Radical Reforms Urged

آپ یہ نہ سمجھیں کہ مندرجہ بالا تین الفاظ پاکستان کے کسی اخبار میں شائع ہوئے۔(ان الفاظ کا ترجمہ ہے ۔ انقلابی اصلاح کی ضرورت) یہ 28 جون کو برطانیہ کے سب سے اچھے اخبار گارڈین کی شہ سُرخی تھی۔ آپ باقی کے چار الفاظ بھی پڑھ لیں۔ To Repair Divided Britain اگر جب برطانیہ میں عدم مساوات اور سماجی ناہمواری کی تلخ مگر ناقابل تردید حقیقت اُبھر کر سامنے آئی تو برطانوی دانشوروں نے نہ اپنی آنکھیں بند کر لیں نہ کوئی منفی حل تجویز کیا بلکہ ایک سرکاری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ سفارش کی کہ سماجی طور پر منقسم برطانوی معاشرے میں پڑ جانے والی دراڑوں کی مرمت کے لئے انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ یہ ہوتا ہے ایک مہذب قوم کا کمال۔ 
اب ذرا اپنی برق رفتاری پر ایک نگاہ ڈالیے، کہ ہمیں اپنے ایک صوبہ (NWFP) کا نو آبادیاتی نام بدل کر اسے پختون خواکہنے میں ساٹھ سال لگ گئے حالانکہ اتنا آسان کام تو 14 اگست 1947 کی آدھی رات کو بھی کیا جا سکتا تھا۔ ہم نے آج بھی انگریز کے بنائے ہوئے اُن چار صوبوں (جن پر پاکستان مشتمل ہے) کی سرحدوں اور اُن کے اندر انتظامی بندوبست کو جوں کا توں رکھا ہوا ہے۔تاریخ کو غور سے پڑھنا اور اُس سے سبق سیکھنا چاہئے۔ یہ کام تو ہم سے آج تک نہیں ہوا البتہ ہم اپنے متنازعہ ماضی کو پوجتے رہتے ہیں۔ اس کے خواب دن میں بھی دیکھتے ہیں۔ آج کل کیا ہورہا ہے اُس کی طرف زیادہ توجہ دے کر ہم اپنی ماضی پرستی اور گہری نیند میں خلل کیوں ڈالیں؟ اب رہا مستقبل؟ تو وہ کیا آپ نے حکمت کی یہ بات نہیں سنی کہ عاقبت کی خبر خدا جانے۔ جب وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا۔ پھر وُہی ہوتا ہے (جو یعنی تاریخ کے جدلیاتی عمل کا ناگزیر مظاہرہ) مگر اس وقت پانی سر سے گزر جاتا ہے،ہم آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھتے ہیں اوردیکھتے ہیں کہ زمانہ قیامت کی چال چل چکا ہے اور ہماری تیاری صفر یا صفر کے قریب ہے۔ پچھلے 70 برس میں ہمیں اس کی بڑی مثالیں نظر آتی ہیں۔ 1947 میں مشرقی پنجاب میں ہونے والے بدترین قتل عام اور لاکھوں افراد کی ہجرت کے بارے میں مکمل بے خبری۔ 1970 میں مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے استحصال اور جبر و تشدد اور غیر مساویانہ سلوک کے خلاف بغاوت کے پکتے ہوئے لاوے سے چشم پوشی۔ ہمارے ملک کی عمر 70 سال ہو گئی اور ہم ابھی تک اس لڑائی جھگڑے میں برُی طرح اُلجھے ہوئے ہیں کہ ہماری گاڑی کا ڈرائیور کون ہوگا؟ ہمارا دھیان اس طرف کیوں نہیں جاتا کہ اس گاڑی کا انجر پنجر گل سڑ چکا ہے۔ اس کا انجن خراب ہے۔ کسی ٹائر میں ہوا نہیں۔ ہم بار بار ہوا بھرتے ہیں مگروہ ٹائروں کے پنکچرزدہ ہونے کی وجہ سے نہیں ٹھہرتی اور نکل جاتی ہے۔ ماضی میں ہمیشہ ایسا ہوا۔ آپ ایک بوڑھے کالم نگار کی بات کو سچ جانئے کہ آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ ہمارے اُوپر نازل شدہ دو بڑے عذابوں (کرپشن اور دہشت گردی) میں کوئی کمی اُس وقت تک نہ آئے گی جب تک ہم سطحی اور نمائشی کام کرنے کی بجائے بنیادی اسباب کی نشان دہی کر کے بنیادی اور انقلابی اصلاحات نہیں کرتے۔ جس ملک میں عوام کے پاس نہ اختیار ہو اور نہ اقتدار اُس کا ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہوتا۔ اگر سرکاری افسروں کی فوج ظفر موج قوموں کی قسمت بدل سکتی تو ہمارے اُوپر آج بھی انگریزوں کی حکومت ہوتی اور خود انگریزوں کے اپنے دیس میں عوام برابری کا شہری ہونے کا درجہ نہ ملتا۔ یورپ اور تیسری دُنیا (ایشیا۔ افریقہ اور لاطینی امریکہ) کے عوام میں کیا فرق ہے (جس فرق نے یورپ کی کایا پلٹ دی ہے)؟ یورپ میں عوام شہری حقوق کے مالک ہیں اور تیسری دُنیا میں وہ حکمران طبقہ کی رعایا ہیں۔ وہ ایسی بھیڑیں بکریاں ہیں جو پانچ سال کے بعد اپنا نیا گڈریا اپنے ووٹوں اسے چن کر اپنی حالت زار کو اپنی برُی قسمت سمجھ کر صبر شکر کر لیتی ہیں۔ ہم ایک دُوسرے کو سمجھاتے ہیں کہ آخر ستاروں کی گردش بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ہم نہ صرف طوطے سے فال نکلواتے ہیں بلکہ اُس بے ضرر پرندے سے تو پ بھی چلواتے ہیں۔ اگر جنرل اختر ملک اور بریگیڈیئر امجد چوہدری بھی طوطوں سے یہی خدمات حاصل کرتے تو نہ چھمب جوڑیاں فتح ہوتا اور نہ چونڈہ ٹینکوں کی یادگار لڑائی میں ہماری بہادر فوج کا میابی حاصل کرتی۔ میدان جنگ سے آگے چل کر کرکٹ کے میدان میں بھی ہماری مسکین کرکٹ ٹیم کو پچھلے دنوںشاندار کامیابی حاصل نہ ہوتی ۔
یہاں تک کالم لکھا جا چکا تھا کہ مجھے برطانیہ کا سب سے معتبراور باخبر ہفت روزہ اکونومسٹ The Economist ملا۔ یہ 27 جولائی کا شمارہ ہے۔ میں نہیں جانتا کہ آپ اس کے مندرجاتNet پر پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے تو پھر اس شمارے میں پاک و ہند تعلقات (خراب تعلقات) پر بارہ صفحات پر مشتمل خصوصی رپورٹ پڑھنے کے لئے ضرور وقت نکالیں۔ میرے لئے ممکن نہیں کہ میں یہاں اس کا خلاصہ لکھ سکوں۔ میں دریا کو کوزہ میں بند کرنے کا فن نہیں جانتا۔ (بلکہ یہ کہنا زیادہ سچ ہوگا کہ کوئی فن بھی نہیں جانتا۔) یہ ضرور کہوں گا کہ وہ ممالک جن کا دونوں پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ رشتہ ہے وہ پاک بھارت کشیدگی کے بارے میںصرف ناخوش نہیںبلکہ فکر مند بھی ہیںچونکہ یہ کشیدگی دونوں ممالک کے عوام کے علاوہ ان کے مشترکہ دوستوں کے لئے بھی بڑھتے ہوا خسارے کا سودا ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ میں اور میرے قارئین ایک سہانی صبح جاگیں تو یہ خوش خبری سنیں کہ بھارت اور پاکستان نے اچھے پڑوسیوں کی زندگی گزارنا اور ہمسائیگی کے آداب سیکھ لیے ہیں۔ بدقسمتی سے بھارت میں کانگریس برُی طرح ناکام ہو گئی اوراس کے سیاسی اقتدار کا جنازہ اُٹھنے کے بعد جو سیاسی خلا پیدا ہوا وہ دائیں بازو کی فسطائی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے پرُکیا۔ آج اُفق پر جتنے بھی گہرے بادل چھائے ہوں وہ مجھے چھ ہزار میل کے فاصلہ سے بھی نظر آتے ہیں مگر ایک پشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ ایک نہ ایک دن (چاہے وہ دن کتنا دُور ہو) اس بدنصیب خطے میں بھی دائمی امن قائم ہو جائے گا۔ دونوں ممالک ایک دُوسرے کے بھائی نہ بھی بن سکیں،وہ اچھی دوستی کے معیار پر اُتریں گے۔ دونوں ممالک کے گلے میں ایک ہی کانٹا پھنسا ہوا ہے اور اُس کا نام ہے کشمیر۔ آپ جانتے ہیں کہ ایک ایسا دن آیا کہ ناقابلِ شکست دیوار برلن سے گر گئی۔ مشرقی اور مغربی جرمنی پھر ایک ملک بن گئے۔ شمالی اور جنوبی ویت نام کے درمیان تقسیم آخر ختم ہوئی اور وہ بھی ایک ملک بن گئے۔ اب منظر نامہ یہ ہے کہ ہمارا برصغیر (کوہ ہمالیہ کے دامن میں رہنے والے ڈیڑھ ارب انسانوں کا برصغیر) تین حصوں میں تقسیم ہے۔ مشرق بعید میں کوریا اور مشرق وسطیٰ میں قبرص اور فلسطین جیسے چھوٹے ممالک دو دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ باقی 180 ممالک میں سے کوئی علاقائی تنازعے کے خار زار میں نہیں اُلجھا اور نہ اُس کے سر پر جارحیت کی کوئی تلوار لٹک رہی ہے ۔ 70 برساتیں گزر گئیں مگر خون کے دھبے ابھی نہیں دُھل سکے۔
اجازت دیجئے کہ میں اس کالم کو اقبال کی بانگ درا میں لکھی شامل نظم (نیا شوالہ) کے آخری پانچ اشعارپر ختم کروں۔ برائے مہربانی آپ اُنہیں توجہ سے پڑھیں۔ 
آ، غیریت کے پردے ایک بار پھر اُٹھا دیں
بچھڑوںکو پھر ملا دیں نقش دوئی مٹا دیں
سُونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی
آ، اک نیا شوالہ اس دیس میں بنا دیں
دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ
دامانِ آسمان سے اس کا کلس ملا دیں
ہر صبح اُٹھ کے گائیں منتر وُہ، میٹھے میٹھے
سارے پُجاریوں کو مے پیت کی پلا دیں
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مُکتی پریت میں ہے
(بقول اقبال) پاکستان اور بھارت کے برہمن (حکمران طبقہ) ایک دن اس بیانیہ کی سچائی مان لیں گے کہ ان کے صنم خانوں کے بت پرُانے ہو گئے ہیں۔ وُہی دن۔ وُہی مبارک دن ہمارے لئے اصل آزادی اور حقیقی خوشی کا دن ہوگا۔ جب اس خطے میں امن و امان اور خوشحالی ہوگی ۔تاریخ اور جغرافیہ ایک طرف ہیں۔ داغ داغ اُجالا اور شب گزیدہ سحر دُوسری طرف ۔ اس رزم آرائی میں آخری فتح تاریخ اور جغرافیہ کی ہوگی۔ آپ اس پشین گوئی کو پلّے باندھ لیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں