"JDC" (space) message & send to 7575

اسلام آباد کا شہرِ آشوب…(4)

میرے کالم کے چند قارئین نے شہرِ آشوب کے بارے میں وضاحت طلب کی ہے۔ ویران بستی پر آہ و بکا، قدیم عربی شاعری میں عام نظر آتی ہے۔ عرب قبائل پانی کی تلاش میں نقل مکانی کرتے رہتے تھے۔ جب کنویں خشک ہو جاتے یا بارش کا پانی اور جوہڑ ختم ہونے لگتے تو کسی اور نخلستان اور نئے پانی کے ذخیرے کی تلاش شروع ہو جاتی۔ پرانی بستیاں ویران ہو جاتیں۔ شاعر یا عاشق اپنی محبوبہ کی تلاش میں اس کی پرانی بستی آتے تو اسے ویران پاتے۔ یہاں سے آہ بکا شروع ہو جاتی جو زمانہ جاہلیت کے تقریباً تمام شعرا کی نظموں کا آغاز بنتی تھی۔ عربی نظم کے اس حصے کو ''البکاء علی الاطلال‘‘ یعنی کھنڈرات کو دیکھ کر رونا اور آہ و زاری کرنا کہا گیا۔ عرب لوگ آج بھی قدیم شاعری پر فخر کرتے ہیں۔ اردو شاعری میں شہرِ آشوب ایک علیحدہ صنف کے طور پر اٹھارہویں صدی میں نمایاں ہوئی۔ دہلی کو کئی حملہ آوروں نے تاراج کیا۔ اس شہر نے برصغیر میں سب سے زیادہ سیاسی اقتصادی اور سماجی تبدیلیاں دیکھیں، دلی کے باسی اکثر معاشرتی اکھاڑ پچھاڑ کا شکار ہوتے رہے۔ اٹھارہویں صدی میں دلی کے دگرگوں حالات نے میر تقی میرؔ کو لکھنؤ جانے پر مجبور کیا۔ نواب صاحب نے تو انہیں توقیر دی کہ ان کی شاعرانہ عظمت سے واقف تھے مگر لوکل شعراء نے حسد کی وجہ سے انہیں نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔ بعض نے تو ان کی وضع قطع اور بود و باش کا مذاق اڑانے کی کوشش کی۔ میر صاحب کا شعری جواب آج تک اردو ادب کے ہر چاہنے والے کو معلوم ہے۔
کیا بود و باش پوچھو ہو‘ پورب کے ساکنو!
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے 
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب 
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے 
اس کو فلک نے لوٹ کے برباد کر دیا 
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے 
بعد میں میرزا محمد رفیع سوداؔ نے دلی کا بہت پُرسوز شہرِ آشوب لکھا۔ آپ سمجھ لیں کہ شہرِ آشوب وہ صنف شاعری ہے جس میں کسی شہر کا مرثیہ لکھا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ جون ایلیا زندہ ہوتے تو 2010ء کے آس پاس کراچی کا شہرِ آشوب ضرور لکھتے۔
اور اب واپس آتے ہیں موضوع کی جانب‘ مجھے یہ فکر لاحق ہے کہ اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی، کرپشن پر قابو نہ پایا، چائنا کٹنگ کرتے رہے، بلڈنگ کنٹرول لاز پر عمل نہ کیا، درخت کاٹتے رہے، اسلام آباد کے انتہائی محدود پانی کے ذخائر کا بے دریغ استعمال ہوتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب کسی شاعر کو اسلام آباد کا شہرِ آشوب لکھنا پڑے گا۔ امریکہ کی الی نوائے یونیورسٹی کے طالبعلم حماد گیلانی آج کل اسلام آباد کے موضوع پر پوسٹ ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں۔ موصوف نے 1976ء سے لے کر آج تک اسلام آباد کے گرد جنگلات کی سیٹلائٹ کے ذریعہ تصویریں حوالے کے طور پر پیش کی ہیں اور اس نتیجے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر درختوں کا ایسا ہی قتل عام ہوتا رہا تو اسلام آباد موہنجو دڑو بن سکتا ہے۔ حماد گیلانی کا کہنا ہے کہ اگر گرین ایریا کم ہوتا رہا تو شہر کنکریٹ کا جنگل بن جائے گا اور اگلے زلزلے میں پہلے سے زیادہ نقصان ہوگا۔ حماد گیلانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر مارگلہ کے پہاڑ پر درختوں کا کٹائو نہ روکا گیا اور کمرشل منصوبے جاری رہے تو اسلام آباد کو شدید نقصان لاحق ہو سکتا ہے۔ پچھلے موسم گرما میں مَیں امریکہ میں تھا، ورجینیا کی ریاست کے شہر آشبرن میں میرا بیٹا عادل حفیظ رہتا ہے۔ یہ 
نئی اور بہت اچھی آبادی ہے، واشنگٹن ڈی سی سے چنداں دور بھی نہیں۔ عادل کے گھر کے بالکل ساتھ تین کنال کا خالی پلاٹ ہے‘ ایسے کئی اور بھی خالی پلاٹ اس خوبصورت آبادی میں ہیں تاکہ کشادگی کا احساس رہے۔ کھلی جگہ کا گھاس کاٹنا کائونٹی کی ذمہ داری ہے۔ میرے وہاں ہوتے ہوئے محلے کے پندرہ رہائشیوں نے کائونٹی کو درخواست دی کہ عادل کے گھر کے ساتھ خالی جگہ پہ جھولے لگا دیئے جائیں تاکہ محلے کے بچے استعمال کر سکیں۔ کائونٹی نے عادل اور اس کی بیگم لیلیٰ شیخ حفیظ سے پوچھا کہ آپ کو اس تجویز پر اعتراض تو نہیں۔ دونوں نے جواب دیا کہ ہمیں اعتراض ہے کہ اس سے ہماری پرائیویسی ڈسٹرب ہو گی، گھر میں شور آئے گا۔ چنانچہ معاملہ وہیں ٹھپ ہو گیا۔ مجھے امریکہ میں بیٹھے ہوئے اپنے بدقسمت سیکٹر جی 13 کا خیال آیا جہاں درجنوں ہمسایوں سے پوچھے بغیر ایک کمرشل منصوبے کی فلک بوس عمارتوں میں دس منزلوں کا مزید اضافہ کر دیا گیا۔ ہمارے ہاں فرد کے حقوق کا ادراک بے حد مدہم ہے۔ تین ہزار فلیٹ بنا کر سیکٹر کا بیڑہ غرق کیا جا رہا ہے۔ اصل نقشے کی سی ڈی اے نے صریحاً خلاف ورزی کی ہے اور عذر یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ ہم تو سرکاری ملازمین کو سستی رہائش فراہم کر رہے ہیں...عذرِ گناہ بدتر از گناہ ۔پورے سیکٹر میں پوسٹر لگے ہوئے ہیں کہ یہ کمرشل منصوبہ جی 13 کا قتل ہے مگر ناانصافی پر مبنی ہائوسنگ پراجیکٹ زور و شور سے جاری ہے۔
بلڈنگ کنٹرول کے چند بنیادی اصول ہیں۔ عمارت شروع کرنے سے پہلے نقشہ پاس ہوتا ہے۔ اسلام آباد میں چونکہ زلزلوں کے امکانات میدانی علاقوں سے زیادہ ہیں لہٰذا یہاں زمین کی بوجھ اٹھانے کی قوت (Bearing Capacity) کا ٹیسٹ پیشگی ہوتا ہے۔ اسلام آباد کی عمارتوں کی تکمیلی سرٹیفکیٹ سے پہلے انسپکشن ایک زمانہ میں سی ڈی اے کیا کرتی تھی۔ سنا ہے کہ اب یہ سرٹیفکیٹ بغیر انسپکشن بھی مل جاتا ہے۔ ہماری فیڈرل ہائوسنگ فائونڈیشن ایسے کاموں میں سی ڈی اے سے چار قدم آگے ہے۔ جی چودہ اور جی تیرہ میں سینکڑوں گھر بطور پلاٹ فائونڈیشن نے ٹرانسفر کئے ہیں۔ سی ڈی اے اور فائونڈیشن اسلام آباد کے مستقبل سے کھیل رہی ہیں۔
2017ء کے اواخر میں سی ڈی اے نے دارالحکومت میں 80 غیر قانونی عمارتوں کو تلاش کر ہی لیا۔ یہ عمارتیں زیادہ تر ای الیون سیکٹر میں بنی ہیں اور یہ اونچی اونچی اپارٹمنٹ بلڈنگز ہیں اور خلافِ قانون بنی ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ سی ڈی اے عمارتوں کی تکمیل کے بعد ہی بیدار کیوں ہوتی ہے؟ پچھلے سال سی ڈی اے نے چالیس غیر قانونی عمارتوں پر تالے لگے دیئے اور اب اطلاع یہ ہے کہ بائیس مالکان نے تالے توڑ لئے ہیں۔ یہ ہے اس ملک میں قانون کا احترام، یہاں بلڈرز مافیا اور قبضہ مافیا بہت سٹرونگ ہیں اور یہ لوگ اکثر حکومتی پارٹی کا حصہ ہوتے ہیں تاکہ ان پر کوئی ہاتھ نہ ڈال سکے۔ سی ڈی اے کے تجاہل عارفانہ اور ہائوسنگ فائونڈیشن کے لالچ نے اسلام آباد کی لٹیا ڈبو دی ہے۔
دو روز پہلے میں اپنی فیملی اور چند دوستوں کے ساتھ اسلام آباد کلب ڈنر کیلئے گیا، گاڑی سے نکلے تو فضا میں عجیب طرح کی‘ تکلیف دہ بدبو تھی۔ کلب کے لوگوں سے پوچھا تو پتا چلا کہ راول ڈیم میں مچھلیاں گندے پانی کی وجہ سے مرکر ساحل پر گلنے سڑنے لگ گئی ہیں۔ یہ ہم ایوب خان اور ڈوکسیاڈس کے اسلام آباد کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟
(جاری) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں