"JDC" (space) message & send to 7575

سال نو کے عزم

تمام قارئین کو نیا سال مبارک ہو۔ جب نیا سال آتا ہے تو اکثر لوگ نئے اہداف کا تعین کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ پورے ہوتے ہیں اور کئی ادھورے رہ جاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ تن تنہا میں نہ افغانستان میں امن لا سکتا ہوں اور نہ ہی مشرق وسطیٰ میں جاری جنگوں کو بند کرا سکتا ہوں۔ لہٰذا اس مرتبہ قابلِ عمل چھوٹے چھوٹے مگر مفید ذاتی اہداف کا تعین کیا ہے جو آسانی سے حاصل ہو سکیں اور آئندہ 31 دسمبر کو میں اپنے آپ کو مطمئن اور کامیاب شمار کر سکوں۔
مثلاً میرا ہدف ہے کہ اپنا وزن تین کلو گرام اس سال کم کروں گا۔ یہ قابلِ حصول عزم ہے۔ میں نے 2019ء میں وزن چار کلو گرام کم کیا ہے۔ دو تین مہینے لائٹ لنچ کیا۔ روزے باقاعدگی سے رکھے۔ پندرہ سال کے وقفے کے بعد گولف دوبارہ شروع کر دی گو کہ ہفتہ میں ایک روز ہی کھیلی لیکن شام کی واک میں زیادہ باقاعدگی آ گئی۔ میری خوش قسمتی تھی کہ کرنل فاروق اور شمروز خان جیسے واکنگ پارٹنر مل گئے۔ ہم روزانہ سوا گھنٹہ واک کرتے ہیں اور پھر پندرہ منٹ ہمیں کرنل صاحب پی ٹی کراتے ہیں تا کہ پیٹ باہر نہ نکلے اور کمر خمیدہ نہ ہو۔ بزرگی میں عام طور پر ٹھوڑی کے نیچے ایک اور ٹھوڑی بن جاتی ہے۔ کرنل صاحب کے پاس اس کا بھی علاج ہے۔ ورزش کے علاوہ دوستوں کے ساتھ بے تکلف گپ شپ ہماری روزمرہ روٹین کا حصہ ہونی چاہئے کہ اس طرح غبارِ خاطر چھٹ جاتا ہے۔ لہٰذا 2020ء میں میری روزانہ واک جاری رہے گی۔
ورزش کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسانی بدن کا حرارے صرف کرنے کا عمل سست نہیں پڑتا۔ وزن کنٹرول میں رہتا ہے۔ بلڈ پریشر اور شوگر جیسے امراض سے بچائو ممکن ہو جاتا ہے۔ یہ بات ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ آج سے پندرہ سال پہلے یونان میں مجھے ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اگر آپ نے احتیاط نہ کی تو چند سالوں میں شوگر کا مرض لاحق ہو سکتا ہے۔ میرے لئے یہ خطرے کی گھنٹی تھی جو خوش قسمتی سے ٹھیک وقت پر بج گئی تھی۔ پچھلے پندرہ سال میں لائف سٹائل تھوڑا سا بدل کر میں آج بھی شوگر سے محفوظ ہوں۔ چاول، گندم اور چینی کم کھاتا ہوں اور واک باقاعدگی سے کرتا ہوں۔ لہٰذا کسی بھی دوائی کے بغیر میری گلوکوز ریڈنگ نارمل ہے۔ گولف اس سال جاری رکھنے کا مصمم ارادہ ہے گو کہ اسلام آباد کلب میرے گھر سے دور ہے۔ گولف کی ایک مکمل گیم میں ساڑھے تین گھنٹے واک ہو جاتی ہے۔
رات کو پڑھتے پڑھتے یا ٹی وی دیکھتے دیکھتے اکثر گیارہ یا بارہ بج جاتے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ ٹی وی زیادہ دیکھنا دماغی اور جسمانی صحت کے لیے اچھا نہیں۔ یہ ایک مفعول Passive قسم کا عمل ہے جس میں آپ صوفے پر بیٹھ کر گھنٹوں دوسروں کی باتیں سنتے ہیں۔ امریکی اسی وجہ سے ٹی وی کو احمقوں کا ڈبہ یا Idiot Box کہتے ہیں۔ اس سال میرا عزم ہے کہ دس بجے رات سو جائوں۔ اس سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ صبحدم تروتازہ اٹھوں گا اور دوپہر کو آرام کرنے کی چنداں ضرورت نہیں رہے گی۔ اس طرح جو وقت دوپہر کو میسر ہو گا وہ لکھنے، پڑھنے کے مفید کام میں صرف ہو سکتا ہے۔ 
اچھا لکھنے کے لیے باقاعدگی سے پڑھنا ضروری ہے۔ یہ کالم لکھنے کے علاوہ میں خلیج کے ایک اخبار میں انگریزی کالم بھی تحریر کرتا ہوں‘ لہٰذا پڑھنا اور ریسرچ دونوں لازمی ہوتے ہیں۔ سال نو کا ایک عزم یہ بھی ہے کہ بارہ ماہ میں اتنی ہی کتابیں پڑھنی ہیں یعنی ہر ماہ ایک اچھی کلاسک یا تازہ ترین تخلیق کا مطالعہ کرنا مقصود ہے۔ ولیم ڈال رمپل کی کتاب انارکی میں نے خرید لی ہے‘ لیکن یکم جنوری سے آغاز Sapiens نامی کتاب سے کیا ہے۔ یہ بنی نوع انسان کی تاریخ کے اہم سنگ ہائے میل کے بارے میں ہے اور یروشلم یونیورسٹی کے پروفیسر یوال حراری Yuval Harari نے لکھی ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں خریدی جانے والی یہ کتاب عرصے تک بیسٹ سیلر رہی ہے۔ حراری نے انسانی ادوار کو مختلف تاریخی ایجادات سے منسلک کر کے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ اور وہ ایجادات ہیں آگ، زراعت، کرنسی اور سائنس۔ مصنف کے مطابق سائنس کی ایجاد نے بنی نوع انسان کو خطرناک بنا دیا ہے۔ میں اردو اور انگریزی دونوں کتابیں پڑھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اردو کی کتابوں میں عبداللہ حسین کا ناول ''اداس نسلیں‘‘ اور سبط حسن کی کتاب ''موسیٰ سے مارکس تک‘‘ میری اس سال کی ریڈنگ لسٹ کا حصہ ہیں۔ مطالعہ ذہنی بالیدگی کا یقینی ذریعہ ہے اور یہ وہ ذریعہ ہے جو بچپن سے لے کر بڑھاپے تک ہمیں دستیاب ہے۔
میں بہت غیر منظم انسان ہوں۔ کاہلی کا عنصر بھی طبیعت میں نمایاں ہے۔ میرے مقابلے میں بیگم بہت ہی منظم خاتون ہیں۔ ان کی زندگی میں سلیقہ اور وقت کی پابندی نمایاں ہیں۔ ہمارے گھر کے تہہ خانے میں وہ کمرہ جو میری لائبریری ہے اور آفس بھی وہاں بے ترتیبی دیدنی ہے۔ کتابیں کچھ الماری میں ہیں تو کچھ میزوں پر ادھر اُدھر بکھری پڑی ہیں۔ دراز غیر ضروری کاغذات اور پرانی رسیدوں سے بھرے پڑے ہیں۔ فائلوں میں بھی بے ترتیبی واضح نظر آتی ہے۔ کپڑوں کے لیے دو وارڈ روب ہیں لیکن پھر بھی روزمرہ استعمال کے کئی پہناوے کرسیوں پر نظر آتے ہیں۔ اس سال میرا ارادہ ہے کہ غیر ضروری کاغذات کو ردی کی ٹوکری کی راہ دکھائی جائے اور وہ کتابیں جو پڑھ چکا ہوں یا آئندہ کبھی پڑھنے کا ارادہ نہیں ہے وہ کسی لائبریری کو دے دی جائیں۔
وہ کپڑے جو شاذ ہی استعمال میں آئیں گے ایدھی فائونڈیشن کو دے دیئے جائیں۔ ضروری کاغذات ترتیب سے فائلوں میں لگائے جائیں۔ پچھلے دس سالوں میں تقریباً ہر سال بیرون ملک جاتا رہا ہوں۔ امریکہ، چین، سعودی عرب، یو اے ای اور انگلینڈ متعدد بار گیا۔ اس سال ذائقہ بدلنے کے لیے کینیڈا جانے کا ارادہ ہے۔ کینیڈا سے میں خوب واقف ہوں، وہاں پوسٹنگ بھی کر چکا ہوں لیکن اس بات کو ایک زمانہ ہو گیا۔ کینیڈا بہت بدل چکا ہے۔ وہاں بڑی تعداد میں غیر ملکی جا کر آباد ہوئے ہیں‘ جو اب کینیڈین شہری ہیں۔ چینی بڑی تعداد میں وہاں گئے ہیں اور ہر بڑے شہر میں چائنا ٹائون ہے۔ پاکستانی اور انڈین وہاں بڑی تعداد میں آباد ہوئے ہیں۔ اتنی تعداد میں کہ ٹورنٹو کے مضافاتی قصبے مسی ساگا Mississauga کا نام یار لوگوں نے بیگم پورہ رکھ دیا ہے۔ وجہ تسمیہ یہ ہے کہ انڈین اور پاکستانی خاوند‘ جو مڈل ایسٹ میں کام کر رہے ہیں‘ وہ بیوی بچوں کو تعلیم کی غرض سے کینیڈا بھیج دیتے ہیں۔ اس لیے کہ مشرق وسطیٰ میں جامعات میں غیر عربوں کا داخلہ بہت مشکل ہے۔ کینیڈا مختلف مذاہب اور ثقافتوں کا حسین امتزاج ہے۔ وہاں وزیر دفاع سکھ ہے اور کئی مسلمان پارلیمنٹ میں ہیں۔ بیرون ملک جا کر نئے نقطہ ہائے نظر سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور کینیڈا اس لحاظ سے بہت دلچسپ ہے۔
موسیقی روح کی غذا ہے۔ جب ہم گورنمنٹ کالج لاہور کے نیو ہوسٹل میں تھے تو شام گئے بھاٹی گیٹ کی طرف پُرانے فلمی گانے سننے جاتے تھے۔ وہاں ایک چائے خانے میں چند آنے کا چائے کا کپ ملتا تھا اور گانے مفت۔ اور اب تو بے شمار گانے ہمارے سمارٹ فون میں موجود ہیں۔ میں اچھی موسیقی کو محفوظ کر لیتا ہوں اور دوستوں کے ساتھ شیئر بھی کرتا ہوں۔ پورے دن کی تھکاوٹ کے بعد اگر چند منٹ اچھی موسیقی سن لی جائے تو انسان ذہنی طور پر تر و تازہ ہو جاتا ہے۔ سال نو میں یہ عادت انشاء اللہ جاری رہے گی۔
چند بے تکلف دوست یہ بھی پوچھتے ہیں کہ مجھے جیسے سینئر سٹیزن کو چند کلو گرام وزن کم کرنے کی کیا ضرورت ہے یا مستقبل کی پلاننگ اس سٹیج پر کیوں کی جائے تو بات یہ ہے کہ انسان کو سینئر عمر میں بھی اپنے اندر کے بچے کو زندہ رکھنا چاہئے۔ مستقبل کے خواب دیکھنا چاہئیں۔ سرتاج عزیز صاحب ماشاء اللہ نوے کو کراس کر چکے ہیں۔ دس سال پہلے انہوں نے اپنی کتاب لکھی۔ اب بھی گولف کھیلنے آتے ہیں۔ میں انہیں گولف کورس پر دیکھ کر سوچتا ہوں کہ ابھی مجھے بہت کچھ کرنا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں