"JDC" (space) message & send to 7575

انڈیا اور چائنا: ایک تقابلی جائزہ

انڈیا اور چائنا دونوں بہت بڑے ملک ہیں۔ دونوں قدیم تہذیبوں کے گہوارے رہے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں اور صدیوں‘ بلکہ ہزار ہا سال سے ایک دوسرے سے واقف ہیں سلک روٹ چین سے شروع ہو کر براستہ انڈیا اور ایران یورپ تک جاتا تھا۔ بدھ مت نے انڈیا میں جنم لیا اور آج کے چین کا سب سے بڑا مذہب ہے۔ چین سپر پاور بن چکا ہے‘ جبکہ انڈیا سپر پاور بننے کی سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے۔ انڈیا اور چائنا کی باہمی تجارت نوے ارب ڈالر سالانہ ہو گئی ہے ۔چائنا سلامتی کونسل کا دائمی ممبر ہے‘ جبکہ انڈیا اسی مرتبے کو حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا نمبر ون ملک ہے۔ انڈیا دوسرے نمبر پر ہے‘ لیکن وہ دن دور نہیں۔ جب انڈیا کی آبادی چائنا سے زیادہ ہو جائے گی‘ کیونکہ انڈیا میں آبادی کی شرح نمو چائنا سے خاصی زیادہ ہے۔ چائنا کی اکانومی انڈیا سے چار گنا ہے اور دفاعی بجٹ تین گنا ہے۔ چائنا فی کس آمدنی میں انڈیا سے بہتر ہے‘ لیکن اس سال انڈیا کا اقتصادی گروتھ ریٹ چائنا سے متجاوز ہے۔ 1991ء کے بعد انڈیا میں غربت کم ہوئی ہے‘ مگر غربت کے خاتمے کے حوالے سے بھی چائنا کا ریکارڈ انڈیا سے بہتر ہے۔انڈیا اور چائنا دونوں نے آزادی تقریباً ایک ساتھ حاصل کی آزادی کے وقت چین کے معاشی حالات بھی خاصے دگرگوں تھے‘ مگر اب غیر جانبدار ماہرین کی رائے ہے کہ اقتصادی ترقی کے اعتبار سے چائنا انڈیا سے دس سال آگے ہے۔ برٹش انڈیا کے زمانے میں برما‘ بنگلہ دیش اور پاکستان انڈیا کا حصہ تھے‘ مگر اب تینوں آزاد ممالک ہیں۔ گو کہ انڈیا نے کشمیر اور گووا Goa پر غاصبانہ قبضہ کر کے اپنا رقبہ بڑھایا ‘لیکن تبت اور ہانگ کانگ چائنا کا حصہ بنے تو چین مجموعی رقبہ بھی خاصا بڑھ گیا۔
آج سے تقریباً تین عشرے قبل چین کے لیڈر ڈینگ سیاؤپنگ Deng Xiaoping نے بہت بڑا فیصلہ کیا۔ اُسے سمجھ آ گئی تھی کہ سوشلسٹ نظام اقتصاد پر چل کر چائنا اقتصادی سپر پاور نہیں بن سکے گا؛ چنانچہ پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی شروع ہوئی ۔دور رس اقتصادی اصلاحات کا آغاز ہوا۔ آج چین کی ساٹھ فیصد اکانومی پرائیویٹ سیکٹر میں ہے۔ ڈینگ سیاؤ پنگ نے دیکھ لیا تھا کہ سوویٹ اکانومی اشتراکی نظام کی وجہ سے امریکہ کا مقابلہ نہیں کر پائی تھی۔ پچھلے پینتیس سال سے چائنا کی شرح نمو 7فیصد سے اوپر رہی ہے۔ اچھی اور لگاتار اکنامک پرفارمنس کی وجہ سے آبادی کا ایک اچھا خاصا حصہ غربت کی لکیر سے اوپر آ گیا ہے۔ آج کے چین میں خوشحالی صاف نظر آتی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ 1947ء کے بعد تین چار دہائیوں تک انڈیا بھی سوشلسٹ پالیسی کو فالو کرتا رہا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کا خیال تھا کہ سوشلسٹ انڈیا ایک عظیم ملک ہوگا ‘جہاں بڑی حد تک معاشی مساوات ہوگی غریبوں کی تعداد بہت کم ہوگی‘ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ نہرو کی سوشلسٹ پالیسی کی وجہ سے اقتصادی ترقی کی رفتار بہت سست ہو گئی۔ مغربی ماہرین اقتصاد اسے مذاق کے طور پر ہندو ریٹ آف گروتھ کہتے تھے۔ 1991ء میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اقتصادی اصلاحات کا آغاز کیا۔ اکانومی میں پرائیویٹ سیکٹر کی اہمیت بڑھنے لگی۔ برطانیہ امریکہ اور کینیڈا گئے ہوئے انڈین شہری اپنے اصلی وطن میں سرمایہ کاری کرنے لگے۔ مغرب کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں پڑھے ہوئے بہت سارے انڈین نئی سوچ اور مہارت Skills لیکر آئے۔ انڈیا میں اعلیٰ ٹیکنالوجی کے اچھے تعلیمی ادارے بنے۔ 1992ء کے بعد سے انڈیا کی اقتصادی شرح نمو خاصی اچھی رہی ہے ‘اب وہاں خاصی بڑی تعداد میں مڈل کلاس موجود ہے۔ غربت میں کمی آئی ہے۔ میں 1993ء میں انڈیا گیا تھا اور مجھے انڈیا میں خوفناک قسم کی غربت اور بے حد امارت ساتھ ساتھ نظر آئی تھیں‘ لیکن سُنا ہے اب حالات خاصے بدل چکے ہیں ؛ دو ڈالر یومیہ یا اس سے کم آمدنی والے اشخاص کی تعداد کم ہوئی ہے۔ اب تک یہ کہا جاتا تھا کہ غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے سب سے زیادہ لوگ انڈیا میں بستے ہیں۔ اسی سال انڈین ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ غرباء کی سب سے بڑی تعداد اب انڈیا میں نہیں‘ بلکہ نائیجیریا میں ہے۔ جب صدر ڈینگ نے فیصلہ کیا کہ اقتصادی ترقی اب چین کی نمبر ون ترجیح ہوگی ‘تو وہ سرمایہ دارانہ نظام کی طرف راغب ہوئے‘ جب کسی نے اُن سے اتنے بڑے یوٹرن کی منطق پوچھی تو جواب ملا کہ اچھی بلی وہ ہوتی ہے جو زیادہ سے زیادہ چوہے شکار کرے‘ بلی کا رنگ کالا ہے یا سفید یہ بات اہم نہیں ‘یہ وہ فکر تازہ تھی‘ جس نے چین میں اقتصادی انقلاب برپا کیا اور آج چائنا‘ امریکا کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔
صدر ڈینگ کو یقین تھا کہ ہمسایوں سے تعلقات ٹھیک کئے بغیر اقتصادی ترقی کا حصول لمبے عرصے کے لئے ممکن نہیں؛ چنانچہ چین نے روس اور انڈیا سے اپنے تعلقات بہتر کئے۔ پچھلے ماہ میں چائنا میں تھا‘ وہاں ہمیں مختلف تھنک ٹینکس کے ساتھ بات چیت کا موقع ملا۔ مجموعی تاثر یہی تھا کہ چائنا نہیں چاہتا کہ انڈیا کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ آئے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ انڈیا‘ چائنا کی برآمدات کے لئے بڑی مارکیٹ ہے‘ دوسرے چین نہیں چاہتا کہ انڈیا مکمل طور پر امریکا کا ہو جائے ؛البتہ ہمسایوں کے باب میں انڈیا کا ٹریک ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں ۔ انڈیا‘ پاکستان اور چائنا دونوں سے جنگیں لڑ چکا ہے۔ سری لنکا اور انڈیا کے تعلقات میں بہت سارے اتار چڑھاؤ آئے۔ پچھلے سال انڈیا نے نیپال کا تجارتی بلاکیڈ کئے رکھا۔ انڈیا کی رعونت نے سارک کو غیر فعال تنظیم بنا دیا ہے۔ دوسری جانب چائنا اور انڈیا کے باہمی ہمسائے‘ مثلاً: پاکستان اور نیپال میں چائنا سے تعلقات مزید مضبوط کرنے کی خواہش اور بڑھ گئی ہے اور تو اور ننھا مُنا بھوٹان جو کل تک انڈیا کے اشاروں پر ناچتا تھا‘ اب اس بات کی طرف راغب ہے کہ چائنا اور انڈیا دونوں سے اچھے تعلقات رکھے جائیں۔ انڈیا کی ہمسایوں پر بالادستی کی سوچ نے اُسے اپنے ریجن میں غیر مقبول بنا دیا ہے؛ البتہ دور دراز کے ملکوں‘ مثلاً: امریکا‘ برطانیہ‘ روس‘ اسرائیل اور جاپان کے ساتھ انڈیا کے ریلیشن بہت اچھے ہیں۔امریکا اب واضح طور پر روس اور چین کو اپنا حریف تصور کرتا ہے۔ چائنا کے ساتھ صدر ٹرمپ نے تجارتی جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ اب پلان یہ ہے کہ چین کے گرد عسکری گھیرا بھی تنگ کیا جائے ‘اس پلان میں انڈیا ‘امریکا کا ساتھی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ انڈیا بیک وقت چائنا کا حلیف بھی اور حریف بھی۔ سی پیک کی انڈیا کھل کر مخالفت کر رہا ہے‘ کیونکہ وہ پاکستان کو اپنا بیک یارڈ سمجھتا ہے۔ Belt and Road Initiative (BRI) کی وجہ سے چائنا کا اثر رسوخ سنٹرل ایشیا پاکستان مشرق بعید مڈل ایسٹ اور افریقہ میں بڑھ رہا ہے‘ جسے انڈیا حاسد کی نگاہ سے دیکھتا ہے‘ مگر کر کچھ نہیں سکتا۔
چین کے گرد دائرہ تنگ کرنے کے پلان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے امریکا نے انڈیا‘ جاپان اور آسٹریلیا کو اپنا حلیف بنایا ہے۔ اس سلسلہ میں انڈیا اور امریکہ کے مابین پچھلے سال ہونے والا لاجسٹک معاہدہ بہت اہم ہے۔ اس معاہدے کی رو سے انڈیا اور امریکا کے بحری اور ہوائی جہاز ایک دوسرے کے فوجی اڈوں تک جا کر مختلف قسم کی سہولیات سے استفادہ کر سکیں گے‘ مثلاً: انڈیا کے جہاز ڈیگوکارشیا میں امریکی اڈے سے پٹرول لے سکتے ہیں‘ مرمت کرا سکتے ہیں‘ اسی طرح امریکی جہاز انڈمان میں انڈین بیس میں مختلف سہولتیں حاصل کر سکتے ہیں۔انڈین معاشرہ طبقاتی طور پر اور مذہبی لحاظ سے منقسم نظر آتا ہے۔ انڈیا کے مقابلے میں چین زیادہ متحد ہے‘ وہاں ڈسپلن انڈیا سے کہیں زیادہ ہے۔ انڈیا کے شمال مشرقی علاقے میں ماؤ شورش ہے۔ چین کے سنکیانگ صوبے میں بھی علیحدگی پسند رحجانات ہیں‘ لیکن چین اس کا علاج اکنامک ڈیویلپمنٹ سے کر رہا ہے اور اپنی پالیسی میں کامیاب نظر آتا ہے۔
انڈیا اور چائنا کی باہمی مسابقت وقت گزرنے کے ساتھ تیز ہو گی۔ امریکا اسے مزید ہوا دے گا۔ چائنا کی پوری کوشش ہوگی کہ مسابقت کا درجہ ٔ حرارت زیادہ بڑھنے نہ پائے ۔دونوں ملک ایٹمی صلاحیت رکھتے ہیں ‘لہٰذا جنگ کے امکانات بہت کم ہیں؛ البتہ دنیا میں نئی سرد جنگ کا آغاز ہوتا نظر آ رہا ہے‘ جہاں چائنا اور انڈیا مخالف کیمپوں میں ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں