"JDC" (space) message & send to 7575

نائن الیون کے دور رس اثرات

نائن الیون ہمارے زمانے کا ناقابلِ فراموش واقعہ تھا۔ آج یہ اہم واقعہ کچھ بیک گراؤنڈ میں چلا گیا ہے‘ اب دنیا کی نظریں موسمی تبدیلیوں پر ہیں اور دوسری طرف روس یوکرین جنگ ہے کہ بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اس جنگ کی وجہ سے یورپ میں انرجی کے مسائل پیدا ہو چکے ہیں۔ کئی ممالک کو غذائی اجناس کی قلت کا سامنا ہے۔ دو عشروں سے زائد وقت گزرنے کے باوجود دنیا کو نائن الیون کے دوررس اثرات کا سامنا ہے۔
امریکہ پر نائن الیون کے فوری اثرات مرتب ہوئے۔ امریکا میں خوف و ہراس کی فضا تھی۔ دنیا بھر کے چینل ہوائی جہازوں کا بلند و بالا عمارتوں سے ٹکرانا بار بار دکھا رہے تھے۔ نائن الیون کے بعد نیو یارک اور واشنگٹن ڈی سی میں جو عوامی سروے ہوئے اُن میں 70فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ امریکی طالبعلموں کی بڑی تعداد کا کہنا تھا کہ وہ پڑھائی پر فوکس نہیں کر سکتی۔ امریکی ہوائی اڈوں پر مسافروں کی جامہ تلاشی لی جانے لگی یہاں تک کہ مسافروں کو جوتے بھی اتارنے کا حکم ملتا تھا۔ میں 2017ء میں آخری بار امریکہ گیا تھا اور ہر ایئر پورٹ پر جوتے اتارے لیکن وہاں یہ بات بری اس لیے نہیں لگی کہ ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک ہو رہا تھا۔غرض اس واقعے کے بعد عالمی منظر نامہ خاصا بدل گیا لیکن پاکستان پر اس کے منفی اور مثبت‘ دونوں طرح کے اثرات مرتب ہوئے جن کا ذکر کالم کے آخر میں کیا جائے گا۔
نائن الیون جب پیش آیا‘اُس وقت میں یونان میں سفیر مقرر تھا۔ مشرف حکومت مارشل لاء کی وجہ سے خاصی تنہائی کا شکار تھی۔ یورپی یونین نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مشرف حکومت کے ساتھ ہائی لیول رابطے معطل رہیں گے یعنی کوئی یورپی صدر یا وزیراعظم پاکستان کا دورہ نہیں کرے گا۔ نائن الیون کے بعد جیسے ہی پاکستان امریکہ کا پھر سے حلیف بنا‘ یورپ نے بھی پاکستان کے ساتھ ہائی لیول روابط بحال کر دیے۔ اب انہیں مشرف حکومت میں کوئی برائی نظر نہیں آ رہی تھی۔
اس اہم واقعے کے کچھ عرصہ بعد ہی مجھے مختلف یونانی ٹی وی چینلز کے فون آنا شروع ہو گئے۔ کئی چینلز میرا انٹرویو کرنا چاہتے تھے۔ میں نے جہاں تک ممکن ہو سکا‘ انٹرویوز دیے۔ بنیادی لائن یہی تھی کہ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہے لیکن ایک سوال ہر اینکر ضرور پوچھتا تھا کہ اسامہ بن لادن کہاں ہے؟ میرا جواب یہ ہوتا تھا کہ پاکستان میں تو یقینا نہیں ہے اور حقیقت بھی یہی تھی کہ اس وقت تک اسامہ افغانستان میں تھا۔ بعض اینکرز کو میں طرح دینے کے لیے کہتا تھا کہ اگر مجھے اسامہ بن لادن کی لوکیشن کا پتا ہوتا تو بھاری انعامی رقم نہ حاصل کر لیتا؟امریکہ کو یقین تھا کہ نائن الیون کی پلاننگ القاعدہ نے افغانستان میں کی ہے‘ اس لیے کابل حکومت کو سبق سکھانا ضروری تھا۔ اس سے پہلے اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکالنے کے لیے بہت کوشش ہوئی۔ پاکستان‘ سعودی عرب اور عرب امارات صرف تین ممالک تھے جنہوں نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ پاکستان اور سعودی عرب نے مل کر ملا عمر سے کہا کہ اسامہ بن لادن کو افغانستان سے باہر بھیج دیا جائے لیکن ملا عمر نے کہا کہ یہ ہماری روایات کے خلاف ہے۔
افغانستان پر امریکہ اور نیٹو ممالک نے مل کر حملہ کیا۔ شروع میں اتحادی افواج کو بہت کامیابیاں ملیں۔ طالبان حکومت چند ہی ہفتوں میں ختم ہو گئی۔ اسی کامیابی کے نشے میں 2003ء میں امریکہ نے عراق پر چڑھائی کر دی اور پھر ان دو بے ثمر جنگوں میں ایسا الجھا کہ اس کی بین الاقوامی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچا۔ عراق پر حملے کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ صدام حسین کے پاس خطرناک کیمیائی ہتھیار ہیں جنہیں ختم کرنا از بس ضروری ہے۔ یہ الزام سراسر بے بنیاد تھا۔ اصل مقصد عراق کے انرجی وسائل پر قبضہ کرنا تھا۔ عراق پر حملے میں وزیراعظم ٹونی بلیئر کی قیادت میں برطانیہ امریکہ کا پُرجوش ساتھی تھا۔ پھر یہ قلعی بھی کھل گئی کہ کیمیائی ہتھیاروں کا جواز بے بنیاد تھا‘ لہٰذا عراق کی جنگ کے خلاف لندن میں فقید المثال جلوس نکالاگیا۔ صدام حسین پھانسی پا کر ہیرو بن گیا۔ عراق کی جنگ بے نتیجہ رہی اور افغانستان میں امریکہ کی پسپائی اور فرار تو ابھی کل کی بات ہے۔
امریکہ نائن الیون کے بعد کئی سالوں تک ان بے مقصد جنگوں میں الجھا رہا اور کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود بھی جیت نہ سکا‘ لیکن ادھر چین خاموشی سے ترقی کے سفر پر گامزن رہا۔ چین اقتصادی طور پر اب دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے اور چند سالوں میں نمبر ون ہو جائے گا۔ امریکہ جو 1991ء میں دنیا کی اکلوتی سپر پاور کے طور پر ابھرا تھا اب آہستہ آہستہ مگر مسلسل اپنی پوزیشن کھو رہا ہے۔
اب آتے ہیں نائن الیون کے پاکستان پر اثرات کی جانب! میرے خیال میں افغانستان کے بعد نائن الیون کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا۔ ہماری ہزاروں جانیں بے مقصد ضائع ہوئیں اور معیشت کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ جب پاکستان اس جنگ میں امریکہ کا معاون بنا تو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے جنم لیا۔ یہ قبائلی علاقوں کا ہماری افغان پالیسی پر ردِعمل تھا۔ ہمارے دشمن ممالک نے ٹی ٹی پی میں اپنی راہیں بنالیں‘ وہ جلتی آگ پر تیل ڈال کر الاؤ کے خوب مزے لیتے رہے۔ دہشت گردی کی اس بھڑکتی آگ نے ہماری معیشت کو ظاہری اور باطنی‘ دونوں طرح سے نقصان پہنچایا۔ آپ پوچھیں گے کہ باطنی نقصان کیسے ہوا تو اس کی تشریح کچھ یوں ہے کہ پچھلے دو تین عشروں میں کئی ترقی پذیر ممالک نے شاندار ترقی بیرونی سرمایہ کاری کی وجہ سے کی ہے۔ بھارت‘ ویتنام اور ملائیشیا اس کی واضح مثالیں ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری وہاں آتی ہے جہاں امن اور استحکام ہو‘ جو ملک حالتِ جنگ سے باہر نہ نکل سکے وہاں باہر سے سرمایہ کاری نہیں آتی اور پاکستان اس کی واضح مثال ہے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) بنی تو 1989ء میں تھی مگر اس وقت اس کا دائرۂ کار صرف منی لانڈرنگ تک محدود تھا‘ 2001ء میں اس میں دہشت گردی کی فنانسنگ کا اضافہ کیا گیا۔ ہر ملک کے لیے لازم ٹھہرا کہ وہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کو جرم قراردے۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ کو روکنا اچھے اقدام ہیں۔ اس سے یقینا ایسی تنظیموں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے جو فرقہ وارانہ اور ملتی جلتی سرگرمیوں میں فعال رہی ہیں۔ ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہمارے قومی مفاد میں ہے۔ ہمارے کئی لیڈروں پر بھی منی لانڈرنگ کے الزام لگتے رہے ہیں‘ یہ کالے دھن کو سفید کرنے کا قبیح دھندا ہے۔نائن الیون کا سب سے زیادہ نقصان آزادی کی تحریکوں کو ہوا ہے۔ گو کہ انٹرنیشنل لاء اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ مقبوضہ علاقوں کے لوگ اپنی آزادی کی جدوجہد میں ہتھیار بھی اٹھا سکتے ہیں لیکن امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت اب حریت پسندوں کو بھی دہشت گرد کہتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد اس نظریے نے تقویت پائی ہے۔ اب آپ کے بینک اکاؤنٹ میں باہر سے چند ڈالر بھی آ جائیں تو بینک طرح طرح کے سوال پوچھتے ہیں۔ نائن الیون کے واقعے نے یقینا عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور پاکستان کو امریکہ کا حلیف بننا بہت مہنگا پڑا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں