ہاں‘ ہم کر سکتے ہیں!

یہ ترجمہ ہے ایک ایسے نعرے Yes, We can کا‘ جو صرف تین الفاظ پر مشتمل ہے۔ مگر اس نعرے کی تاریخ اُتنی ہی لمبی‘ اُتنی ہی ولولہ انگیزاور اُتنی ہی سبق آمیز ‘ جتنی انسانی جدوجہد کی۔ اسے ہزاروں سال پہلےSpartacus کی زیر قیادت بغاوت کرنے والے غلاموں نے بلند کیا۔ ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی بات ہے جب سرزمین حجاز کے صحرائوں میں بھی اسے سنا گیا۔ بیسویں صدی شروع ہوئی تو اس کی باز گشت‘ انقلاب روس کی صورت میں انسانی تاریخ کا حصہ بنی۔ بیسویں صدی کے پہلے نصف میں‘ چین کیوبا اور پھر ویت نام میں اور گزشتہ صدی کے آخری حصہ میں انقلاب اِیران کی صورت میں۔ موجودہ صدی میں کمزور‘ لاچار‘ بے بس اور بے آواز عوام کے ہاتھوں طاقتور اور مراعات یافتہ طبقوں کے تخت گرانے اور تاج اُچھالنے کا سلسلہ جاری رہا۔ بقول غالبؔ شوق کی سرو ساماں سے رقابت کا قصہ بہت پرُانا ہے ۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی (بقول اقبال) بندے اپنے آقائوں کے اقتدار اور مافیا کے تسلط کے قطار اندر قطار خیموں کی طنابیں کاٹنے کے لئے میدانِ جنگ میں اُترتے ہیں تو وہ ایک دُوسرے کا حوصلہ بڑھانے کے لئے ایک ہی نعرہ بلند کرتے ہیں: ہاں‘ ہم کر سکتے ہیں! ( Yes, We can) موجودہ صدی میں اس نعرہ کی گونج مشرقِ وُسطیٰ کے کئی ممالک میں سنائی دی۔ ''بہارِ عرب‘‘ کا یہی رِجز تھا۔تونس اور مصر میں آنے والے عوامی انقلاب رُونما ہوئے۔ صد افسوس کہ مصر میں ردّ انقلاب نے تبدیلی کی کھلنے والی نئی اور مبارک کلیوں کو فوجی بوٹوں تلے مسل ڈالا۔ لینن کے الفاظ میں ایک قدم آگے‘ دو قدم پیچھے‘صرف سو سال پہلے یونان میں نوجوانوں‘ عوام دوستوں اور چہروں کی بجائے نظام تبدیل کرنے والوں نے خون کی گردش تیز کرنے والا نعرہ لگایا: ہاں‘ ہم کر سکتے ہیں! اہل یونان نے یہ کر دکھایا اور سپین کو انقلاب کی دہلیز پر لاکھڑا کیا۔ 
یہ تو تھا باقی یورپ کا منظر نامہ۔ برطانیہ کے بارے میں سب تجزیہ نگاروں کی یہ متفقہ رائے صدیوں سے درست تسلیم کی جاتی رہی ہے کہ یہاں بڑے معتدل مزاج لوگ رہتے ہیں۔ بڑے غیر جذباتی‘ زندہ باد مُردہ باد کے نعرے یہاں آج تک نہیں سنے گئے۔ مزاج کے اعتبار سے روایت پسند اور کسی نہ کسی حد تک قدامت پسند۔ سیاسی طو رپر نہ زیادہ دائیں نہ زیادہ بائیں۔ کنزرویٹو (قدامت پسند ) پارٹی کی باری آئے تو مرکز سے ذرادائیں ہاتھ(Right of Centre) لیبر پارٹی کی باری آئے تو مرکز سے ذرا بائیں ہاتھ (Left of Centre )مگر آبادی کی اکثریت اور اُن کی ترجمانی کرنے والی سیاسی جماعتیں ہمیشہ وسط میں کھینچی جانے والی لکیر پر چلتی ہیں۔ پاکستان میں بھٹو مرحوم کی پیپلز پارٹی Left of Centre تھی اور اُن کے مقابلہ میں جو مسلم لیگ اُبھری وُہ Right of Centre ہے۔ پاکستان کی باقی تمام بڑی سیاسی جماعتیں نظریاتی اعتبار سے نہ دائیں بازو کی ہیں اور نہ بائیں کی‘ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ‘ فرانس جرمنی اور یورپ کے دُوسرے ممالک کی طرح وہاں(پاکستان) بھی سیاست کی گاڑی بخیر و عافیت وسط میں چلتی رہتی ہے اور کوئی قابل ذِکر تبدیلی نہیں آتی۔ 
انگریز قانون کا احترام کرنے کے معاملہ میں اتنے ''بدنام‘‘ ہیں کہ چاہے کتنے بڑے انقلابی بن جائیں‘ قانون شکنی کا تصور نہیں کر سکتے۔ ایک لطیفہ سنئے‘ جو میرے موقف کی بہترین وضاحت ہے۔ کارل مارکس پر یورپ کی سرزمین تنگ ہو گئی تو وہ برطانیہ میں آباد ہو گیا۔ غالباً پہلا (اور سو فیصدی سچا) سیاسی پناہ گزین بن کر ۔مارکس نے کان کنوں اور ریلوے مزدُوروں کے طبقاتی شعور کو بلند کرنے اور اُن کی تاریخ میں پہلی ٹریڈ یونین بنانے پر سب سے زیادہ توجہ دی۔ جب مارکس نے دیکھاکہ ریلوے مزدُور اب منظم ہو چکے ہیں تو اُنہیں اُجرتوں میں اضافہ کا مطالبہ منوانے کے لئے ہڑتال کا راستہ دکھایا۔ ہڑتالیوں کو یہ پٹی بھی پڑھائی گئی کہ اُنہوں نے ریلوے سٹیشنوں کے اندر داخل ہو کر اُن پر قبضہ کر کے ریلوے نظام کو غیر فعال بنا دینا ہے۔ آخر ہڑتال‘ مظاہرے اور سٹیشنوں پر قبضے کا دن آپہنچا۔ مارکس سے اپنے گھر میں بیٹھا نہ جاتا تھا‘ اُس نے بے تابی کے عالم میں سارا دن گھر میں چل پھر کر گزارا۔ شام ہوئی تو دروازے پر دستک کی آواز سن کر وہ بھاگ کر گیا۔ دروازہ کھولا اور ہڑتالیوں کے قائدین کو اندر بلایا تاکہ زیادہ تیزی سے دھڑکتے ہوئے دل سے ان کے تاریخی احتجاج کی رُوداد سن سکے۔ مارکس نے پوچھا کہ جب آپ لوگوں نے ریلوے سٹیشن کی اندر گھس کر پٹڑی پر گاڑیوں کی آمد و رفت روک دی تو پھر ریلوے مالکان نے کیا کیا؟ نظریں چراتے ہوئے‘ شرمندہ آواز میں مزدُور رہنمائوں نے جواب دیا۔ ''ہم قبضہ کرنے ہی والے تھے کہ ہمیں پتہ چلا کہ سٹیشن کے اندر جانے کے لئے پلیٹ فارم ٹکٹ خریدنا ضروری تھا اور افسوس کہ ہمارے پاس ٹکٹ خریدنے کے لئے رقم نہ تھی اس لئے ہم سارا دن باہر ہی کھڑے رہے۔‘‘ یہ سن کر مارکس کا ضبط جواب دے گیا۔ وُہ پائوں پٹختا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا۔ اپنے مہمانوں کو گھر سے یہ کہہ کر باہر نکال دیا کہ میرا شک اب یقین میں بدل گیا ہے کہ برطانیہ جیسے معتدل مزاج ملک میں کبھی انقلاب نہیں آسکتا۔
لندن کے شمالی محلہ High Gate میں کارل مارکس کی قبر ہے۔ اس قبر کی زیارت کرنے والے‘ کتبہ پر کندہ یہ الفاظ پڑھتے ہیں۔ ''فلاسفروں کا کام دُنیا میں رُونما ہونے والے واقعات کی تشریح کرنا ہے‘ تجزیہ کرنا ہے‘ تبصرہ کرنا ہے مگر اصل کام نہ تشریح ہے نہ تجزیہ اور نہ تبصرہ بلکہ عملی جدوجہد سے تبدیلی لانا ہے۔‘‘ بقول اقبالؔ ''عصا نہ ہوتوکلیمی ہے کار بے بنیاد۔‘‘رّب ذوالجلال کے سچے اور سب سے بڑے اور آخری پیغمبر کو بھی جنگ بدر لڑنا پڑی۔ صرف ایک جنگ نہیں بلکہ غزوات کا سلسلہ جو آخری دم تک جاری رہا۔ خود اپنے گھر کی مثال دیکھئے۔ قائداعظمؒ سے بڑھ کر کون اُصول پسند اور قانون کا احترام کرنے والا ہو سکتا تھا؟ اسمبلی میں تقریروں اور جلسوں میں قراردادوں کی منظوری سے جو بات چلی اُس کی منطقی تان راست اقدام Direct Action پر ٹوٹی۔ گلی گلی‘ کوچہ کوچہ اور شہر شہر ہونے والے عوامی مظاہرے اور جلوس‘ جن میں اس کالم نگار کو دس برس کی عمر میں شریک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ تبدیلی کا ہر راستہ تحریر سکوائر (میدان التحریر قاہرہ)سے گزرتا ہے۔ ہمارے ہاں مینار پاکستان ‘ لندن میں ٹریفالگر سکوائراور واشنگٹن کی وہ بڑی شاہراہ‘ جس پر سیاہ فاموں کے تاریخی مظاہروں کے قائد مارٹن لوتھر کنگ نے ہمیں اپنا وہ خواب سنایا تھا‘ جو ہم پاکستان میں بھی دیکھتے ہیں اور وہ جب تک پورا نہیں ہو جاتا‘ دیکھتے چلے جائیں گے۔ ‘‘
اس کالم کے ذہین قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ برطانیہ کے حالیہ انتخابات میں خلاف توقع لیبر پارٹی ہار گئی۔ وجہ یہ تھی کہ اُس کی پالیسی حکمران ٹوری (کنزرویٹو یعنی قدامت پسند) پارٹی سے بڑی حد تک ملتی جلتی تھی۔ عوام نے اچھا فیصلہ کیا کہ ہم نقلی قدامت پسندوں کی بجائے اصلی قدامت پسندوں کو کیوں نہ ووٹ دیں؟ انتخابات میں شکست کے بعد لیبر پارٹی کے لیڈر نے انتخابات کے نتائج کی سیاہی اور شکست کے عرقِ ندامت کے خشک ہونے سے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا۔ اب پارٹی میں بڑی گہما گہمی ہے‘ چارسُو ہلچل مچی ہوئی ہے‘ ہنگامے کا سماں ہے‘ چار اُمیدوار میدان میں ہیں۔ انتخابی مہم شروع ہوئی تو جو اُمیدوار سب سے آخر میں تھا‘ وہ دو ہفتوں کے اندر سب سے آگے نکل گیا‘ اپنی عوام دوست پالیسی کی وجہ سے۔ نام ہے Jeremy Corbyn (جرمی کاربائین) بیس سالوں سے برطانوی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں دارالعوام کے رُکن ہیں‘ مگر Back Bencher ۔ بائیں بازو کے عوام دوست‘ روشن دماغ‘ سرمایہ داری نظام کے مخالف‘ سماجی انصاف اور عالمی امن کے حامی۔ پندرہ سال پہلے میں کراچی میں ہونے والے ورلڈسوشل فورم کی سہ روزہ تقریبات میں شریک ہونے آیا تو مجھے اُن کی رفاقت کا اعزاز حاصل ہوا۔ اُس سال عراق پر برطانوی اور امریکی افواج کے حملہ کے خلاف دس لاکھ لوگوں نے جو تاریخی احتجاجی مظاہرہ کیا‘ اُس کے منتظمین کی قیادت موصوف نے کی۔ ساری عمر ضمیر کی آواز سنی‘ اعلیٰ اخلاقی قدروں کی پاسداری کی‘ حق گوئی اور بے باکی کی زندہ مثال‘ بے داغ کردار (جو شاید ہی کسی اور سیاست دان کے بارے میں کہاجا سکے)۔ اسرائیل کے دُشمن‘ حماس اور حزب اللہ کے دوست‘ برطانوی محنت کشوں کے مفادات کے نگہبان۔ میں بھی اُنہیں لیبر پارٹی کا لیڈر بنوانے کی ملک گیر مہم کا بطور عام کارکن ہوں۔ میری پوری کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ لیبر پارٹی کا رُکن بن کر اُنہیں ایک ووٹ دے سکوں‘تاکہ ہم بہت اچھے شخص کو اپنی پارٹی کی قیادت کی ذمہ داری سونپ سکیں۔ !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں