"JDC" (space) message & send to 7575

برکس اور سعودی عرب

برکس مغربی گروپ سے باہر اقتصادی طور پر ابھرتے ہوئے ممالک کی تنظیم ہے جو 2006ء میں معرض وجود میں آئی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے بعد ایک عمومی خیال تھا کہ نئے عالمی نظام کو مغربی ممالک امریکہ کی قیادت میں چلائیں گے گویا عالمی برتری جو مغربی ممالک نے دوسری عالمی جنگ کے بعد حاصل کی تھی‘ اس پر ایک اور مہر 1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے نے ثبت کر دی تھی۔
مگر عالمی حالات ایک ڈگر پر کبھی مستقل نہیں چلتے۔ قوموں کا عروج اور ان کا زوال قدرت کا دائمی اصول ہے۔ نائن الیون ہوا تو نہ صرف امریکہ بلکہ مغربی دنیا پریشان ہو کر رہ گئی۔ امریکہ افغانستان اور عراق کی جنگوں میں کود پڑا‘ چین کی خیرہ کن اقتصادی ترقی جاری و ساری رہی۔ روس کی توانائیاں پھر سے بحال ہونے لگیں۔ انڈیا اور برازیل بطور علاقائی طاقت ابھرنے لگے۔ ان ابھرتی ہوئی عالمی قوتوں نے ایسے متبادل اقتصادی نظام کی ضرورت محسوس کی جو مغرب کے کنٹرول سے نسبتاً آزاد ہو۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد بنے تھے۔ دونوں کے ہیڈ کوارٹر امریکہ میں ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں تجارتی لین دین ڈالر اور یورو میں ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ اور یورپ دیگر ممالک پر آسانی سے اقتصادی پابندیاں لگا سکتے ہیں۔ جب افغانستان اور عراق کی جنگوں کی افادیت پر سوال اٹھنے لگے تو یہ سوچ بھی زور پکڑنے لگی کہ امریکہ اب دنیا کی اکلوتی سپر پاور نہیں رہے گا۔ آئندہ کی دنیا میں طاقت کے متعدد محور ہوں گے۔ ابھرتا ہوا چین دنیا کے سیاسی اور اقتصادی نظام پر مغرب کی اجارہ داری کو چیلنج کرے گا۔
گزشتہ ماہ ساؤتھ افریقہ کے صدر سیرل راما فوسا نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور اعلان کیا کہ سعودی عرب نے برکس میں شمولیت میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ برکس کے اس وقت پانچ ممبر ہیں اور برکس کی اصطلاح ان ممالک کے ابتدائی حروفِ ابجد سے بنائی گئی ہے اور یہ ہیں برازیل‘ روس‘ انڈیا‘ چائنا اور ساؤتھ افریقہ یعنی BRICS اور اب اس میں ایک اور S کا اضافہ ہونے والا ہے۔
سعودی عرب وژن 2030ء کے ذریعے اپنی معیشت میں تنوع پیدا کر رہا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ تیل پر انحصار کم کیا جائے۔ سیاحت کو فروغ دیا جائے۔ 1945ء سے لے کر ماضی قریب تک سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات بہت قریبی رہے۔ امریکہ کو خلیجی تیل کی ضرورت تھی اور سعودی عرب کو امن اور سکیورٹی کی۔ امریکہ نے خلیج سے تیل خریدا اور خلیجی ممالک کو اربوں کے ہتھیار بیچے۔ دمام‘ بحرین اور قطر میں اپنے فوجی اڈے قائم کیے۔ سعودی عرب نے اپنے ملک سے مغربی عسکری وجود ختم کر دیا مگر بحرین اور قطر میں امریکی اڈے ابھی موجود ہیں۔ دریں اثنا شیل گیس کی پیداوار سے امریکہ خود تیل بڑی مقدار میں پیدا کرنے لگا۔ امریکہ کی سیاسی اور عسکری دلچسپی مشرق بعید میں بڑھنے لگی۔ مشرق وسطیٰ میں اس کے مفادات قدرے کم ہونے لگے کیونکہ اسرائیل بھی اب اپنے پاؤں پر کھڑا ہو چکا تھا۔ عرب ممالک میں اسرائیل کو چیلنج کرنے کی سکت اب نہیں رہی تھی۔
صدر بائیڈن نے انتخابی مہم میں سعودی عرب کو دھمکی دی تھی کہ انسانی حقوق کے حوالے سے ہم سعودی عرب کو اقوام عالم میں تنہا کر دیں گے۔ اس سال روس یوکرین جنگ شروع ہوئی تو امریکہ روس کو مالی طور پر کمزور کرنے کی سوچنے لگا۔ امریکہ میں مڈ ٹرم الیکشن بھی ہونے والے ہیں۔ ووٹر کو خوش کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پٹرول کی قیمت کم کی جائے۔ چنانچہ صدر بائیڈن بھاگے بھاگے سعودی عرب آئے اور درخواست کی کہ تیل کی پیداوار بڑھائی جائے۔ مقصد تھا کہ تیل کی عالمی قیمت کم ہو گی‘ روس کی آمدنی کم ہو جائے گی اور بڑی بڑی کاریں چلانے کے عادی امریکی شہری بھی خوش ہو جائیں گے اور اس طرح ایک تیر سے دو شکار ہو جائیں گے۔ سعودی عرب نے امریکی مطالبہ نہیں مانا۔ صاف ظاہر ہے کہ سعودی قیادت فارن پالیسی میں اپنے آپشن بڑھانا چاہتی ہے۔ اب وہ سارے انڈے امریکہ کی ٹوکری میں نہیں رکھنا چاہتی۔
امریکہ کی سیاسی قوت کا زوال شروع ہوا تو اس کا اثر لامحالہ ڈالر پر بھی پڑنا تھا۔ عالمی تجارت بار بار کی امریکی پابندیوں سے آزاد ہونا چاہتی تھی۔ اقتصادی پابندیوں کا سب سے زیادہ اثر روس اور ایران پر پڑا تھا۔ یہ ممالک متبادل کرنسی کی تلاش میں تھے۔ اس وقت روس اور ترکی میں تجارت روسی روبل میں ہو رہی ہے۔ انڈیا بھی روس سے سستا تیل خرید رہا ہے۔ یہاں بھی ادائیگیاں روپے اور روبل میں ہوئی ہیں۔ اب دونوں ممالک نے فیصلہ کیا ہے کہ چینی یوآن کو بطور تجارتی کرنسی استعمال کیا جائے۔
فارن پالیسی کے لحاظ سے انڈیا بہت دلچسپ ملک ہے۔ یہ امریکی سرپرستی میں رباعی گروپ Quad کا بھی حصہ ہے جس کا مقصد چینی قوت کو محدود رکھنا ہے۔ دوسری جانب اقتصادی طور پر ابھرتے ہوئے غیر مغربی ممالک کے بلاک یعنی BRICS میں بھی شامل ہے۔ انڈیا کی فارن پالیسی کا گائیڈنگ اصول اب Strategic autonomy ہے جس کا مطلب ہے کہ انڈیا اپنے خارجہ تعلقات کے فیصلے خود کرے گا اور کسی قسم کے بیرونی دباؤ سے مرعوب نہیں ہوگا۔انڈیا نے سعودی عرب کی برکس میں شمولیت کاخیر مقدم کیا ہے۔ اسی قسم کا بیان چین کی طرف سے بھی آ چکا ہے۔ لہٰذا سعودی عرب کی برکس میں شمولیت تقریباً یقینی ہے۔ پچھلے چند سال میں سعودی عرب اور انڈیا کے تعلقات میں نمایاں گرمجوشی نظر آئی ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی دو مرتبہ سعودی عرب کا سرکاری دورہ کر چکے ہیں۔ سعودی عرب انڈیا کا چوتھا بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ 26لاکھ انڈین شہری اس وقت سعودی عرب میں کام کر رہے ہیں۔ 2021ء میں دونوں ملکوں کی پہلی مشترکہ عسکری مشق ہوئی۔ یہ تعلقات اب سٹرٹیجک سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ اسی ماہ سعودی عرب کے ولی عہد کا پاکستان کا دورہ متوقع ہے‘ یہاں سے وہ انڈیا جائیں گے اور پھر کراؤن پرنس محمد بن سلمان اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جی 20 اجلاس میں شرکت کے لیے بالی‘ انڈونیشیا روانہ ہو جائیں گے۔
سعودی عرب کے علاوہ ایران‘ ترکی‘ مصر اور ارجنٹائن بھی برکس میں شمولیت کے متمنی ہیں۔ اب سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ پاکستان میں ایسی خواہش کیوں نہیں تو جواب یہ ہے کہ ہماری اندرونی چپقلش ختم ہو‘ سیاسی استحکام آئے‘ اقتصادی ترقی ہو تو ہم اقوامِ عالم میں کسی مقام کو حاصل کرنے کا سوچیں۔ فی الحال تو ہماری آپس کی لڑائیاں زور شور سے جاری ہیں۔ کشکول کو ہم توڑ نہیں پائے تو برکس میں جانے کی شرائط ہم فی الحال پوری نہیں کرتے۔قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ اقتصادی مفادات اب سیاسی حریفوں کو قریب لا رہے ہیں اور اس کی واضح مثال چین اور انڈیا ہیں جو بیک وقت حریف بھی ہیں اور حلیف بھی۔ برکس کا ہیڈ کوارٹر شنگھائی میں ہے‘ سربراہی اجتماع ہر سال باری باری مختلف ملک میں ہوتا ہے۔ اگلا سربراہی اجلاس جنوبی افریقہ میں ہوگا اور قوی امید ہے کہ وہاں سعودی عرب اس تنظیم میں داخل ہوگا۔ دنیا کی 40فیصد آبادی برکس ممالک میں رہتی ہے۔ ٹوٹل عالمی پیداوار میں 32فیصد حصہ برکس ممالک کا ہے۔ سعودی عرب کی شمولیت سے تنظیم کا مالی پروفائل اور بہتر ہو جائے گا۔ یہ تنظیم ایک طاقت ور مالی اور اقتصادی بلاک کے طور پر ابھر رہی ہے۔
پوری دنیا ایک بڑی تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ برکس کے ممالک مستقبل کا سوچ رہے ہیں۔ مغربی ممالک کی پوری توجہ تیل اور کوئلے سے آزاد ہونے پر ہے اور ایک ہم ہیں کہ اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ خدا کرے کہ کوئی ایسی لیڈر شپ آئے جو ہمیں اس دلدل سے نکالے اور آگے لے کر جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں