کبھی پانی پینے پلانے پہ جھگڑا

جب مولانا حالیؔ اپنی شہرہ آفاق 'مسدس حالی‘ میں قبل از اسلام کے عربوں کے باہمی تنازعات سے بھرپور زندگی کا نقشہ کھینچ رہے تھے تو اُنہوں نے دو مثالیں دیں: کبھی پانی پینے پلانے پہ جھگڑا۔ کبھی گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا۔ مولانا حالیؔ کو اس حقیقت کا ہرگز علم نہ ہوگا کہ آنے والے وقتوں میں پانی سے جڑے ہوئے جھگڑے اتنا طول پکڑیں گے کہ قبل از اسلام کے عربوں کے ذاتی جھگڑے بالکل ماند پڑ جائیں گے اور بچوں کا کھیل لگیں گے۔ پیچیدگی یوں پیدا ہوئی کہ دریائوں کو دست ِقدرت نے لاکھوں کروڑوں سال پہلے بنایا تو انسانوں نے پچھلی چند صدیوں میں خدا کی زمین پر اپنے اپنے ملک کی لکیریں کھینچیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جو دریا نکلتے کسی ایک ملک سے ہیں وہ کئی ممالک میں بہتے بہتے کسی اور ملک کے سمندر میں جا گرتے ہیں۔ مثال کے طور پر یورپ میں Danube دریا (آٹھ ممالک میں سے گزرتا ہے۔) مشرق وسطیٰ میں دجلہ اور فرات اور دریائے اُردن، برصغیر کے مشرق میں گنگا اور برہم پترا اور مغرب میں دریائے سندھ (اور اس کے پانچ معاون دریا جن کی وجہ سے پنجاب کا لفظ معرض وجود میں آیا۔) جنوب مشرقی ایشیا میںMekong جو جنوبی چین کے پہاڑوں سے شروع ہو کر لائوس (کمبوڈیا) سے گزرتا ہوا ویت نام کے ساحلوں تک کا سفرکرتا ہے۔
دریائوں کے پانی کے استعمال کے لئے وہ تمام ممالک جن سے کوئی دریا گزرتا ہے،آپس میں دوستانہ معاہدہ کر لیتے ہیں جسے قانونی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ 1960ء میں دُنیا کی تاریخ میں پہلی بار یوں ہوا کہ پاکستان کے ایک فوجی آمرِ مطلق نے چھ میں سے تین دریا پڑوسی ملک بھارت کے ہاتھ فروخت کر دیے۔ ہوائوں کی طرح آبی ذخائر بھی برائے فروخت نہیں ہوتے، لیکن امریکی پٹھو اور امریکی خیرات کے طلب گار آمر نے (جسے میں جان بوجھ کر عیوب خان لکھتا ہوں) قومی مفاد پر اپنے امریکی آقائوں کی خوشنودی کو ترجیح دی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کی ایک کمزور سیاسی حکومت نے گوادر کو سلطنت عمان سے خرید کر پاکستان کے رقبہ میں اضافہ کیا جبکہ عیوب خان جیسے مردآہن نے نہ صرف ہمارے تین دریا بھارت کے ہاتھ بیچ ڈالے بلکہ اُسے ہمارے تین مغربی دریائوں پر ڈیم بنانے اور پن بجلی کے کارخانے لگانے کا حق بھی دے دیا۔ صرف یہی نہیں، چین کوکشمیر کا ایک حصہ (حالانکہ سارے کا سارا کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے) اور شاہ ایران کو خوش کرنے کے لئے بلوچستان کا ایک حصہ دے دیا۔ ہمیں آج تک یہ نہیں بتایا گیا کہ سیاسی اقتدار پر ناجائز اور غیر قانونی قبضہ کرنے والے آمرِ مطلق کو پاکستان کا رقبہ کم کرنے کا اختیار کس نے اور کیونکر دیا؟ کیا یہ تھا اُس حلف کا احترام جو اُس نے پاکستان کا فوجی افسر بنتے وقت اُٹھایا تھا؟ اُس وقت کی ہماری سپریم کورٹ کیوں اپنی آنکھیں موندے سوئی رہی؟ اُس نے آمر مطلق کا ہاتھ کیوں نہیں روکا؟ کیا یہ تھا اُس حلف کا احترام جو سپریم کا جج عہدہ سنبھالنے سے پہلے اُٹھاتا ہے؟ گیارہ بارہ سال کے اندر ہم کس تیزی سے زوال پذیر ہوئے۔ آپ اس کا اندازہ صرف ایک واقعہ سے لگا لیں۔ 
پاکستان بن رہا تھا تو قائداعظم ہماری پہلی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں تشریف لائے، اُنہوں نے گورنر جنرل کے عہدے کا حلف اُٹھانا تھا۔ جونہی وہ ایک کرسی پر بیٹھے،
اُس وقت کے چیف جسٹس (سر عبدالرشید) نے اُنہیں بڑے ادب کے ساتھ وہاں سے یہ کہہ کر اُٹھا دیا کہ آپ اس کرسی پر تب بیٹھیں گے جب آپ اپنے عہدہ کا حلف اُٹھا چکے ہوں گے۔ آپ ابھی اس پر نہیں بیٹھ سکتے۔ قائداعظم فوراً اُٹھے، معذرت کی، حلف اُٹھایا اور پھر وہاں بیٹھے جہاں سے چند منٹ پہلے اُٹھائے گئے تھے۔ یہ ہوتا ہے قانون اور ضابطہ کا احترام۔ گھر ہو، کوئی ادارہ یا مملکت وہ صرف ضابطہ کی پابندی سے ہی بخوبی چلائی جا سکتی ہے۔ من مانی کرنے، قانون شکنی کرنے اور ضابطہ کو پامال کرنے کا جو بے حد برُا نتیجہ نکلتا ہے وہ آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ ہم نے 68 برسوں میں جو فصل بوئی اب اُسے کاٹ رہے ہیں اور بڑے عذاب میں ہیں اور وہ بھی یوں کہ نہ بھاگ سکتے ہیں اور نہ ٹھہر سکتے ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ لاقانونیت نے ہمارے پائوں برُی طرح زخمی کر دیے ہیں۔
اس کالم نگار کو پاکستان کے بھارت سے آبی تنازعات پر قانونی لیکچر دینے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر ضرورت ہو بھی تو یہ کالم اس کے لئے غیر مناسب اور ناکافی ہے۔ میں نے اس موضوع پر شب و روز محنت کر کے چھان بین کی تو بڑے چونکا دینے والے انکشافات ہوئے۔ 1959ء اور1960ء میں (سندھ طاس معاہدہ پر دستخط کئے جانے سے قبل) پاکستان کے افسران کا جو وفد واشنگٹن گیا اُس کی سربراہی جو بڑے سرکاری افسر کر رہے تھے اُن کا زیادہ وقت اپنی امریکی سیکرٹری کے ساتھ سیر و تفریح اور (اُس خاتون کی خوشنودی کی خاطر کی جانے والی) خریداری میں گزرا (غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق ان کی یہی سیکرٹری آگے چل کر ان کی دُوسری بیوی بنی۔) یہاں سے تو بسم اللہ ہوئی۔ قوم فروخت کرنے کا عمل شروع ہو گیا۔ وقت گزرنے کی ساتھ ساتھ متاعِ غرور کا سودا کرنے والے ہمارا نرخ کم کرتے چلے گئے۔۔۔۔کوئی ارزانی سی ارزانی! نوبت یہاں تک پہنچی کہ امریکی فوج نے بلا وجہ، بلا جواز اور بلا اشتعال ہماری افغان سرحد کے بہادر محافظوں کی بڑی تعداد کو مشین گن فائر سے شہید کر دیا اور پاکستان کے عسکری قلب کے بالکل پاس ایبٹ آباد پر شبخون مارا اور اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کا ڈرامہ رچایا۔ کہاں تھا ہمارا سپہ سالار؟ اب اُس کے دو بھائیوں پر اربوں روپے کی لوٹ مار کے الزامات لگ رہے ہیں تو وہ خاموش ہے۔ کیوں خاموش ہے؟ ثبوت کا معاملہ ہے تو میں روم کے حکمران جولیس سیزر کا حوالہ دوں گا۔ جولیس سیزر کی بیوی پر بداخلاقی کا الزام لگا تو اُسے الزام ثابت نہ ہونے کے باوجود سخت ترین سزا دی گئی، اس فارمولاکے تحت کہ Caesar's wife must be above suspicion (سیزر کی بیوی کو اتنا پاک دامن ہونا چاہئے کہ اُس پر الزام بھی نہ لگایا جا سکے۔) یہ ہوتے ہیں حکمرانی کے آداب! اس عہد میں ہم اپنے تنزل کی شرمناک تاریخ کی سیڑھی کے سب سے نچلے پائدان پر کھڑے ہیں۔ ابھی مجھے اپنے قارئین کوسستی اور قوم فروشی کے کئی منظر نامے اور دکھانے ہیں، مگر یاد رکھیے کہ آج کا کالم صرف آبی تنازعات کے حوالہ سے لکھا جا رہا ہے۔ 
2012ء میں ہماری حکومت نے (زود پیشمانی کا ناقابل معافی مظاہرہ کرتے ہوئے) بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں کشن گنگا ڈیم کی متنازعہ تعمیر کے خلاف ثالثی عدالت میں مقدمہ درج کرایا۔ 18 فروری 2013 ء کو سنائے جانے والے فیصلے کا صفحہ اوّل پڑھ لیں اور جگر تھام لیں۔ اگر آپ کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیں چونکہ خطرہ ہے کہ آپ صدمے کی شدت سے گر نہ پڑیں۔ پاکستانی وفد کا سربراہ کمال مجیداللہ کو بنایا گیا۔ وہ آبی تنازعات سے متعلقہ بین الاقوامی قانون اور Engineering کی الف ب نہیں جانتا تھا۔ وفدکے دُوسرے ارکان کون تھے؟ پاکستان کی وزارت خارجہ کا ایک افسر (خلیل احمد جو وفد کے قائد جتنا ان پڑھ تھا)، دُوسرا رُکن کریم خان تھا جو قومی احتساب بیورو (نیب) میں وکیل استغاثہ یعنی پراسیکیوٹر جنرل تھا۔ اُس میں یہ خوبی تھی کہ وہ وفد کے باقی دو ارکان جتنا نالائق اور نااہل تھا۔ وفد کے چوتھے رُکن مرزا آصف بیگ صاحب تھے جو پاکستان کے سندھ طاس کمیشن کے سربراہ ہیں۔ بڑے تجربہ کار، نامور اور نیک نام انجینئر ہیں۔ ظاہر ہے کہ اُنہیں اُس وفد کا سربراہ ہونا چاہئے تھا۔ حکومت آزاد کشمیر کی نمائندگی کسی انجینئر کی بجائے ایک عام سرکاری افسر (سردار رحیم) نے کی جو وزارت آبپاشی کا سیکرٹری تھا، جس نے اپنے آپ کو خود ہی نامزد کر لیا تھا۔ (باقی صفحہ نمبر13پر)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں