"JDC" (space) message & send to 7575

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

اگلے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی موجودگی میں فلسطین کے لئے دو ریاستی حل کا پھر سے اعادہ کیا اور اسے Deal of the century یعنی پوری صدی کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیا۔ اس موقع پر عرب امارات‘ بحرین اور سلطنت عمان کے سفرا موجود تھے۔ اس پیش کش کے مطابق مغربی کنارے پر بنی ہوئی یہودی بستیاں اسرائیل کا حصہ ہوں گی مگر نئی بستیوں کی تعمیر چار سال کے لئے روک دی جائے گی۔ ان چار سالوں میں نئی فلسطینی ریاست کے خدوخال پر مذاکرات ہوں گے۔ اس امن پلان کے تحت گولان کی پہاڑیاں بھی اسرائیل کے پاس رہیں گی اور اسرائیلی دارالحکومت القدس میں ہو گا‘ اس شہر کو تقسیم نہیں کیا جائے گا۔ فلسطینی مہاجرین جو 1948 اور 1967 کی جنگوں کے نتیجے میں اردن شام اور لبنان جانے پر مجبور ہوئے تھے وہ اپنے وطن واپس آ سکیں گے مگر صرف فلسطینی ریاست کے علاقے میں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ فلسطین کے بارے میں امن پلان وضع کرتے وقت نہ تو فلسطینی قیادت سے مشورہ کیا گیا اور نہ ہی ان کا کوئی نمائندہ صدر ٹرمپ کی پریس کانفرنس میں موجود تھا۔ ع
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
اس پلان کے اعلان کی ٹائمنگ خاصی اہم ہے۔ صدر ٹرمپ آج کل ہمہ وقت ووٹوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اس اعلان سے انہیں دائیں بازو کے مزید ووٹ مل سکتے ہیں۔ اسرائیل کے وزیر اعظم کو بد عنوانی کے الزامات کا سامنا ہے۔ ان کی حکومت کمزور ہے اور دوبارہ انتخاب کی نوبت آ سکتی ہے۔ صدر ٹرمپ کا امن اعلان اسرائیلی وزیر اعظم کے لئے باعث تقویت ہے۔ خلیجی ممالک دفاعی اعتبار سے امریکہ کے دست نگر ہیں کیونکہ وہی ان کے خیالی یا حقیقی دشمن یعنی ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کو مزید بڑھنے سے روک سکتا ہے۔ ایران کے بارے میں خلیجی ممالک کی بد ظنی اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ اسرائیل کو نہ صرف بطور زمینی حقیقت ماننے کا سوچ رہے ہیں بلکہ اُسے علاقائی قوت کے توازن میں اپنے پلڑے میں دیکھ رہے ہیں۔
فلسطین کے مسئلہ کے تین پہلو بہت اہم ہیں۔ پہلا پہلو ہے مجوزہ فلسطینی ریاست کی سرحدیں۔ دوسرا پہلو القدس ہے جسے اسرائیلی یروشلم کہتے ہیں اور جو تین بڑے مذاہب کے لئے روحانی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 1948 کے اقوام متحدہ کے تقسیم پلان میں القدس کے لئے بین الاقوامی کنٹرول تجویز کیا گیا تھا‘ لیکن ٹرمپ منصوبے کے تحت القدس اسرائیل کے نہ صرف زیر تصرف ہو گا بلکہ وہ یہودی ریاست کا دارالحکومت بھی ہو گا۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق جو لوگ حالتِ جنگ کی وجہ سے وطن چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں وہ واپسی کا حق رکھتے ہیں مگر اسرائیل اپنے علاقے میں کسی فلسطینی کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ جہاں تک نئی فلسطینی ریاست کے رقبے اور سرحدوں کا تعلق ہے تو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اسرائیل کو 1967 کی سرحدوں پر واپس جانا ہو گا۔ اس طرح فلسطینی ریاست دریائے اردن کے مغربی کنارے کے اُس تمام علاقے پر قائم ہو گی جو 1967 سے پہلے اردن کے کنٹرول میں تھا۔ غزہ کی پٹی بھی اس ریاست کا حصہ ہو گی‘ لیکن اسرائیل کسی صورت 1967 سے پہلے والی پوزیشن پر جانے کو تیار نہیں۔
تاریخ پر نظر ڈالیں تو فلسطین پر کسی نہ کسی بڑی طاقت کا تسلط نظر آتا ہے۔ صدیوں تک یہ علاقہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد یہاں برطانیہ کی حکمرانی شروع ہوئی۔ چند سال ہی گزرے تھے کہ برطانوی حکومت نے یہودیوں کو فلسطین میں اپنی ریاست بنانے کا عندیہ دیا۔ اس وعدے کو بیلفور ڈیکلریشن (Balfour Declaration) کہا جاتا ہے۔ ٹرمپ پلان کو فلسطینی قیادت نے دوسرے بیلفور اعلان کا نام دیا ہے اور اسے مسترد کر دیا ہے۔
عرب دنیا میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ جو فلسطینیوں کو 1948 کی تقسیم کے فارمولا کے تحت مل رہا تھا وہ قبول کر لیتے تو تین جنگوں سے بچ جاتے۔ ان جنگوں نے عربوں کو کمزور کیا ہے اور آج وہ امریکہ اور اسرائیل کے دست نگر ہیں۔ عقل مند کہتے ہیں کہ جنگ تب لڑنی چاہئے جب قوت پوری ہو اور تیاری مکمل ورنہ ہزیمت کے لئے تیار رہیں‘ اور آج عرب بہت کمزور پوزیشن میں ہیں‘ لہٰذا انہیں کہا جا رہا ہے کہ تھوڑے کو زیادہ سمجھ کر قبول کر لو ورنہ اس سے بھی جاؤ گے۔ ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ مسئلہ فلسطین پرعرب سپورٹ خاصی کم ہو گئی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ایک زمانے میں مصر فلسطین کاز کے لئے لڑنے کو تیار رہتا تھا۔ 1979 میں امریکی امداد کے لالچ میں مصر نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا اور سمجھئے کہ جنگ سے تائب ہو گیا۔ بعد میں اردن نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کر لئے۔ تین ممالک اور تھے جو فلسطینی حقوق کے پرجوش حامی تھے اور وہ تھے عراق، لیبیا اور شام۔ اور ان تینوں کا جو حال ہوا ہے وہ آپ بخوبی جانتے ہیں اور اب مڈل ایسٹ کی گلیاں پُر عزم لوگوں سے خالی ہیں اور بیچ میں اسرائیل سینہ تان کر پھر رہا ہے۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ تیل کی دولت کے باوجود عرب کمزور کیسے ہوئے اور اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود طاقت ور کیسے بن گیا۔ قومی قوت (National Power) کے تین اجزائے ترکیبی ہوتے ہیں: سیاسی طاقت، عسکری قوت اور اقتصادی مضبوطی۔ سیاسی طاقت کا سب سے اہم عنصر باہمی اتفاق ہے۔ اتفاق کا الٹ نفاق ہے جو باہمی جنگوں اور سول وار کی طرف لے جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ یمن میں 1960 کی دہائی میں خانہ جنگی ہوئی تھی جس میں سعودی عرب اور مصر متحارب دھڑوں کو سپورٹ کر رہے تھے۔ 1970 میں پی ایل او اور اردنی حکومت کے فوجی دستوں میں جھڑپیں ہوئیں۔ 1975 میں لبنان میں سول وار ہوئی جو ایک عشرے تک چلی۔ میں 1977 میں دمشق میں پوسٹڈ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ عراق اور شام کا بارڈر پورا سال بند رہا کیونکہ عراقی اور شامی بعث پارٹی میں سخت مخاصمت تھی۔ 1980 میں عراق نے ایران پر حملہ کیا اور 1990 میں صدام حسین کی فوجیں کویت پر چڑھ دوڑیں۔ لیبیا کے کرنل قذافی مغربی ممالک کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے‘ بعد میں انہیں اس کا بھاری تاوان دینا پڑا۔سیاسی طاقت کے لئے حکومت اور عوام کا باہمی تعاون ضروری ہے جو اقتدار میں عوامی مشارکت سے نمو پاتا ہے مگر عرب ممالک میں جمہوری روایت بہت ہی کمزور ہے حکومت اور عوام میں فاصلے عرب سپرنگ کے شروع ہونے کی بڑی وجہ ہے۔
عرب ممالک تعلیم، صنعت اور ٹیکنالوجی میں اسرائیل سے بہت پیچھے ہیں۔ اسرائیل ایک ایٹمی طاقت ہے اور جدید اسلحے کا بڑا ایکسپورٹر بھی۔ عرب دنیا میں چند صنعتیں خلیجی ممالک میں ہیں۔ مصر اور شام ایک عرصے تک سوشلزم میں پھنسے رہے۔ جنوبی یمن میں تو ہر چیز قومی ملکیت میں چلی گئی تھی۔ میں عدن 1988 میں تین ہفتے کی عارضی ڈیوٹی کے لئے گیاتھا۔ 1986 کی سول وار کے اثرات ابھی بڑی بڑی عمارتوں پر دیکھے جا سکتے تھے۔ وہ شہر جو ایک زمانے میں آج کے دبئی کی طرح شاپنگ کے لئے مشہور تھا اپنی رونق کھو چکا تھا۔ خلیجی تعاون کونسل یعنی جی سی سی نے اقتصادی انضمام اور کامن کرنسی کا جو خواب دیکھا تھا وہ بھی پورا نہیں ہو سکا اور اب تو جی سی سی خود انقسام کا شکار ہے۔
شام کی خانہ جنگی اور یمن وار نے عرب دنیا کی ممکنہ توانائی Potential کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ بیروت میں مظاہرے ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ عراق سیاسی عسکری اور اقتصادی لحاظ سے نحیف و نزار ہے۔ عرب سپرنگ، عراق اور شام میں بیرونی مداخلت کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہوا ہے۔ کرنل قذافی کا لیبیا عملاً دو حصوں میں تقسیم نظر آتا ہے۔ ان حالات میں فلسطینی بیچارے اپنے حقوق کے لئے کب تک اور کیسے لڑیں گے؟
تقدیر کے قاضی کا فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں