"JDC" (space) message & send to 7575

نئے احتساب قانون کی تیاری

احتساب کا موجودہ نیشنل اکائونٹ بیلٹی آرڈیننس 1999ء کے مطابق چل رہا ہے۔ حکومت کی تجویز ہے کہ اس آرڈیننس کی جگہ نیشنل احتساب کمشن کا قانون لایا جائے۔ اس سلسلہ میں چند ماہ پہلے ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی جس کے سربراہ وزیر قانون زاہد حامد ہیں۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کے بعد اس کمیٹی کا فعال ہونا کئی سوال اٹھاتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے ممبران نے آغاز ہوتے ہی تحفظات کا اعلان کر دیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ فوج اور عدلیہ میں موجودہ احتساب کا سسٹم جاری و ساری رہنا چاہیے۔ پاکستان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی پوزیشن مختلف تھی یعنی وہ سب کے لیے احتساب کا ایک ہی قانون چاہتی تھیں لیکن پچھلے چند ہفتوں میں ان دونوں پارٹیوں نے پوزیشن بدلی ہے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اصولی اختلاف کی بنا پر کمیٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے اور پارٹی نے ان کی جگہ سینیٹر فاروق ایچ نائیک کو نامزد کر دیا ہے۔
اس مجوزہ قانون میں ایک گہری بات یہ ہے کہ کمیشن کو دس سال سے پرانے کیس سننے کا اختیار نہیں ہو گا‘ یہ قانون پاس ہو گیا تو حدیبیہ کیس کمشن کی دسترس سے باہر ہو گا اور اس کیس سے حکومت اور رائے ونڈ والے اتنے خائف کیوں ہیں یہ شاید آپ مجھ سے بہتر جانتے ہوں۔ تحریک انصاف کو یہ بھی اعتراض ہے کہ مجوزہ قانون میں اہم فیصلے کرنے کا اختیار ایک شخص کی بجائے چار اشخاص کے پاس ہو گا۔ ہم سب دیکھ چکے ہیں کہ چند سال پہلے فخر الدین جی ابراہیم جیسے نڈر اور ایماندار شخص کو چیف الیکشن کمشنر تو بنا دیا گیا مگر ساتھ ہی صوبائی الیکشن کمشنرز کو بھی مساوی اختیارات دے دیئے گئے اور اس طرح مسٹر کلین کو پاور لیس (Powerless) کر دیا گیا۔ تحریک انصای کو ڈر ہے کہ ایسا ہی ایکشن ری پلے نیا قانون آنے کے بعد نیب میں بھی ہو سکتا ہے۔
چند سال پہلے تک کہا جاتا تھا کہ کرپشن صرف مڈل کلاس کا مسئلہ ہے جبکہ اشرافیہ اور غریب لوگ اس سے زیادہ پریشان نہیں ہوتے۔ میرے دوست ڈاکٹر وسیم تو یہاں تک بھی کہتے تھے کہ بعض حالات میں کرپشن ڈویلپمنٹ میں ممدومعاون ثابت ہوتی ہے۔ ٹھیکیدار اور انجینئر دونوں چاہتے ہیں کہ پراجیکٹ چلتے رہیں۔ مگر بھلا ہو مشتاق رئیسانی اور ایان علی کا کہ کرپشن کا مسئلہ پوری آب و تاب سے عیاں ہوا، پھر آسمانی بجلی کڑکی اور پاناما لیکس کی صورت میں نازل ہوئی۔ عمران خان نے سالہا سال سے کرپشن کا مسئلہ اُٹھایا ہوا تھا لیکن حکومتیں آرام سے نظرانداز کرتی رہیں اور عوام کی نظر میں اب نون لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کرپشن فرینڈلی ہیں۔ پاناما کے بعد کپتان کے ہاتھ میں جو تازیانہ آیا ہے وہ اُسے دونوں پارٹیوں پر خوب برسا رہے ہیں۔
پچھلے دنوں اسلام آباد میں پلڈاٹ نے احتساب کے مجوزہ قانون کے بارے میں ایک بہت اچھی مفید اور بروقت نشست کا اہتمام کیا‘ یہ احمد بلال محبوب صاحب کا طرۂ امتیاز ہے کہ اہم قومی موضوعات پر مرکوز بہت ہی مفید فنکشن کراتے ہیں مقررین کا انتخاب نہایت مناسب ہوتا ہے۔ مثلاً اس مذکورہ بالا نشست میں سابق گورنر شاہد حامد، سینیٹر نوید قمر، فرحت اللہ بابر، سینیٹر جاوید عباسی، ایم این اے شفقت محمود، جنرل معین الدین حیدر اور محترم مجیب الرحمن شامی موجود تھے۔ پلڈاٹ کی محافل میں ہر کوئی اپنی باری پر بات کرتا ہے اور فوکس موضوع پر رہتا ہے یعنی ٹی وی ٹاک شوز والی لایعنی ڈسکشن اور تابڑ توڑ حملے یہاں نہیں ہوتے۔ مخالف رائے کو آرام سے سنا جاتا ہے۔
مقررین گفتگو پر چھائے ہوئے تھے اس لیے کہ سب موضوع کے بارے میں جید معلومات رکھتے ہیں۔ اتنے میں سامعین میں سے قائداعظم یونیورسٹی کے پروفیسر محمود بٹ بولے کہ اگر صرف آپ نے ہی بولنا ہے تو ہمیں کیوں بلایا ہوا ہے؟ صدرِ محفل بولے کہ پروفیسر صاحب آپ ضرور بات کریں۔ پروفیسر صاحب کا کہنا تھا کہ دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں کرپشن کی مرتکب ہوئی ہیں اور نیا قانون بھی یہ کہہ رہا ہے کہ چیئرمین نیب کا انتخاب وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر مل کر کریں گے، یہ مجوزہ قانون میں بہت بڑا سقم اور تضاد ہے۔ اس پر ایم این اے شفقت محمود بولے کہ تحریک انصاف کی رائے میں چیئرمین نیب کا تقرر چیف جسٹس آف پاکستان کو کرنا چاہیے۔ شاہد حامد صاحب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ کرپشن اُن لوگوں نے کی ہے جو بغیر کسی وجہ کے بینکوں کے قرض نادہندہ ہیں۔ نجانے کیوں میرا خیال سعودی عرب میں سیون سٹار ہوٹل میں قید اُن شہزادوں کی طرف چلا گیا جن پر کرپشن کا الزام ہے۔ چند ایک کو ابتدائی تحقیق کے بعد رہا کر دیا گیا، باقیوں سے کہا گیا ہے کہ کرپشن کی رقم سرکاری خزانے میں جمع کروا دیں اور گھر چلے جائیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ ہم بھی کیوں نہ تمام بینک قرض نادہندگان کو فائیو سٹار ہوٹل میں قید کر دیں اور ریکوری کی صورت میں رہا کرتے جائیں مگر ہمارے ہاں ایسا کرنے سے جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی اور انسانی حقوق کا مسئلہ بھی کھڑا ہو جائے گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر قرض نادہندگان کا تعلق بڑی سیاسی جماعتوں سے ہے۔ نئے قانونی بل کے بعض محاسن بھی مقررین نے بیان کئے۔ شاہد حامد کا کہنا تھا کہ جنرل مشرف کے آرڈیننس کے تحت نیب شک کی بنیاد پر کسی کو بھی کرپشن کے الزام میں قید کر سکتی تھی اور نوے دن تک سرکاری مہمان بنا کر رکھ سکتی تھی۔ مجوزہ قانون میں اس بات کی اصلاح کی گئی ہے۔ اس پر نوید قمر بولے کہ مجھے گرفتار کر کے ڈھائی سال تک قید رکھا گیا اور پھر رہا کر دیا گیا۔ مجھے میری زندگی کے ڈھائی سال کون واپس کرے گا۔ نوید قمر کا یہ بھی کہنا تھا کہ قانون کو مؤثر بنانے کے لیے ضروری نہیں کہ سزائیں جابرانہ ہی رکھی جائیں، اس سے زیادہ ضروری ہے کہ سزائوں کو نافذ کیا جائے اور قانون کی بالادستی کو تسلیم کیا جائے۔
فرحت اللہ بابر نے پوری صراحت اور ایمانداری سے کہا کہ میری پارٹی نے احتساب بل کے معاملے میں یوٹرن لیا ہے اور اسی وجہ سے میں پارلیمانی کمیٹی سے مستعفی ہوا ہوں۔ میری باری آئی تو میں نے جکارتہ میں سرکاری املاک فروخت کرنے کا معاملہ اٹھایا اور کہا کہ اس ڈیل میں کرپشن کی بو آتی ہے۔ اس پر جنرل معین الدین حیدر بولے کہ جکارتہ میں عمارتوں کی فروخت قاعدہ قانون کے مطابق ہوئی ہے میرا جواب تھا کہ میں نے جکارتہ جا کر نئی اور فروخت شدہ دونوں عمارتیں دیکھی ہیں، آپ بھی جا کر دیکھ لیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب پرانی عمارتوں کو بمعہ بائیس کنال زمین فروخت کیا گیا تو فارن آفس سے پیشگی اجازت کیوں نہ لی گئی۔ فروخت کا اشتہار اخباروں میں کیوں نہ دیا گیا۔
تمام شرکاء کا اس بات پر اتفاق تھا کہ نیا احتساب قانون صرف ان لوگوں تک محدود ہونا چاہیے جو سرکاری خزانے سے تنخواہ لیتے ہیں یا سرکاری فنڈز استعمال کرتے ہیں۔ اس بات کی وضاحت شفقت محمود صاحب نے اس طرح کی کہ اس قانون کا اطلاق ڈبل شاہ پر نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس سے نیب کی توجہ منتشر ہوئی ہے اور ویسے بھی ایسے کیس عام عدالتوں اور پولیس کے دائرہ اختیار میں رہنے چاہئیں۔
مجیب الرحمن شامی صاحب کی رائے تھی کہ نیب کے کیسز میں ماضی کی کوئی مدت مقرر کرنا اچھی اور معقول بات ہے کہ انکم ٹیکس والے بھی پانچ سال سے پرانے کیس نہیں کھولتے لیکن اس شق پر تحریک انصاف کا خیال ہے کہ اس کا مقصد صرف ایک شخص کو بچانا ہے لہذا ہم اس کی مخالفت کریں گے۔ بل کے بارے میں پارٹیوں میں اختلافات ہیں ایسی صورت میں سب سے اہم پوزیشن پیپلز پارٹی کی ہو گی، دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں