے شہروں پر ممکنہ عراقی حملے کی صورت میں ہمیں گھر چھوڑ کر بچوں سمیت کہیں اور پناہ لینی ہو گی۔ ایسے میں جن گھروں میں ڈرائیور نہیں ہیں‘ وہاں فیملی کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا فریضہ خواتین کو ہی ادا کرنا ہو گا‘ کیونکہ ٹیکسیوں کی تعداد بھی محدود تھی۔ دوسری دلیل اس سے زیادہ وزنی تھی اور وہ یہ تھی کہ نامحرم ڈرائیور کے ساتھ سفر کرنے کی بجائے یہ بہتر ہے خاتون خانہ خود کار چلائے۔ سعوی حکومت نے بالآخر خواتین کا مطالبہ مان لیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مسئلہ صرف کلچرل تھا۔ قبائلی بیک گرائونڈ والا معاشرہ خواتین کی زیادہ آزادی کے خلاف تھا۔ دیرآید درست آید کے مصداق دنیا بھر میں اس فیصلے کو سراہا گیا ہے۔ 
ایک زمانہ تھا کہ سعودی عرب میں لڑکیوں اور لڑکوں کے سکول اور کالج علیحدہ تھے۔ اب اکثر یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم ہے لیکن لیکچر روم علیحدہ ہوتے ہیں اور ویڈیو لنک کا بندوبست ہوتا ہے۔ کوئی تین سال پہلے یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں طلبا اور طالبات کو ایک چھت کے نیچے لیکچر روم میں بیٹھنے کی اجازت ملی۔ اس یونیورسٹی میں غیر ملکی طلباء خاصی تعداد میں ہیں۔
آج ایک لاکھ سے زائد طلباء اور طالبات سعودی عرب سے جا کر دوسرے ممالک میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سب سے بڑی تعداد امریکہ میں زیر تعلیم ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ دنیا گلوبل ویلج بن گئی ہے۔ اب مجھے لگتا ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی بدولت دنیا ایک گھر بن گئی ہے۔ ان حالات میں سماجی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ سعودی عرب سوچ سمجھ کر صحیح سمت میں جا رہا ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ سعودی عرب میں لڑکیوں اور لڑکوں کے سکول اور کالج علیحدہ تھے۔ اب اکثر یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم ہے لیکن لیکچر روم علیحدہ ہوتے ہیں اور ویڈیو لنک کا بندوبست ہوتا ہے۔ کوئی تین سال پہلے یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں طلبا اور طالبات کو ایک چھت کے نیچے لیکچر روم میں بیٹھنے کی اجازت ملی۔ اس یونیورسٹی میں غیر ملکی طلباء خاصی تعداد میں ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں