"JDC" (space) message & send to 7575

اصل ایشوز پر فوکس کریں

جون 2011ء میں معروف فن کارہ عتیقہ اوڈھو سے بیرونِ ملک سے آمد پر دو بوتل شراب برآمد ہوئی۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے واقعہ کا از خود نوٹس لے لیا۔ عتیقہ اوڈھو کئی سال تک ماتحت عدالتوں کے چکر لگاتی رہیں۔ کیس معمولی تھا‘ لیکن ٹرائل کورٹس کو ملزمہ کو بری کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کیونکہ از خود نوٹس بڑے صاحب نے لیا تھا۔ چند ماہ پہلے خبر پڑھی کہ اسلام آباد پولیس نے ایک ہوٹل سے تقریباً پچاس نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ڈانس کرتے ہوئے گرفتار کر لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عتیقہ کی لائی ہوئی دو بوتل شراب اس ملک کے لئے زہرِ قاتل ہے یا روز افزوں غربت؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر سابق چیف جسٹس کو فنکارہ سے پکڑی گئی دو بوتلیں سخت بری لگیں تو انہیں بار کی ان رسیدوں پر غصہ کیوں نہ آیا جو ارسلان افتخار کے حوالے سے عدالت میں پیش کی گئی تھیں۔ کیا کسی ہوٹل یا فارم ہائوس پر ہونے والی ڈانس پارٹی ملک کے لئے زیادہ خطرناک ہے یا تیزی سے پھیلتا ہوا کالا یرقان۔ اور کیا منافقت میں ڈوبے ہوئے معاشرے میں اخلاقیات کا نفاذ آرڈیننس ایشو کر کے کیا جا سکتا ہے۔ کیا لوگوں کے منہ سونگھنے سے زیادہ ضروری نہیں کہ ہماری پولیس اپنی توجہ لوگوں کی جان و مال کی حفاظت پر مرکوز رکھے۔ قتل اور ڈکیتی جیسی وارداتیں چند روز اخباروں کی زینت بنتی ہیں اور پھر داخل دفتر ہو جاتی ہیں۔ ڈانس پارٹی پر ریڈ کر کے تھانیدار کو سستی شہرت بھی ملتی ہے اور رشوت کا ریٹ بھی بڑھ جاتا ہے۔
اللہ بخشش فرمائے‘ نواب امیر محمدخان آف کالا باغ غضب کے ایڈمنسٹریٹر تھے ۔ پابند صوم و صلوٰۃ تھے، ایماندار تھے۔ جب گورنر مقرر ہوئے تو دیکھا کہ گورنر ہائوس میں ایک عدد بار بھی ہے جس کا مقصد غیر ملکی مہمانوں کی خاطر تواضع تھا۔ فوراً حکم دیا کہ شراب کی تمام بوتلیں توڑ کر نالیوں میں بہا دی جائیں۔
صادقین مرحوم نے خبر پڑھی تو اسے گورنر صاحب کی بدذوقی پر محمول کیا۔ کسی سرکاری فنکشن میں صادقین کی گورنر صاحب سے ملاقات ہو گئی تو بے خوف ہو کر کہا کہ نواب صاحب بہت اعلیٰ قسم کی شراب کی بوتلیں آپ کے ایک اشارے سے نالیوں میں بہا دی گئیں۔ مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ بوتلیں ہم جیسے فقیروں کو دی ہوتیں کہ یہ ہمارے سسٹم سے گزر کر بھی نالیوں میں جا سکتی تھیں۔ نواب کالا باغ خود نڈر تھے، لہٰذا کسی حد تک زبان دراز مگر بے خوف صادقین کی بات کا برا نہیں منایا۔
اس زمانے میں لاہور کی بادشاہی مسجد کے پاس دو تین گلیاں تھیں جہاں رقص و موسیقی سے متعلق لوگ رہتے تھے۔ رات کو گانے والی لڑکیاں یہاں اپنا فن پریکٹس کرتی تھیں۔ نواب صاحب کو یہ علاقہ اچھا نہیں لگتا تھا۔ چنانچہ حکم دیا کہ ناچ گانے کا کاروبار بند کیا جائے۔ لہٰذا ان گلیوں سے طائوس و رباب غائب ہو گئے۔ لیکن ہوا یوں کہ یہ کاروبار شہر کے دوسرے علاقوں میں چلا گیا۔ محفلیں برملا ہونے کی بجائے خاموشی سے ہونے لگیں لیکن کئی جگہ شریف لوگ اس بات پر سڑتے کڑھتے نظر آئے کہ ہمسائیگی میں مشکوک سے لوگ آ گئے ہیں۔ ان دنوں مجھے اکثر غلام عباس کا مشہور افسانہ آنندی یاد آتا تھا۔ نواب صاحب نے دور کا نہیںسوچا اور اپنی پارسائی کے زعم میں مشکوک لوگوں کو پورے شہر میں پھیلانے کا سبب بنے۔
عصمت فروشی کو دنیا کے قدیم ترین پیشوں میں شمار کیا جاتا ہے اور اس قبیح پیشے کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔ دوسری بات یہ کہ جس چیز کی طلب یعنی ڈیمانڈ ہو گی اسکی سپلائی بھی شروع ہو جائے گی۔ اگر اس مکروہ دھندے کو ختم کرنا ہے تو پہلے غربت ختم کریں۔ ہر بالغ شہری اور خاص طور پر خواتین کو عزت والی جاب دیں۔ نوجوانوں کو بروقت شادی کے لئے آسان شرطوں پر قرضے فراہم کریں۔ سعودی حکومت یہ کام باقاعدگی سے کرتی ہے اور سعودی قیادت نے حال ہی میں اس بات کا بھی ادراک کیا ہے کہ صحت مند انٹرٹینمنٹ لوگوں کی ضرورت ہے لہٰذا وہاں سینما ہائوس کھل رہے ہیں۔
اور اگر سینما جیسی بے ضرر انٹرٹینمنٹ بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جائے گی تو یار لوگ فحش مواد کی طرف جائیں گے جو انٹرنیٹ پر موجود ہے لیکن جب کوئی نوجوان خاموشی سے اپنے کمرے کی مکمل تنہائی میں یہ مواد دیکھ رہا ہوتا ہے تو یوٹیوب یا گوگل والوں کو پتا ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ پر فحش مواد لگانے والی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ فحش مواد پاکستان میں دیکھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کا نوجوان جنسی طور پر بہت فرسٹیٹڈ ہے۔ اگر وہ ڈانس کرتا ہے تو ہم تھانیدار کو اس کے پیچھے لگا دیتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے اصل ایشوز کیا ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا پرابلم تو غربت ہے اور اس قدر غربت کہ اخلاقی اقدار کو ہر طرح کافور کر رہی ہے۔ ہوٹل کے بیرے یا ٹیکسی ڈرائیور کو سو پچاس ٹپ دے دیں تو وہ بہت خوش ہوتا ہے۔ الیکشن میں ووٹ کی قیمت ایک دن کی مزدوری اور ایک وقت کا کھانا ہے۔ ایسے میں اخلاقیات کا نفاذ بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ غربت کو دور کرنا ہے تو آبادی کے سیلاب کو روکنا ہو گا اور ہماری نظروں کے سامنے بنگلہ دیش اور ایران نے اپنی پاپولیشن کو کنٹرول کیا ہے۔ آبادی کے جن کو بوتل میں لا کر ہمیں معاشی ترقی کی رفتار آٹھ فیصد سالانہ تک لانا ہو گی۔ یہ عمل کم از کم دو عشرے بغیر تعطل کے چلے گا تو غربت کم ہو گی۔ ہمارے سامنے چین نے یہ عمل کامیابی سے کیا ہے۔ کروڑوں انسانوں کو غربت سے نکالا ہے۔
ہمارا دوسرا مسئلہ تعلیم کا روبہ زوال نظام ہے۔ آٹھ لاکھ بچے انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھ رہے ہیں تو چوبیس (24) لاکھ دینی مدارس میں ہیں ۔ان دونوں میں کوئی ڈائیلاگ ممکن ہی نہیں اور ان دونوں کے درمیان سرکاری اردو میڈیم سکول ہیں جن کا معیار تیزی سے گرا ہے۔ بے شمار بچے سرے سے سکول جاتے ہی نہیں۔ انکے والدین انہیں اشرافیہ کے گھروں میں کام پر لگا دیتے ہیں یا وہ کسی دکان اور ورکشاپ میں چھوٹے کا کام کرتے ہیں۔ یہ وہ لاکھوں بچے ہیں جن سے ہمارے بے رحم سسٹم نے بچپن بھی چھین لیا ہے۔
ہمارا تیسرا بڑا پرابلم صحت کا ہے پینے کا صاف پانی کئی لوگوں کو میسر نہیں۔ اس کی وجہ سے یرقان پھیل رہا ہے۔ نائی اور دندان ساز آلودہ اوزار استعمال کرتے ہیں جو کالے یرقان کا سبب بنتے ہیں۔ مناسب حکمتِ عملی سے اس مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن یہاں کسی کو پروا ہی نہیں۔ ہمارے ٹی وی اینکرز دن رات سیاسی چائے کے کپ میں طوفان برپا کئے رکھتے ہیں‘ قوم بلند فشارِ خون کا شکار ہو گئی ہے۔ کتنے پروگرام ہوتے ہیں ہمارے ٹی وی چینلز پر یرقان، ذیابیطس یا دل کی بیماریوں کے حوالے سے؟ ایک فرض شناس اور نڈر خاتون ملاوٹ اور ناقص خوراک کے حوالے سے چند روز خبروں میں آتی ہے اور پھر اسے غائب کر دیا جاتا ہے۔ ناقص خوراک کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل پستہ قد اور کمزور ہے۔ بچے کھیلوں کے میدان میں پسینہ بہانے کی بجائے ویڈیو گیمز اور سنوکر کو ترجیح دیتے ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ میرٹ کا غائب ہو جانا اور سست نظامِ انصاف ہے اور یہ دونوں مل کر بے یقینی اور انتہا پسند سوچ کو جنم دیتے ہیں۔
بات عتیقہ اوڈھو کی دو بوتل شراب سے شروع ہوئی تھی۔ وہ بے چاری کئی سال عدالتوں کے چکر لگاتی رہی جبکہ پاکستان میں ہر روز ہزاروں بوتلیں شراب کی بکتی ہیں اور پی جاتی ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔ کیا یہ بڑی منافقت نہیں۔ یہاں میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمارے ہاں شراب کی کھلی اجازت ہونی چاہئے۔ میری دلیل یہ ہے کہ شراب یا ڈانس ہمارے بڑے پرابلم نہیں اصلی مسئلے اور ہیں جنکی طرف سے اغماض کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک گروہ کا بیانہ یہ ہے کہ 1971ء کی جنگ ہم نے یحییٰ خان کی بلا نوشی کی وجہ سے ہاری۔ ہم لوگ گہری سوچ اور ریسرچ سے گھبراتے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں شکست کا بڑا سبب یہ تھا کہ جمہوری مینڈیٹ کو ہم نے ماننے سے انکار کیا۔ ہمارے مغربی پاکستان کے لیڈروں نے کہا کہ جو ڈھاکہ اسمبلی اجلاس میں جائے گا اسکی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ بھٹو صاحب نے ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگایا۔ سلامتی کونسل میں پولینڈ کی قرارداد پھاڑ دی ورنہ ہمارے فوجی با عزت واپس آ سکتے تھے۔ یحییٰ خان کا فوجی کیریئر شاندار تھا۔ اس کی امانت پر کبھی کوئی انگلی نہیں اٹھی۔ اس کے کوئی سوئس اکائونٹ نہیں تھے۔ 1971ء کی ہماری شکست کے کئی اور اسباب بھی تھے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں