کل سویرے سویرے جب سورج ابھی سلیقے سے طلوع بھی نہیں ہوپایا تھا کہ گھر کے باہر لگی گھنٹی بج اٹھی۔ یا اللہ اس وقت کو ن آگیا۔ میں نے دل میں سوچا اور بجلی والوں کو بھی کوسا کہ اگر ساری رات بجلی بند ہونے سے کوئی قیامت نہیں آئی تھی تو اس وقت بجلی چالو کرنے کی آخر کون سی مجبوری تھی۔ نہ بجلی ہوتی نہ گھنٹی بجتی، لیکن جب گھنٹی بجتی ہی چلی گئی تو مجبوراً اٹھنا پڑا۔ یا اللہ کسی بھلے مانس کا منہ دکھانا، دل ہی دل میں دعا کی اور جاکر دروازہ کھول دیا۔دیکھا تو پڑوس والے شیخ صاحب سخت بوکھلائے ہوئے کھڑے تھے۔ ان کے بھلے مانس ہونے میں ذاتی طور پر تو میرے پاس شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی ،لیکن اڑوس پڑوس کی اکثریت کے نزدیک یہ کافی متنازعہ معاملہ تھا۔ شیخ صاحب کا حلیہ قابل دید تھا۔ غالباً بستر سے نکل کر سیدھے میری طرف آگئے تھے۔ گویا کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے ۔ سرکے بال الجھے ہوئے ۔ میلی سی بنیان زیب تن، شلوار کا ایک پائنچہ ٹخنوں سے کافی اوپر اٹھا ہوا جو غالباً کسی شرعی ضرورت کے تحت اوپر چڑھایا گیا تھا اور پھر وہیں رہ گیا۔پیشتر اس کے کہ میں کچھ کہتا ۔ شیخ صاحب پھٹ پڑے’’یار بڑا غضب ہوگیا‘‘ ’’خیریت تو ہے ،کیا ہوا؟‘‘میں نے گھبرا کر پوچھا۔ ’’وہ دو دن پہلے میں نے جو بکرا خریدا تھا پچاس ہزار کا۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’لیکن دو دن پہلے تو آپ نے خود مجھے بتایا تھا کہ آپ نے تیس ہزار کا بکرا خریدا تھا‘‘۔میں نے ان کو ٹوکتے ہوئے کہا’’افراطِ زر کی شرح ابھی اتنی خوفناک نہیں ہوئی کہ صرف دو دن میں تیس ہزار کی چیز پچاس ہزار کی ہوجائے‘‘۔ ‘‘تم ہر بات میں حجت کرتے ہو‘‘شیخ صاحب جھلا کر بولے’’گولی مارو قیمت کو ۔وہ بکرا اب نہیں ہے ۔ میں کیا کروں گاعید والے دن ‘‘۔ ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ میں نے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا۔’’خدا کو ایسے ہی منظور تھا۔ آپ یوں سوچیے کہ اس نے عید سے پہلے ہی آپ کی قربانی قبول فرمالی‘‘۔ ’’تم تو نرے احمق ہو‘‘ شیخ صاحب مزید جھنجھلا کر بولے‘‘ میں نے یہ کب کہاتھا کہ بکرا اللہ کو پیارا ہوگیا۔ ارے بھائی بکرا گھر سے بھاگ گیا‘‘۔ ’’بھاگ گیا‘‘ میں نے حسب توفیق حیران ہوتے ہوئے کہا’’شکر کریں شیخ صاحب باقی سب گھر والے موجود ہیں۔ آپ نے بکرے کو باندھ کر نہیں رکھا تھا؟‘‘۔ شیخ صاحب نے تفصیل سے بتایا کہ انہوں نے بہت مناسب انتظام کئے تھے۔ بکرے کو مضبوط رسی سے باندھا ہواتھا اور باہر کے دروازے پر کنڈی بھی لگی تھی۔ انہیں بکرے سے اتنی الفت ہوگئی تھی کہ وہ ہر وقت خود اس کا دھیان رکھتے تھے۔ان کے خیال میں یہ بکرا ان کے لیے دنیا میں بھی عزت کا باعث تھا اورآخرت میں بھی نجات کا ذریعہ۔لیکن بسا آرزوکہ خاک شدہ، جب صبح اٹھ کر دیکھا تو بکرا غائب تھا۔ گھر کے گیٹ کی کنڈی بدستورلگی تھی مگر باہر سے ۔ ’’یہ ضرور اسی بکرے کی حرکت ہوگی‘‘میں نے ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا’’جاتے جاتے گیٹ بند کرگیا کہ آپ اس کے پیچھے جانے کی زحمت گوارا نہ کریں۔ خیر جو ہونا تھا سوہوگیا۔ آپ اس بے وفا بکرے کو اب بھول جائیں‘‘۔ ’’کیسے بھول جائوں ‘‘ وہ رونی سی شکل بنا کر بولے’’عید والے دن کیا کروں گا اور قیامت والے دن اللہ کو کیا منہ دکھائوں گا۔ یار خدا کیلئے کچھ سوچو ۔ یہ ضرور کسی کی چال ہے‘‘ میں نے فوری طور پر شیخ صاحب کے حکم کی تعمیل میں سوچتے ہوئے پوچھا’’آپ کو کسی پر شک ہے؟‘‘۔ ’’شک تو تم پر بھی ہوسکتاہے۔ کیونکہ جب میں بکرا خرید کر گھر لارہاتھا تو تم اسے بہت گھور گھور کر دکھ رہے تھے‘‘ وہ بولے’’لیکن تم میرے ہمسائے ہو۔ فی الحال میں اپنا ایمان خراب نہیں کرتا‘‘۔ ’’آپ کی بڑی مہربانی شیخ صاحب‘‘ میں نے ان کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھا۔ ’’کسی چیز کے خراب ہونے کا اندیشہ تو تب ہوتا ہے جب وہ موجود ہو۔ اس معاملے میں آپ کو کوئی خطرہ نہیں۔ آپ کچھ دیر آرام کریں۔ دن نکل آئے تو کچھ کرتے ہیں‘‘ ۔ ’’یار میری جان پربنی ہے۔ تمہیں آرام کی پڑی ہے’’ شیخ صاحب کے لہجے میں عاجزی تھی۔ ذرا میرے ساتھ چلو ۔ سامنے پارک میں وہ ٹھیکیدار ابھی موجود ہے جس سے بکرا خریدا تھا۔ ہوسکتا ہے وہ بھاگ کر اس کے پاس چلا گیا ہو۔ میں اپنے بکرے کو مہندی کے نشان سے پہچان سکتا ہوں۔ وہاں سے تو دیکھ آئیں‘‘۔ شیخ صاحب کی بات معقول تھی۔ ’’آپ ضد کرتے ہیں تو چلے چلتے ہیں‘‘ میں نے حقِ ہمسائیگی ادا کرتے ہوئے کہا ’’لیکن خدا کے لیے پہلے اپنا حلیہ تو ٹھیک کرلیں‘‘۔ شیخ صاحب کی جیسے جان میں جان آگئی۔ جلدی سے اپنے گھر کی طرف لپکے اور جب برآمد ہوئے تو ان کے جسم پر ایک قمیض کا اضافہ ہوچکا تھا۔ ہم سڑک پار کرکے میدان کے اس حصے میں پہنچ گئے جہاں بکروں کی منڈی لگی تھی۔ ان کے رکھوالے تو ابھی تک سورہے تھے لیکن بکرے ایک اچھی صبح سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ شیخ صاحب فوری طور پر اپنے کام پر لگ گئے اور شناخت پریڈ کے انداز میں ہر بکرے کا جائزہ لینے لگے۔ بکرے بھی اتنے بکرے نہیں تھے۔ میرا خیال ہے ان کی نیت بھانپ گئے اور شیخ صاحب سے نظریں چرانے لگے۔ وہ چاہتے نہیں تھے کہ کوئی شامت کا مارا ان کی نظروں میں آجائے۔ لیکن شیخ صاحب نے ان کی اس حکمت عملی کو چور کی داڑھی میں تنکے پر محمول کیا اور خوش ہو کر بولے ’’دیکھا میں نہیں کہتا تھا کہ میرا بکرا ان میں ہی شامل ہوچکا ہوگا‘‘ (جاری)