تختِ برطانیہ کا تیسرا وارث اور قصہ عید کے چاند کا

برطانیہ میں 6 جولائی کو ایک لحاظ سے دو چھوٹے مگر تاریخی واقعات رُونما ہوئے۔ ایک کا تعلق پیدائش سے ہے اور دوسرے کا وفات سے۔ ملکہ برطانیہ کے پوتے کی بہو ایک ایسے بچے کی ماں بنی جو تخت کے وارثوں میں تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ اگر قضائے الٰہی سے نوزائیدہ بچے کا باپ اوردادا اور پڑدادی یکے بعد دیگرے (یا اکٹھے) کسی حادثہ کا شکار ہو کر ملک عدم کی راہ پکڑلیں تو وہ برطانیہ کا بادشاہ بن جائے گا،مگر اپنی تاج پوشی کے لئے اُسے تیرہ برس انتظار کرنا پڑے گا۔ برطانیہ کے ہر اخبارکے صفحہ اوّل پر ایک عمر رسیدہ ایشیائی خاتون کی تصویر کے ساتھ تعارفاً یہ سطور شائع ہوئیں: یہ تصویر جس بڑی بی کی ہے اُن کا نام سنت کور باجوہ ہے۔ عمر115 سال تھی اور وہ برطانیہ میں سب سے دراز عمر شخصیت تھیں۔ وہ جب 80 برس کی عمر کو پہنچیں تو ان کے 40 اور35 سال کے دو پوتے فوت ہو گئے ۔ان کے بچوں کی نگہداشت اور پرورش کی ذمہ داری دادی نے سنبھالی اور اُسے بہت اچھی طرح ادا کیا۔ سنت کور کے نام کے ساتھ باجوہ کے لفظ نے مجھے ذہنی طور پر اس بات کے لئے تیار کیا کہ اس بار میں نماز عید پڑھنے اپنی قریبی مسجد جائوں گا تو غالباً مجھے پہلے کی طرح آسانی سے داخل ہونے کی اجازت نہ ملے گی۔ مومن حضرات مجھے آدھا نہیں کم از کم ایک فیصد سکھ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے۔ میرا اندیشہ اس لئے درست نہ نکلا کہ برطانیہ میں ہر سال کی طرح دو عیدوں کے اعلان پراتنی بدمزگی ہوئی کہ نمازیوں کا دھیان میری طرف جانے کی بجائے اس نکتہ پر مرکوز رہا کہ آج شمع رسالت کے کتنے پروانے ہماری مسجد کا رُخ کرتے ہیں اور کتنے گزرے ہوئے کل ،چاند نظر نہ آنے بلکہ نہ آسکنے کے باوجودایک عرب ملک کی اندھا دھند نقل کرتے ہوئے اس فرض سے سبکدوش ہو چکے ہیں؟ برطانیہ اور یورپ کے سائنس دان آنکھ سے نظر نہ آنے والے ایٹم کے ہزارویں حصہ کی دریافت پر اربوں پائونڈ اور کئی عشروں کی محنت صرف کر چکے ہیں اور ایک فرزندان توحید ہیں کہ اُنہیں ہر سال چاند جتنا بڑا سیارہ دیکھنے میں اتنی مشکل پیش آتی ہے کہ وہ نہ اپنوں کی شرمندگی کو خاطر میں لاتے ہیں اور نہ غیروں کی تضحیک کو۔ بقول اقبال ؔ ؎ کس کی جرأت ہے مسلمان کو ٹوکے نہ چاہتے ہوئے میں ماضی کی طرف مڑ کر دیکھنے پر مجبور ہو گیا۔ ماہ رُمضان کے شروع اور اختتام پر چاند نہ دیکھ سکنے والی قوم وُہی ہے جس نے بھولے بسرے وقتوں میں رصد گاہیں بنائیں اور دُنیا کو علم نجوم سے رُوشناس کرایا۔ عروج و زوال کی یہ داستان ذہن میں بجلی بن کر کوند گئی۔ ہاتھ خود بخود دُعائے خیر کے لئے اُٹھ جاتے ہیں اور زبان ان چار الفاظ کو بار بار دہراتی ہے… ایسی بلندی! ایسی پستی! یونان اور روم کی تہذیبوں کے زوال کے بعد یورپ ایک ہزار سال (دوبارہ لکھتا ہوں) ایک ہزار سال گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبا رہا تو علم کا چراغ مسلمانوں نے جلائے رکھا۔ فلسفہ اور تاریخ سے لے کر طب اور سائنس کے ہر شعبہ میں وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیے جو علم وادب کی ترقی میں سنگ میل ثابت ہوئے۔ یہاں تک پہنچا تھا تو رُک گیا۔ یاد آیا کہ اہل یورپ پہلے ہی ہمیں ماضی پرست کہتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ ہم اپنی موجودہ نالائقی اور جہالت اور کم عقلی پر پردہ ڈالنے کے لئے اپنے آبائو اجداد کا ذوق و شوق سے ذکر کرتے ہیں اور اپنے شاندار ماضی کو اُجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں، پدرم سُلطان بود۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ان کا ذکر چھوڑو۔ یہ بتائو کہ تم کون ہو؟ کہاں کھڑے ہو؟ مندرجہ بالا سطور لکھی جاچکی تھیں کہ مجھے 12 اگست کو دو دن کے لئے پیرس آنا پڑا۔ مندرجہ ذیل سطور فرانس میں بعد دوپہر نیلے آسمان تلے چمکیلی دھوپ کی دوستانہ تمازت میں لکھی جا رہی ہیں۔ یہ وُہی پیرس ہے جس کے بارے میں ہم بچپن میں سنا کرتے تھے کہ وہاں سڑکیں شیشے کی بنی ہوئی ہیں۔یہ بھی اُس طرح کی افسانوی اور غیر حقیقی بات ہے جیسے کوہ قاف کے گردو نواح میں پریوں کا وجود۔ کوہ قاف کی یہی شہرت مجھے اس سال کے شروع میں وہاں کشاں کشاں لے گئی۔کافی تگ و دو کے بعد جب ناکام ہو گیا تو تھک ہار کربیٹھ گیا۔ پھر سوچا کہ میں کوئی مستنصر حسین تارڑ ہوں جسے ہر سفر میں پریاں مل جاتی ہیں جو مسافر سے دوستی کر کے اُس کے سفر نامہ کی زینت بن جانے سے بھی دریغ نہیں کرتیں۔آیئے پھر پیرس کی طرف لوٹ چلیں۔ اسفالٹ کی سڑکوں پر ہر طرف زندگی رواں دواں نظر آتی ہے۔ ماحول پرُسکون، پرُامن، خوشگوار، منظم، سلیقہ اور ترتیب کی تصویرہے۔کل پیرس کی رگِ جاں اور دُنیا کی غالبا ًمشہور ترین خوبصورت شاہراہ شانزے نیزے اپنا دفتری کام کرنے جائوں گا تو پاکستان کے سفارت خانہ کی عمارت پر ٹھہرتاہوا سبز ہلالی پرچم بھی دیکھوں گا۔ میں جناب ایس کے دہلوی مرحوم کو خراج عقیدت پیش کروں گا جنہوں نے دُنیا کے ایک مہنگے شہر کی سب سے شاندار سڑک پر قیمتی عمارت جو اُن کی ذاتی ملکیت تھی، فرانس میں پاکستان کی سفارت سنبھالنے پر ریاست پاکستان کو بطور تحفہ دے دی۔ انہی کے بیٹے کو قائداعظم ؒ پر جناح کے نام سے ایک کمال درجہ کی اچھی فلم بنانے کا اعزاز حاصل ہو چکاہے۔ وہ قوم جسے قائداعظم کو اپنا محسن ماننے میں تامل ہو وہ بھلا ایس کے دہلوی کو کیوں یاد رکھے؟ صد افسوس کہ میں نے آج تک کسی مضمون میں مرحوم کے اس بڑے احسان کا تذکرہ نہیں پڑھا۔ زوال پذیر قوموں کی ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے محسنوں کو بھلا دیتی ہیں۔ زندہ قوموں کیلئے اُن کے ہیرو ان کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتے ہیں۔ ہر سال ان کے دن منائے جاتے ہیں۔ سرکاری عمارتیں ان کے نام سے منسوب کی جاتی ہیں۔ اُن کے اعزاز میں ڈاک کے ٹکٹ جاری کئے جاتے ہیں۔ (جیسے اس سال ہمارے ہاں ناصر کاظمی اور شفیق الرحمن کی برسی پر محکمہ ڈاک نے یادگاری ٹکٹ شائع کر کے قابل تعریف روایت کو آگے بڑھایا)آج ایک نئی کتاب پڑھنے کا موقع ملا۔ تین مورخین نے مل کر جو کتاب تالیف اور مرتب کی ہے وہ برٹش آرمی کے جرنیلوں کے مضامین پر مشتمل ہے۔ سب جرنیلوں نے عراق اور افغانستان میں برٹش آرمی کی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے اسباب بیان کئے ہیں۔ہر جرنیل نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ہمیں اپنی صلاحیت، اہلیت اور خلوص نیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر جنگ میں اپنی کارکردگی کا ناقدانہ جائزہ لینا چاہئے اور اگر شکست ہو جائے تو اُس کی وجوہات کی نشان دہی کی جانی چاہیے۔ ہر جرنیل نے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کو مورد الزام ٹھہرایا کہ اُس نے برٹش آرمی کو جس بھی میدان جنگ میں دھکیلا وہ بری طرح ناکام رہی۔ یہ اعتراف ہمارے سیاسی اور قومی قائدین کے لئے مقام عبرت اور لمحہ فکریہ ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں