ناکام عاشقوں کی ویب سائیٹ

پچھلے ہفتہ اس کالم میں جغرافیائی طور پر میرے پڑوسی اور میرے خوابوں کے مسکن فرانس کی بات ہو رہی تھی۔ اب اُس کالم کا دُوسرا حصہ پڑھیں ۔ گزشتہ کالم میں تیسری خبر کا تعلق ایک نئی ویب سائٹ سے تھا جو عشق میں ناکام ہو جانے والوں کو اپنے جذباتی صدمے کا موثر علاج کرنے کی ترکیب بتاتی ہے۔ اسے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اگر آپ گرِ پڑیں تو کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑے ہوں، اگر آپ میں دُوسرے (اور زیادہ پائیدار) عشق میں مبتلا ہونے کی ہمت نہیں توواویلا اور آہ و بکا سے پرہیز کریں اور اپنے دل کو مزید آزردہ کرنے کی بجائے اسے نئی، مثبت، صحت بخش اور زندہ و تابندہ سرگرمیوں سے روشناس کرائیں۔ دل ناداں سے ہرگز نہ پوچھیں کہ تجھے ہوا کیا ہے؟ وہ تو پاگل ہے آپ کو کیا بتائے گا؟ دُوسری بڑی غلطی یہ ہوگی کہ آپ دلِ ناداں سے د ردکی دوا پوچھیں گے تو مریض محض مریض ہوتا ہے، وہ طبیب کس طرح بن سکتا ہے؟ 
آپ نے غور فرمایا ہوگا کہ غالب ؔکی اس غزل کے مطلعے کا دُوسرا شعر لفظ ''آخر‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔ اب اہل فرانس نے اس ''آخر‘‘ کا جواب ڈھونڈ کر اسے ایک نسخے کی شکل دے دی ہے جو بازار میں دھڑا دھڑ فروخت ہو رہا ہے۔ اس ویب سائٹ نے یہ راز بھی بتایا ہے کہ جب رُوٹھے ہوئے محبوبوں کو پتہ چلتا ہے کہ اُن کا سابق عاشق نہ اُن کی منت سماجت کرتا ہے اور نہ اُس کا دل پندارکا صنم کدہ ویراں کرکے کوئے ملامت کے طواف کا پروگرام بنا رہا ہے تو ان کی بڑی تعداد خود ہی رُجوع کرتی ہے اور کہتی ہے، جو اہل پنجاب یوں کہتے ہیں : ''اساں جان کے میٹ لئی اکھ وے،جھوٹی موٹی دا پالیاای ککھ وے، تے ساڈے ول تک سجناں‘‘ اور عاشقانہ تعلق خاطر کی گاڑی پھر اس طرح رواں دواں ہو جاتی ہے جیسے کبھی رُکی ہی نہ تھی۔ 
اس ویب سائٹ سے وابستہ ماہرین نفسیات 45 پائونڈ (آٹھ ہزار روپے) بطور ہدیہ وُصول کرتے ہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ ہزاروں لوگوںکو مفید اورکار آمد مشورے دینے والے شخص کا جب ایک خاتون سے دوستانہ رشتہ ختم ہوا تو اُس نے وہی نسخہ آزمایا جو وہ اپنے گاہوں کو فیس لے کر بتاتا ہے مگر خود ناکام رہا۔ سابق محبوب نے پلٹ کر نہ دیکھا۔ اس موقع پر مجھے پنجابی کی ایک ضرب المثل یاد آتی ہے کہ ملّاح کے حقے میں پانی نہیں ہوتا۔ اچھی خبر یہ ہے کہ ذاتی ناکامی ویب سائٹ شروع کرنے والے 35 سالہ نوجوان کی حیرت انگیز کاروباری کامیابیوں پر بالکل اثر انداز نہیں ہوئی۔ اہل فرانس کی اعلیٰ ظرفی ملاحظہ ہو ، اس کی ذرہ بھر پروا نہیں کی جاتی کہ جس نفسیاتی ڈاکٹر کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں وہ خود دردِ دل کا علاج نہیں جانتا اوراگر جانتا ہے تو اسے اپنی مثال دے کر موثر ثابت نہیں کر سکتا۔ 
عام لوگوں کا توکیا ذکر، فرانس کے صدر نے بھی اس ویب سائٹ سے استفادہ کرنے کے بعد کہا کہ اُنہیں بے حد افسوس ہے کہ ایک اتنی مفید ویب سائٹ جو ناصح، ہمدم اور ہم رازکا کردار ادا کرتی ہے، اگر ایک سال پہلے بن جاتی تو شاید وہ بھی اپنی سابقہ محبوبہ (جن کا نمبر پہلا نہیں بلکہ دُوسرا بنتا ہے) کو منانے میں کامیاب ہو جاتے۔ اب چڑیاں کھیت کو چُگ کر اُڑ چکی ہیں اور فرانس کے صدرکے پاس صرف پچھتاوا رہ گیا ہے۔ اب وہ صرف ایک کام کر سکتے ہیں کہ فارغ اوقات میں اُردو زبان سیکھیں ، میر تقی میر کا دیوان پڑھیں ، ٹھنڈی آہیں بھریں اور ہر رات اپنے اُجڑے ہوئے دِل کو یہی کہتے ہوئے آنکھیں موند لیں کہ وہ اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کر سو جائے۔ پھر بھی افاقہ نہ ہو تو اس بات کو نور جہاں کے ایک گائے ہوئے گیت کی صورت میں بار بار سنیں۔ 
دس اکتوبرکو یورپ اور برطانیہ کا شاید ہی کوئی ایسا معیاری اخبار ہو جس کا پہلا صفحہ ملالہ یوسف زئی کی کافی بڑی تصویر سے مزین نہ ہو۔ اخباروں نے اس بچی کی تعریف کرنے میں فیاضی کا مظاہرہ کیا ہے۔ خوشی کے اس موقع پر ہمیں پاکستان کی ایک اور بہادر بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ہرگز نہیں بھولنا چاہیے۔ اگر نوبل انعام دینے والی کمیٹی سیاسی جانبداری کے الزام کو غلط ثابت کرنا چاہتی ہے تو اُسے اگلے برس ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو نوبل انعام دینا چاہئے۔ پاکستان میں حقوق انسانی کی تنظیموں ،صحافیوں، وُکلا ء، صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ عافیہ کو اس اعزاز کے لیے نامزد کریں جو اسے رہائی دلانے میں بے حد معاون اور موثر ثابت ہوگا۔
اس سال امن کے انعام کی دُوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ملالہ کے علاوہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بے حد قابل احترام شخص کو ملا جس کی عمر علم کے چراغ روشن کرتے گزری۔ اہل سویڈن نے ہندو پاک کے رہنے والے دوافراد کو امن کا انعام دے کر دراصل یہ سبق دیا ہے کہ وہ امن کے ساتھ رہنا سیکھیں۔ پرُ امن بقائے باہم کے آداب سیکھیں۔ بھارت کی نئی حکومت کو یہ آداب سیکھنے میں یقیناکافی مشکل پیش آئے گی مگر وہ یاد رکھے نریندر مودی سے پہلے وزارت عظمیٰ کی کرسی پرکون کون بیٹھا؟ مرار جی ڈیسائی (جنہوں نے پاکستان پر حملہ کرنے سے انکار کر دیا تھا)، لال بہادر شاستری (جنہوں نے معاہدہ تاشقند پر دستخط کئے تھے)، اٹل بہاری واجپائی (جنہوں نے مینار پاکستان جا کر ہمارے ساتھ تجدید دوستی کا اعلان کیا تھا) ،اندر کمارگجرال (جو جہلم کے رہنے والے تھے)، وشنوا ناتھ پرتاب سنگھ (جو ہمیشہ مسلمانوں کی ٹوپی اوڑھے نستعلیق اُردو بولتے تھے اور اسی وجہ سے ہندو مہاسبھائیوں کو ایک آنکھ نہ بھاتے تھے)۔وزارت عظمیٰ کی کلیدی اہمیت اپنی جگہ مگر بھارت کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ڈاکٹر رادھا کرشنن اور ڈاکٹر ذاکر حسین جیسے دانشور اس کے صدر مملکت رہ چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ نریندر مودی اس ورثے کی حفاظت کرتے ہیں، اس میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں یا اسے نیست و نابود کردیتے ہیں؟ 
آیئے فرانس واپس چلیں جس کے ناول نگار Patrick Modiano کو اس سال کا ادب کا نوبل انعام دیا گیا ہے۔ اُن کی عمر 69 برس ہے۔ پہلے اُن کے پندرہ ہم وطن یہ انعام حاصل کر چکے ہیں۔ ان بڑے ادیبوں میںamus Andre Gideبھی شامل ہیں۔ ژاں پال سارترکو یہ انعام دیا گیا مگر اُنہوں نے اسے دو بنیادوں پر قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اول: ادبی تخلیقات کا انعام وُصول کرنے سے کوئی تعلق بنتا ہے نہ ہوناچاہئے۔ دوم : اُن سے اچھے ادیبوں کو نظر اندازکر کے ناانصافی کی گئی اس لیے وہ بطور احتجاج انعام نہ لیں گے۔ ادب کا انعام کسی فرانسیسی خاتون کونہیں ملا مگر یہ اعزاز فرانس کی سائنس دان خاتون مادام کیوری کو حاصل ہے۔ فرانسیسی اخباروں نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ ناول نگار ہمارے عہد کے Marcel Proust ہیں جنہوں نے 1922ء اور 1932ء کے درمیان دس سال صرف کر کے بھولی بسری یادوں کی باز گشت کے عنوان سے سات جلدوں میں ناول لکھا۔ Mandianoکی مادری زبان فرانسیسی نہیں بلکہ Flemish ہے۔ ان کے دادا دادی نے اُنہیں ان کی مادری زبان پڑھائی (کاش اہل پنجاب اپنے بچوں کو مادری زبان پنجابی سیکھنے سے محروم رکھنے کا ظلم نہ کریں)۔
1978ء میں اُن کا جو ناول مشہور ہوا اُس کا نام ہے''گم شدہ شخص‘‘ ، اس ناول کا مرکزی کردار ایک ایسا جاسوس ہے جو مجرم کو پکڑتے پکڑتے اپنی یادداشت کھو بیٹھتا ہے اور مجرم کو چھوڑ کر اپنی شناخت دریافت کرنے میں محو ہو جاتا ہے۔ دُنیا میں شاید ہی کسی حکمران پر اتنی کتابیں لکھی گئی ہوں جتنی مختلف زبانوں میں نپولین پر (ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی لائبریری میں نپولین پر انگریزی زبان میںلکھی جانے والی ہر کتاب تھی)۔ فرانس کا سب سے بڑا ہیرو 1761ء میں ایک اطالوی جزیرہ Corsica میں پیدا ہوا۔ایک فرانسیسی بادشاہ Louis XV نے یہ جزیرہ اٹلی سے خریدا تو نپولین کو فرانسیسی شہری بن جانے کا موقع ملا۔ میں نپولین کے تذکرہ اس جگہ ختم کردُوں تو مناسب ہوگا چونکہ کالم اور کتاب لکھنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں