ہوئے تم دوست جس کے

یہ ہیں وہ دو الفاظ جو غالب نے اپنے محبوب یا اپنے رازدان (جو آخر میں اُن کا رقیب بن گیا) کے بارے میں لکھے‘ مگر یہ غیر ضروری تفصیل ہے۔ اہم وہ بات ہے جو اُنہوں نے ڈیڑھ سو برس پہلے لکھی اور وہ ضرب المثل بن گئی۔ پورا مصرع یوں ہے: 
ہوئے تم دوست جس کے دُشمن اُس کا آسمان کیوں ہو
آج ہم پاکستانی اپنے پرانے سرپرست (پنجابی میں مائی باپ) امریکہ کو مخاطب کر کے غالب کا لکھا ہوا مذکورہ بالا مصرع بجا طور پر دُہرا سکتے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے جب ہمارے سارے دُکھوں کا علاج اور ساری ضرورتوں کی فراہمی امریکہ کرتا تھا۔ فوج کے لئے ہتھیار‘ خزانہ کیلئے رقم‘ زرعی ملک کے باشندوں کے لیے گندم‘ سکولوں کیلئے درسی کتابیں اور اساتذہ‘ پینے کے لیے مشروب (کولا مشروبات) کھانے کے لیے فوڈ چینز‘ پہننے کے لئے جینز‘ تفریح کے لئے ہالی وڈ کی بنائی ہوئی فلمیں‘ زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے امریکی کھاد اور بیج‘ بھارت کے ہر لحظہ متوقع جارحانہ حملہ کے خلاف ناقابل شکست امریکی ڈھال‘ سوویت یونین سے بہنے والے اشتراکی انقلاب کے سیلاب کی روک تھام کے لیے مضبوط ترین امریکی بند۔ دُوسرے الفاظ میں ؎
جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تو ہی تو ہے
پچاس کی دہائی میں امریکی خوشنودی کی خاطر ہم ایسے دفاعی معاہدوں کے رُکن بنے‘ جن کا مقصد مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں اشتراکی جارحیت کے مقابلہ کے لیے متحدہ کارروائی کرنا تھا۔ جو خود سوویت یونین کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ فرضی دشمن کو غیر دوستانہ کارروائی سے ہم نے واقعی اپنا دشمن بنا لیا۔ ہم نے امریکہ کا سال ہا سال نمک کھایا اور پھر اپنی نمک حلالی ثابت کرنے کے لیے افغانستان میں روسی فوج کے خلاف جہاد میں شریک ہوئے اور وہ بھی اس شان سے کہ اس کا ہراول دستہ بنے۔ کچھ وقت گزرا تو ہم اپنے محسنوں اور سر پرستوں کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے افغانستان پر اپنے قریبی دوستوں اور حلیفوں (طالبان) کے خلاف بلاجواز حملہ میں امریکہ کے سب سے کارآمد اور مؤثر ممد و معاون بنے۔ ایک امریکی اشارہ کی دیر تھی اور پھر ہماری نظر میں ہر شے‘ جو خوب تھی‘ ناخوب بن گئی۔ ہمارے بہترین دوست اب ہماری نظر میں بدترین دشمن بن گئے۔ جب امریکہ ہمارے پرانے حریف بھارت کا حلیف بن گیا تو ہمارے لئے نہ بھاگنے کی کوئی صورت تھی اور نہ کھڑے رہنے کے لئے کوئی جگہ۔ کریں تو کیا کریں؟ جائیں تو جائیں کہاں؟ ؎
نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن 
آئیے ! اب ہم آگے بڑھتے ہیں۔ اپنے قارئین کی اطلاع کے لئے لکھتا ہوں کہ Ghost Wars کے مصنف Steve Coll کی نئی کتاب چھپ کر بازار میں آ گئی ہے۔ 748 صفحات کی کتاب کا نام معنی خیز ہی نہیں‘ سنسنی خیز بھی ہے۔ Directorate S: The C.I.A. and America's Secret War in Afghanistan and Pakistan (2001-2016)۔ مصنف پیشہ کے اعتبار سے صحافی ہے اور صاف ظاہر ہے کہ امریکی جاسوسی اداروں سے اتنا قریب ہے کہ اُسے تمام خفیہ سرکاری معلومات باافراط مل جاتی ہیں۔ Steve Coll کی پہلی کتاب 2004ء میں شائع ہوئی۔ کہانی جہاں سے ختم ہوئی تھی‘ نئی کتاب میں اسی جگہ سے شروع ہوئی۔ یہ افغانستان میں 16 سالوں سے لڑی جانے والی اس امریکی جنگ کی داستان بیان کرتی ہے‘ جو امریکی تاریخ میں نہ صرف سب سے زیادہ لمبی ہے بلکہ اس لحاظ سے عبرت کا باعث ہے کہ دنیا کی امیر ترین قوم (امریکہ) دنیا کی ایک غریب ترین قوم(افغانستان) کے خلاف 16 سالوں سے لڑنے (اور 59 نیٹو اتحادی ممالک کی عسکری حمایت حاصل ہونے) کے باوجود ابھی تک اپنے جنگی عزائم میں کامیاب ہونے‘ طالبان کو ملیا میٹ کرنے‘ سارے افغانستان پر قبضہ جمانے اور اسے اپنے زیر تسلط لانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ فاضل مصنف کی رائے میں کامیابی کے امکانات صفر کے قریب ہیں۔
چند دنوں میں کالم نگار نے ابھی تک یہ کتاب بمشکل نصف پڑھی ہے مگر میں اپنے قارئین کو بتا سکتا ہوں کہ نئی کتاب کا عنوان پاکستان کے جاسوسی ادارہ (آئی ایس آئی) کے اس شعبہ کے نام سے لیا گیا ہے‘ جو مصنف کے بقول Directorate S کہلاتا ہے اور اس کی ساری توجہ افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ اور وہاں رونما ہونیوالے سیاسی واقعات اور پاکستان کے خفیہ کردار پر مرکوز ہے۔
مصنف نے بڑے وثوق سے لکھا ہے کہ 2011ء میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد بھی القاعدہ (اور اس کی جہادی شاخیں) نہ صرف عملاً زندہ ہیں بلکہ متحرک‘ فعال اور تباہ کن ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھال لینے کی اہلیت بھی رکھتی ہیں۔ اس کتاب میں مصنف نے امریکہ کی عسکری اور سیاسی ناکامی کا لفظ سو سے زیادہ بار استعمال کیا ہے۔ مصنف کسی قسم کے تحفظات کے بغیر امریکی حکومت کے اس مؤقف کو من و عن دہراتا ہے کہ اگر پاکستان طالبان کو پناہ گاہ اور امداد نہ دیتا تو وہ امریکہ کے ہاتھ ضرور شکست کھا جاتے۔ آج بھی افیون کی پیداوار اور فروخت کو پہلے کی طرح افغانستان کی معیشت میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ سی آئی اے کے ایک ماہر افغان اُمور نے مصنف کے سامنے اپنی بے بسی کا یوں اظہارکیاکہ افغانستان کی سر زمین پر طالبان سے جنگ لڑنا سمندر میں سرنگ کھودنے کے مترادف ہے۔ مصنف کی عالمانہ تحقیق نے اُسے اُس نتیجہ پر پہنچایا کہ اگر امریکی حکومت افغانستان میں تعمیری اور مثبت کام کو ادھورا چھوڑ کر عراق پر فوج کشی کرنے کی طرف اپنے وسائل کا رخ موڑنے کی فاش غلطی نہ کرتی تو امکان تھا کہ وہاں کامیابی مل جاتی۔ صدر اوباما نے افغانستان میں مزید تیس ہزار فوجیوں کو بھیجنے کے ارادہ کے ساتھ افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کی تاریخ کا اعلان نہ کرتے تب بھی تھوڑی بہت (قابل ذکر یعنی گزارہ موافق) کامیابی مل سکتی تھی۔ مصنف کے بیانیہ کا نچوڑ یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے ایشیائی اتحادیوں (پاکستان اور افغانستان) کی تکون کے درمیان مستقل بداعتمادی نے امریکی ناکامی کو یقینی بنا دیا۔ جوں جوں کتاب اپنے اختتام کی طرف بڑھتی ہے‘ مصنف کی پاکستان کی ایجنسیوں کے خلاف زہر افشانی بڑھتی جاتی ہے۔ وہ پاکستان کی ایجنسیوں کو 2008ء میں ممبئی پرکئے جانے والے خون ریز حملے کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ غنیمت یہ ہے کہ مصنف نے پاکستان کی حکومت پر اُسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا الزام عائد نہیںکیا اور وجہ یہ بتائی کہ شواہد تو بہت سے ہیں مگر الزام کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں۔
کتاب کے جامع ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں مگر چند نمایاں خامیاں بُری طرح کھٹکتی ہیں اور وہ ہیں کہ کئی اہم اور قابل ذکر واقعات کو نظرانداز کر دیا گیا مثلاً پاکستان کے ایک تفتیشی صحافی سید سلیم شہزاد کا قتل‘ 2011ء میں کراچی میں عمران نامی بحری اڈا پر طالبان کا تباہ کن حملہ اور افغانستان میں خوست کے مقام پر 2009ء میں طالبان کے ہاتھوں سی آئی اے کے آٹھ افسروں کی ہلاکت۔ جمع تفریق کے بعد حساب کا سوال حل کیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ افغانستان میں 2001ء سے لے کر اب تک لڑی جانے والی امریکہ کی بلاجواز اور بین الاقوامی قانون (کالم نگار اس کی ابجد سے واقف ہے) کے تخت غیر قانونی جنگ میں 160,000افراد ہلاک ہوئے‘ جن میں سے 50,000 (تقریباً ایک تہائی) عام شہری اور غیر فوجی تھے۔ اس سارے خون خرابہ کے باوجود امریکی حکومت انگشت بدنداں ہے۔ وہ یہ بات طے نہیں کر سکتی کہ پاکستان ہمارا دوست ہے یا ہمارا دشمن۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اہل پاکستان بھی یہ سوال اٹھانے میں اتنے ہی حق بجانب ہیں کہ امریکہ ان کا دوست ہے یا دشمن۔ دوسرا اور اتنا ہی مشکل سوال یہ ہے کہ پاکستان کے لیے امریکہ کی دوستی اچھی ہے یا دشمنی؟ دونوں میں سے کون سا سودا زیادہ مہنگا ہے؟ آپ کالم نگار کو اجازت دیں کہ (ہر قسم کی علمیت کے دعویٰ کی نفی کرتے ہوئے) وہ اپنی رائے (جو غلط بھی ہو سکتی ہے) آپ کے سامنے رکھتے ہوئے یہ کہے کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی مفاد پرستی‘ عاقبت نااندیشی‘ کوتاہ نظری‘ پرلے درجہ کی نالائقی اور بددیانتی کی وجہ سے پاکستان پر قابض یکے بعد دیگرے تمام حکومتوں نے سو جوتے اور سو پیاز کھانے کا محاورہ سچ ثابت کر دکھایا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں