"JDC" (space) message & send to 7575

لکشمی دیوی اور مسرت

ہندو دھرم میں لکشمی دولت کی دیوی ہے۔ دولت کے حصول کے بارے میں مختلف معاشروں میں دلچسپ افکار اور روّیے ملتے ہیں۔ سترہویں صدی تک یورپ والے غربت اور مظلومیت کو اچھی نظر سے دیکھتے تھے۔ جدید علوم آئے اور صنعتی انقلاب برپا ہوا۔ ہابز اور جان لوک جیسے مفکر آئے۔ ان کے افکارِ تازہ نے پورے یورپ کو متاثر کیا۔ یہ دونوں سیاسی فلاسفر جائیداد کو انسانی حقوق میں شمار کرتے ہیں۔ اُن کے افکار کے مطابق ریاست کی تخلیق ایک عمرانی معاہدے کے تحت ہوئی اور مقصد انسانی جان اور جائیداد کی حفاظت تھا۔ اور پھر علم اقتصادیات کے موجد ایڈم سمتھ نے کہا کہ غربت سوسائٹی سے مسرت چھین لیتی ہے۔
قدیم زمانے میں انسان ہر روزاپنی خوراک کا بندوبست کرتا تھا۔ وہ روزانہ اپنا شکم بھرنے نکلتا تھا۔ ابھی خوراک کو سٹور یا ذخیرہ کرنے کے طریقے دریافت نہیں ہوئے تھے۔ چھ سات ہزار سال پہلے باقاعدہ زراعت ہونے لگی تو ہل جوتنے کے لئے انسان کو جانور رکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ جانور رکھنے سے دودھ اور گوشت کی ضروریات بھی پوری ہونے لگیں۔ چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد ہونے لگیں۔ آنے والے دنوں کے لئے غلہ ذخیرہ کیا جانے لگا پھر اس غلے اور مویشیوں کی حفاظت کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس حفاظت کے لئے قبائلی اور زرعی معاشرے منظم ہونے لگے۔ ہابز کی عمرانی معاہدے کی تھیوری کے مطابق قدیم زمانے کے انسان کی زندگی مختصر اور مظلوم تھی۔ وہ ہر وقت خطرات میں گھرا رہتا تھا‘ لہٰذا اُس نے خوشی خوشی تمام اختیارات ریاست کے حوالے کر دیئے۔ آج بھی ہر گاؤں اور ہر شہر میں بے شمار لوگ روزانہ تلاش رزق میں گھروں سے نکلتے ہیں اور شام کو گھر آتے ہیں۔ شہروں کی مصروف شاہراہوں پر مزدور سائیکل پر دیہاڑی کمانے نکلتے ہیں تو ارب پتی‘ کھرب پتی بننے کی سعی میں لمبی لمبی کاروں میں نکلتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ لالچ انسانی فطرت میں شامل ہے۔ ایک لاشعوری عدم تحفظ کا احساس ہے جو امیر سے امیر تر بننے کی خواہش پیدا کرتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دولت انسان کو سوسائٹی میں محترم بناتی ہے۔ ایک ہندی کہاوت ہے: مایا تیرے تین نام‘ پرسو پرسا پرس رام۔
قدیم زمانے کے انسان کو زیادہ سے زیادہ غلہ سٹور کرنے کی فکر رہتی تھی تو آج کے انسان کو بینک بیلنس بڑھانے اور اثاثے جمع کرنے کا ہمہ وقت شوق بلکہ بعض حالات میں جنوں ہے اور اگر دولت مشکوک ہو تو وہ کبھی اُسے سوئٹزر لینڈ میں چھپاتا ہے اور کبھی منی لانڈرنگ کے ذریعے دبئی اور لندن لے جاتا ہے۔ لمبی چوڑی جائیدادیں بناتا‘ پھر انہیں چھپانے کیلئے آف شور کمپنیوں کا سہارا لیتا ہے۔ باہر بینک اکاؤنٹ کھلوانے کے لئے فرضی اقامے بنواتا ہے۔ کمیشن، رشوت اور کک بیک تیسری دنیا کے لیڈروں میں زیادہ سرایت کئے ہوئے ہیں۔ مارکوس، ثانی اباچہ اور نجیب رزاق کی بے پناہ لوٹی ہوئی دولت کی کہانیاں زبان زدِعام رہیں۔ عین ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے چند لیڈر بھی اس آنر لسٹ میں شامل ہو جائیں۔ 
چند سال قبل خشونت سنگھ نے مسرت کے حصول کے لئے چند ضروری شرائط لکھی تھیں جو سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے پڑھیں۔ ان میں من جملہ دیگر چیزوں کے اچھے بینک بیلنس کا بھی ذکر تھا۔ خشونت سنگھ کے مطابق اچھی صحت اور مالی آسودگی خوشی کے حصول کے لئے دو بنیادی شرائط ہیں۔ ساتھ ہی سردار جی نے لکھا کہ ضروری نہیں بینک بیلنس کروڑوں میں ہو لیکن تفریح کے لئے، فلم دیکھنے کے لئے یا باہر کھانا کھانے کے لئے فالتو پیسے ہونا ضروری ہیں۔ اگر موسم گرما آپ کسی ہل سٹیشن پر گزارنا چاہیں یا بیرون ملک سفر کرنا چاہیں تو بھی سرمایہ درکار ہے۔ سردار صاحب نے اپنی پاپولر تجاویز کے ساتھ یہ بھی مزید لکھا کہ تنگ دستی انسان کے مورال پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ قرض پر گزارہ کرنے والوں کی عزت نفس بھی مجروح ہوتی ہے جبکہ جان لوک نے انسانی زندگی‘ انسانی آزادی اور پراپرٹی کے تحفظ کو ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل کیا تھا تو امریکی صدر تھامس جیفرسن نے امریکی آئین کے دیباچے میں حق زندگی ‘حق آزادی اور خوشی کے حصول کو ہر امریکی شہری کے بنیادی حقوق میں شمار کیا۔ آج کے امریکہ میں امیر اشخاص کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بشرطیکہ یہ امارت جائز طریقوں سے کمائی گئی دولت کا نتیجہ ہو۔ وہاں کئی میگزین امیر ترین لوگوں کی فہرست ہر سال شائع کرتے ہیں۔ امریکہ کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ ہاتھ سے کام کرنے میں کسی کو عار نہیں۔ لڑکے لڑکیاں بارہویں جماعت کے بعد والدین سے علیحدگی اور آزاد زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ امریکہ میں امیر سے امیر آدمی فخر سے بتاتا ہے کہ نوجوانی میں ویٹر کا کام کیا یا ریسٹورنٹ میں برتن دھوئے۔ ان کاموں کے ساتھ ساتھ یا بینک سے قرضہ لے کر امریکن نوجوان یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور پھر عملی زندگی میں داخل ہو جاتے ہیں۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام متمول شہریوں کو قدر کی نگاہ سے کیوں دیکھتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ وہاں سب سے زیادہ ٹیکس متمول لوگ ہی دیتے ہیں۔ ان لوگوں کی آمدنی کا چالیس فیصد تک انکم ٹیکس میں جاتا ہے۔ حکومت کا پہیہ چلانے میں سب سے بڑا رول انہی لوگوں کا ہے۔ ہاؤسنگ کی مارکیٹ‘ کاروں کی خریداری اور سپر مارکیٹ میں ٹرالیاں بھر کر شاپنگ بھی یہی لوگ کرتے ہیں۔ اس طرح اشیائے صرف کی مجموعی ڈیمانڈ بلند رہتی ہے کارخانے دن رات کام کرتے ہیں۔ معیشت کا پہیہ رواں دواں رہتا ہے۔
اور آئیے اسلام کے دولت کے بارے میں احکام کا سرسری جائزہ لیتے ہیں۔ اسلام دین وسط ہے لہٰذا یہاں نہ غربت سے محبت کا درس ملتا ہے اور نہ دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کا۔ یہ بھی کہا گیا کہ بیٹے اور دولت دنیاوی زندگی کی زینت ہیں ان سے اتنی محبت نہ کرو کہ آخرت ہی کو بھول جاؤ۔ لیکن اسلام میں رہبانیت ہے اور نہ تزہد۔ مسلمان کو بھرپور دنیوی زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہے ۔وہ جائز طریقے سے جتنے پیسے کمانا چاہے کما سکتا ہے لیکن اپنے مال و دولت میں سے زکوٰۃ دینا اس پر فرض ہے۔ یہ بات اب تسلیم شدہ ہے کہ امیر سرمایہ کار معیشت کی ترقی میں فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ ایوب خان کے زمانے میں سہگل داؤد‘ ہارون آدم جی اور دیگر صنعت کار خاندان پاکستان کی معاشی ترقی میں شاندار رول ادا کر رہے تھے اور پھر شور مچا کر پاکستان کی ساری دولت بائیس فیملیز کے پاس ہے۔ صنعتوں کو قومیا لیالگا۔ سرمایہ پاکستان سے اُڑ کر باہر چلا گیا اور اس جذباتی اور کوتاہ نظر فیصلے کا نتیجہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک انسان کو خوش رہنے کے لئے کتنی دولت درکار ہے تو میرا جواب ہوگا کہ اپنی ضروریات سے ذرا زیادہ مثلاً اگر آپ کے ماہانہ اخراجات دو لاکھ روپے ہیں تو ڈھائی سے تین لاکھ کی آمدنی آپ کے لئے کافی ہے۔ پچاس ہزار سے ایک لاکھ ماہانہ کا کُشن اس لئے ضروری ہے کہ انکم ٹیکس بھی دینا ہے اور اگر کسی ڈھنگ کے پرائیویٹ ہسپتال میںداخلہ لینا پڑے تو وہاں چوبیس گھنٹے کے اوسطاً اخراجات ایک لاکھ روپے ہیں یعنی صحت کو بحال کروانا بھی سستا کام نہیں رہا۔ اور اگر آپ کا ایک بیٹا یا بیٹی باہر کسی اچھی یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے لئے چلے جائیں تو سالانہ خرچ پچاس لاکھ روپے سے زائد ہو سکتا ہے۔
پچھلے سال لندن گیا تو ایک انتہائی ذہین اور قابل شخص سے اسی موضوع پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ یہ صاحب سو فیصد سیلف میڈ ہیں۔ آغاز ایک انتہائی غریب فیملی سے ہوا۔ شاندار تعلیمی کیریئر کے بعد چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بنے۔ برطانوی قدامت پسند پارٹی میں فعال ہیں۔ ممبر آف برٹش ایمپائر ایم بی ای کا خطاب پا چکے ہیں۔ اُن کا ذکر اس کالم میں پہلے تفصیل سے آ چکا ہے۔ موصوف پکے مسلمان ہیں اور ایماندار بھی۔ میں نے محمد امین ایم بی ای سے پوچھا کہ آپ مزید دولت حاصل کرنا چاہیں گے‘ اُن کا جواب تھا: جی ہاں یقینا۔ میں نے کہا: اللہ نے آپ کو بہت کچھ دیا ہے ‘اب مزید کی کیا ضرورت ہے؟ ان کا جواب تھا کہ اگر مجھے اضافی مال و دولت مل جائے تو میں غریبوں کی بہتر مدد کر سکوں گا۔
برطانوی دانش ور جارج برنارڈشا نے کہا تھا کہ غربت تمام برائیوں کی جڑ ہے اور مجھے اس بات سے خاص حد تک اتفاق ہے اقبالؒ نے کہا تھا ؎
آنکہ شیراں را کند روباہ مزاج
احتیاج است احتیاج است احتیاج

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں