کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں (2)

ہم آج بطور قوم جہاں کھڑے ہیں (یا گرے پڑے ہیں) وہاں تک پہنچنے کے لئے ہمیں 68 سال لگے۔ تنزل اور انحطاط کی اس منزل کے حصول کے لئے ہمیں دن رات محنت کرنا پڑی۔ نہ بہار ایک دن میں خزاں میں تبدیل ہوتی ہے‘ نہ ایک عظیم الشان عمارت پل بھر میں آثارِ قدیمہ بنتی ہے۔ نہ کوئی شخص پلک جھپکنے میں جوان ہوتا ہے اور نہ یہ ہوتا ہے کہ آپ سو کر اُٹھیں تو پتہ چلے کہ بڑھاپا آ گیا ہے۔ یہی حال بدلتی رُتوں کا ہے۔ اسی فارمولے کا زندگی کے ہر شعبہ پر اطلاق ہوتا ہے۔ قومیں بھی اسی طرح بنتی بگڑتی ہیں۔ بات سیدھی سادی ہے۔ زیادہ مثالیں دے کر اسے واضح کرنے کی کوشش اس کالم کو پڑھنے والوں کی ذہانت کی توہین ہو گی۔ وُہی قارئین جو اِس کالم نگار کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ ایک ایسا سرمایہ جس کی قدر و قیمت روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔ کالم کی پہلی سطر لکھنے سے پہلے میں اپنے تمام قارئین کو (وہ جہاں بھی ہوں) سلام کرتا ہوں۔ آخری سطر لکھ لوں تو اُن کی سلامتی‘ خیر خیریت‘ خوشی اور خوشحالی کی دُعا مانگتا ہوں۔ نہ جانتے ہوئے کہ وہ کس حال میں ہیں؟ 
آپ نے ملاحظہ فرمایا ہو گا کہ آج کے کالم کا وُہی عنوان ہے جو پچھلے ہفتے کے کالم کا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس کے آگے نمبر دو لکھا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ گزشتہ سے پیوستہ۔ جب تک وہ دن نہیں آجاتا کہ یہ کالم نگار داستان سناتے سناتے خود سو جائے‘ میرے قارئین میری لکھی ہوئی بے لاگ‘ کھری باتیں توجہ اور دلچسپی سے بدستور پڑھتے جائیں تو رب ذوالجلال اس کالم نگار کا زور قلم اور بڑھائیں یا نہ بڑھائیں (جس کا زیادہ امکان ہے) اُسے آپ کو اپنا حال دِل سنانے کی غیر پیشہ ورانہ صلاحیت سے محروم نہ کریں تو یہ اتنی بڑی عنایت ہو گی کہ اس کا لاکھوں کروڑوں بار شکر ادا کروں تو کم ہو گا۔ 
ذرا اپنے ہاں کے جمود کا اہل مغرب کی ہر میدان میں حرکت سے موازنہ کریں۔ مجھے اپنے قارئین کو یہ بتانے کے لئے کہ ایک سال میں اہلِ مغرب نے کون سی نئی ایجادات کیں؟ دریافت کے میدان میں کون سے کارنامے سرانجام دیے؟ کون کون سے نئے نظریات اور تصورات کو طویل غور و خوض اور تحقیق و تجزیہ سے تراشا گیا؟ تو مجھے ایک سال میں 52 کالم لکھنے کی بجائے 52 کتابیں احاطۂ تحریر میں لا کر آپ کی خدمت میں پیش کرنا پڑیں گی۔ ظاہر ہے کہ نہ میں اس بڑے پیمانہ پر لکھ سکتا ہوں اور نہ اس ملک کے لوگ ہر ہفتہ ایک نئی کتاب پڑھنے کی ہمت اور ذوق و شوق رکھتے ہیں‘ جہاں آج بھی کتابیں عام طور پر (1950-55ء کی طرح ) ایک ہزار کی تعداد میں چھپتی ہیں۔ دائود راہبر‘ مختار مسعود‘ انتظار حسین‘ عبداللہ حسین‘ واصف علی واصف‘ رفیق اختر اور اس پایہ کے دُوسرے بڑے مصنفین کی سال بھر میں پانچ ہزار کتابیں فروخت ہو جائیں تو چار دانگ عالم (اس سے مُراد وطن عزیز کا حدود اربعہ ہے) میں اتنی دھوم مچ جاتی ہے کہ اُس کی بازگشت مجھے چھ ہزار میل کے فاصلہ پر سنائی دیتی ہے۔ اتنے پہاڑ‘ اتنے سمندر‘ اتنے صحرا‘ فاصلہ بھی اتنا زیادہ مگر آپ نے اپنی سماعت کو اس طرح مرکوز کیا ہو کہ آپ ہمہ تن گوش بن جائیں تو پھر آپ کو وطن عزیز کی ہر خبر مل جاتی ہے۔ یہ الگ بات کہ کبھی کبھی اپنے دل کی دھڑکن پر آہٹ کا گمان ہوتا ہے۔ اُمید اور خوف‘ حقیقت اور خواب‘ خوش فہمی اور غلط فہمی‘ رجائیت اور مایوسی‘ منظر اور سراب‘ روشنی اور سایہ۔ ہر شخص کی زندگی انہی کیفیات کے درمیان گزر جاتی ہے۔ پاکستان کی 68 سالہ تاریخ بھی انہی متضاد کیفیات سے مرتب ہوئی ہے۔
پچھلے دنوں امریکہ میں ایک ایسی برطانوی نژاد خاتون مصنفہ اس جہان فانی سے رخصت ہو گئیں‘ جو عمر کے اعتبار سے میری ہم عمر تھیں مگر پے در پے چہرہ اور جسم کے دُوسرے کئی حصوں کے آپریشن کروا کر اپنی طبعی عمر سے نصف (زیادہ سے زیادہ) نظر آتی تھیں‘ اور اس وجہ سے بھی بے مثال شہرت کی مالکہ تھیں۔ (جسمانی خوبصورتی بڑھانے کے لئے کئے جانے والے عمل جراحی کو Cosmetic Surgery کہتے ہیں) موصوفہ کا نام Jacky Collins تھا۔ اُنہوں نے درجنوں ناول لکھے۔ ایک سے ایک گھٹیا۔ بے ذوق اور فحش مگرآپ اپنا سانس روک لیں چونکہ میں آپ کو یہ بتانے لگا ہوں کہ اُن کے فروخت ہونے والے ناولوں کی تعداد چند ہزار یا چند لاکھ نہیں بلکہ 500 ملین (یعنی پچاس کروڑ) تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مصنفہ کا نام ارب پتی لوگوں کی فہرست میں کافی اُوپر لکھا جاتا ہے۔ اُن کی کتابوں کا موضوع بھی ارب پتی لوگوں کی ذاتی اور جنسی زندگی ہوتا تھا۔ قابل ذکر بات یہ نہیں کہ اُن کے ناولوں کا معیار ناقابل یقین حد تک پست تھا اور مندرجات بدبودار‘ میں آپ کی توجہ اس نکتہ کی طرف دلانا چاہتا ہوں کہ دیارِ مغرب‘ جہاں فحش فلمیں اتنی آسانی سے دیکھی جا سکتی ہیں جس طرح چائے پینا یا چاکلیٹ خریدنا‘ وہاں ایک خاتون کے فروخت ہونے والے فحش ناولوں کی کل تعداد پچاس کروڑ بنتی ہے۔ دُوسرے الفاظ میں 50 کروڑ کتابیں پڑھنے والے لوگ۔ ظاہر ہے کہ اُن کے علاوہ اور بھی آبلہ پا ہوں گے‘ جو اس خار زار میں اس سج دھج سے نکلے کہ کانٹوں کی پیاس بجھ گئی۔ 
شاعر مشرق و مغرب اقبالؔ نے اپنی زندگی کے بہترین سال برطانیہ اور جرمنی میں گزارے۔ انہوں نے وہاں سے بہت کچھ سیکھا اور ہمیں سکھایا۔ اقبال نے مغربی تہذیب پر سیر حاصل تبصرہ کرتے ہوئے کوزہ میں دریا بند کر دیا۔ ع
چہرہ روشن‘ اندروں چنگیز سے تاریک تر
اب آئیے ہم اپنے آپ کو دیکھیں۔ ہم زندہ باد اور مرُدہ باد کے نعرے لگانے والی قوم ہیں۔ ہر لحاظ سے انتہا اور شدت پسند۔ اعتدال اور میانہ روی (جو اسلام کی اصل رُوح ہیں) کا ہماری سوچ اور افعال سے دُور کا واسطہ نہیں۔ ہمارے ملک کے بالائی متوسط اور امیر طبقہ (انگریزی بولنے اور انگریزی میں سوچنے والے) کو صرف مغرب کا روشن چہرہ نظر آتا ہے۔ مغرب کی چمک دمک سے اُن کی آنکھیں چندھیائی ہوئی ہیں (یہ کمال صرف اقبال جیسے بڑے لوگوں کا تھا جن کو دانشِ فرنگ خیرہ نہ کر سکی) دُوسری طرف روایتی مذہبی رجحان رکھنے والے کروڑوں لوگ ہیں‘ جن کو یورپ کی اندرونی (اور بیرونی) چنگیزی صفات کے علاوہ اور کوئی ایک بھی خوبی نظر نہیں آتی۔ امریکہ‘ یورپ نے ایک طرف کارل مارکس‘ روزا لکسمبرگ (میں آپ کو بھی اس عظیم خاتون سے متعارف کرانے کا ارادہ رکھتا ہوں) برٹرینڈ رسل‘ ابراہام لنکن‘ جولیان اسانج ماننگ‘ نوم چومسکی اور اس طرح کے درجنوں نہیں سینکڑوں ہزاروں عوام دوست اور روشن دماغ افراد کو جنم دیا تو دوسری جانب ہٹلر‘ مسولینی‘ فرانکو‘ سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور سابق امریکی صدر بُش (ایک سمجھدار صدر بُش کا ناہنجاز بیٹا) جیسے چنگیزی صفات کے مالک بھی اس کی پیداوار ہیں۔ 
یورپ کے تخلیقی ذہن کے صرف زبردست کارنامے کے تذکرہ پر پچھلے ہفتہ کا کالم ختم کیا گیا تھا۔ یہ کالم چار مثالوں کے مختصر تذکرہ پر ختم کیا جائے گا۔ (اول) برطانیہ کے مضافات میں رہنے والے لوگوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے اپنے قصبہ اور شہر کے ریلوے سٹیشن کے گرد و نواح میں غیر آباد زمین پر پھول دار درخت اُگانے کی مہم شروع کر دی ہے۔ چند برسوں میں وہاں کا ماحولیاتی حُلیہ بدل جائے گا۔ بے آب و گیاہ زمین پر پُھول کھل آئیں گے تو پھر وہاں آنے والی رُتوں میں پرندوں کے گھونسلے بنیں گے اور تتلیاں بھی اپنے خوبصورت پروں کو پھڑپھڑاتی نظر آئیں گی۔ خوش الحان پرندوں کے گانے کی آواز ریلوے سٹیشن سے آنے والے شور پر غالب تو نہیں آ سکتی مگر وہ اسے زیادہ قابل برداشت تو بنا سکتی ہے۔ (دوم) کشش ثقل سے بجلی پیدا کرنے کی مشین بنا لی گئی ہے‘ جو (تیسری) دُنیا کے ممالک میں غریب عوام کے کام آئے گی‘ جس کا مطلب کمر توڑ بل آئیں گے اور نہ لوڈ شیڈنگ ہو گی۔ (سوم) جو لوگ بڑے حادثہ کا شکار ہو کر مفلوج ہو جاتے ہیں‘ دماغی آپریشن کے ماہرین اُن کے دفاع میں Rt. Wiring کر کے (یعنی بجلی کے مستری کی طرح تاروں کی ترتیب نو سے) اُس شخص کو پھر پہلے کی طرح نقل و حرکت کے قابل بنا دیں گے۔ (چہارم) سعودی عرب میں حرم شریف کے قریب کرین گر گئی۔ بھگدڑ میں ہزار سے زیادہ لوگ کچلے گئے۔ نہ کسی بڑے افسر نے استعفیٰ دیا، نہ کسی کو ذمہ دار ٹھہرا گیا‘ نہ کسی کو مجرمانہ غفلت کی سزا ملی‘نہ ملے گی۔ کوئی عجب نہیں کہ انسانی غفلت سے ہونے والے اتنے خوفناک حادثوں کو مشیت ایزدی ٹھہرایا جائے۔ دُوسری طرف امریکہ کو دیکھیں جہاں ڈیزل کاروں سے نکلنے والی زہریلی گیس کے سیکنڈل پر جو زلزلہ آیا ہے وہ پورے عالم اسلام اور خصوصاً ہمارے لئے باعث صد تقلید ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں