شیروں کو سبزی خور نہیں بنایا جا سکتا

کالم شروع کرتے ہیں ایک انگریزی محاورے سے ''A Leopard Can't Change Its Spots ‘‘ یہ محاورہ شیکسپیئر نے گھڑا ۔ اُس کے ڈرامےRichard II کے ایک رول میں Duke of Norfolk نے رچرڈ بادشاہ کو جواب میں جو کہا وہ محا ورہ بن گیا اور آج ایک لمبا سفر طے کرتے ہوئے اس کالم کے توسط سے میرے ہزاروں قارئین تک پہنچ گیا۔ آپ جانتے ہیں کہ چیتے کی کھال پر مخصوص کالے دھبوں کی بھرمار نظر آتی ہے‘ جن کی بدولت یہ جانور اپنے آپ کو درختوں کے پتوں میں چھپا کر شکار کرتا ہے اور زندہ رہنے کی مسلسل جدوجہد میں ہمہ وقت مصروف۔ اب ہم ایک مفروضے کی طرف رخ کرتے ہیں۔ آپ کو چیتے کی کھال پر نظر آنے والے یہ کالے دھبے اچھے نہیں لگتے یا بے چارہ چیتا اپنے پیارے ناظرین کو خوش کرنے کیلئے خود بھی ان دھبوں سے جان چھڑانے پر تیار ہو جاتا ہے۔ تو آپ کی فرمائش یاچیتے کی رضا مندی کے باوجود اُس کی کھال کا ایک دھبہ بھی غائب نہیں ہو سکتا۔ مذکورہ بالا محاورہ کا سلیس زبان میں یہ مطلب ہے کہ جس طرح کشش ثقل اور طبعیات کے دوسرے قوانین کو نہیں بدلا جا سکتا ‘اسی طرح چیتے کی کھال کے دھبوں کو بھی نہیں بدلا جا سکتا۔ آپ کا تعلق کسی بھی پیشہ سے ہو‘ آپ وہ بنیادی اطوار اور خدوخال اور حدود اربعہ نہیں بدل سکتے جو آپ کی پیشہ ورانہ ساخت کا بنیادی حصہ ہوتے ہیں۔ فوج کا سپاہی پولیس کے سپاہی سے مختلف ہوگا اور کسان‘ وکیل‘استاد‘مزدور اور کلرک یہ سب اُس سے اتنے مختلف ہونگے جتنے یہ سب ایک دوسرے سے۔
اب یہ کلیہ طے پایا تو ہم آگے بڑھتے ہیں۔ چھ ہزار میل دور سے یہ خبر برطانیہ آئی کہ جناب عمران کان نے بڑے سرکاری افسروں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اپنا کام دیانت‘ محنت ‘لگن اور تندہی سے کرنے کی تلقین کی ہے۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ سامعین نے وزیراعظم کی بات ایک کان سنی اور دوسرے کان اُڑا دی ہوگی۔ اخلاقاً تالیاں بھی ضرور بجائی گئی ہوں گی۔ یہ جناب عمران خان کی بھول ہوگی‘ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے زور بیان اور جوشِ ایمان سے شیروں کو سبزی خور بنا سکتے ہیں۔ سول سروس ایک ادارہ ہے‘ برطانوی راج کا بنایا ہوا ادارہ ‘جو راج کا فولادی فریم تسلیم کیا گیا اور یہ ادارہ پوری دو صدیاں اپنا وہی کردار ادا کرتا رہا جس کے لئے وہ معرض وجود میں لایا گیا تھا۔ قیام پاکستان کو 71 سال گزر گئے۔ محنت ‘ دیانت اور قابلیت کی وہ شاندار روایات جس نے اسے احترام کا درجہ دلوایا وہ نالائق‘ بدعنوان اور کرپٹ سیاسی اشرافیہ نے گذشتہ نصف صدی میں ملیامیٹ کر دیں۔ میرٹ کی بنیاد پر ترقی کے اصول کو اتنی برُی طرح پامال کیا گیا کہ اب عہدہ اور اہلیت میں کوئی نسبت‘کوئی رشتہ اورکوئی تناسب باقی نہیں رہا۔ سیاست دان برطانوی راج میں بنائے ہوئے عوام دشمن نظام کو جوں کا توں رکھ کر ایک آزاد مملکت کو چلانے کی کوشش میں بری طرح ناکام ہوئے تو اُن کی جگہ بڑے سرکاری افسروں نے لے لی۔ مثال کے طور پر ایک سابقہ اکائونٹس افسر (ملک غلام محمد) اور سابقہ پولیٹکل ایجنٹ (سکندر مرزا) باری باری بطور گورنر جنرل اور سربراہ مملکت بنے۔ ایک اور اکائونٹس افسر(چوہدری محمد علی) وزیراعظم بنے۔ پھر جنرل ایوب خان اقتدار پر بالکل زبردستی اور غیر قانونی طور پر قابض ہو گئے۔ ایوب خان کے بعد کا دور دو حصوں میں گزرا:نام نہاد جمہوری حکومتیں اور مارشل لا۔فوجی آمروں کا جو سلسلہ ایوب خان کے دور حکومت سے شروع ہوا وہ یحییٰ خان اور ضیا الحق سے ہوتا ہوا پرویز مشرف تک پہنچا۔ ان 60 سال میں سول سروس کا کیا کرداررہا؟ کیا وہ سیاست دانوں اور جرنیلوں کے تمام چھوٹے بڑے جرائم میں برابر کی شریک نہیں رہی؟ جب ہمارے ملک پراربوں ڈالر کا قرض چڑھ گیا تو کیا سرکاری افسروں کے کان میں اس کی بھنک نہیں پڑی؟
اگر ہم نے ہزاروں چھوٹے ڈیم نہ بنا کر ناقابل معافی مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا تو سول سروس کیوں لاعلم رہی؟ ہمارے ملک کا نظم و نسق‘ تعلیم‘ علاج‘ انصاف قانون کی حکمرانی‘ پولیس‘ محکمہ مال‘ محصولات کی وصولی! آپ چاروں طرف نظر دوڑائیں تو آپ کو ہر ایک سرکاری محکمہ بدترین حالت میں ملے گا۔ افراطِ زر‘ غربت ‘مہنگائی اور بے روزگاری نے لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کی زندگی کو عذاب بنا دیا ہے۔ کیا سول سروس اس کی سو فیصد نہیں تو کم از کم 75 فیصد اور زیادہ لحاظ کریں تو 50 فی صد ذمہ دار نہیں؟ جناب عمران خان کے سول سروس کے نظام میں انقلابی تبدیلی کیلئے ابتدائی قدم اُٹھانے کی بجائے انہیںصرف نیکی کا درس دیا ہے۔ وہ امید رکھتے ہیں کہ ان کی تقریر دلپذیر کے اثر سے چیتے کی کھال کے دھبے مٹ جائیں گے۔ ماسوائے شیریں مزاری‘ شفقت محمود اور اسد عمر کے عمران خان صاحب کی کابینہ کا ایک بھی ایسا رکن نہیں جو قابلیت میں اپنے ماتحت گریڈ 22 کے وفاقی سیکرٹری کا ہم پلہ ہو۔ حل کیا ہے؟ کالم نگار کو اجازت دیجئے کہ وہ اپنی عقل‘ عمر بھر کے مطالعہ اورمشاہدہ کی روشنی میں یہ تجویز پیش کرے کہ ہر وزارت کی نگرانی کے لئے عوام دوست‘ روشن دماغ اور فلاحی مملکت کے آدرش پر ایمان رکھنے والے لوگوں کی مشاورتی کمیٹی بنائی جائے جس کے سامنے وفاقی سیکرٹری جواب دہ ہوں۔ اس کمیٹی کا ماہانہ اجلاس ہو اور وہ ہر سال پارلیمنٹ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرے ۔
میری رائے میں سول سروس کے شتر بے مہار کو صرف مذکورہ بالا مشاورتی اور نگران کمیٹی نکیل ڈال سکتی ہے۔ اگر ہم بڑے فیصلے کرنے والے افسروں سے قابلیت‘شفافیت اور عوام دوستی کے بلند ترین معیار پر اترنے کی توقع رکھتے ہیں تو پھر ان کو اسی طرح کے کمیسارکے ماتحت بنانا ہوگا جو سوویت یونین نے جنگ عظیم دوم میں ہر جرنیل بلکہ ہر بریگیڈیئر کے ساتھ تعینات کئے تھے۔ میرا گمان ہے کہ جناب اسد عمر آج تک نہ پنجاب کے کسانوں کے لیڈر چوہدری محمد انور سے ملے ہیں اور نہ سندھ کے کسی ہاری لیڈر سے اور نہ کان کنوں سے۔ نہ ماہی گیروں سے نہ کراچی سٹیل مل کے مزدوروں کے راہنما ممریز خان سے اور نہ انجمن مزارعین سے۔ ہم جانتے ہیں کہ بڑے صنعت کاروں میں سے ایک بڑا ارباب اقتدار میں شامل ہے۔ ہماری خوش قسمتی سے یہ سیٹھ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہے۔ سیٹھوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘ مگر کیا محنت کشوں‘کسانوں‘ہاریوں‘ کانوں میں کام کرنے والوں (اور ہر ماہ حادثات میں مرنے والوں)‘ مزارعوں اور صنعتی مزدوروں کی نئے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں؟ کوئی مقام نہیں؟ کوئی آواز نہیں؟ یہی تو جمہوری نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور صرف ان کی حمایت ہی تحریک انصاف کے اقتدار کو ترکی کے صدر اردوان کی طرح قائم رکھ سکتی ہے۔
دعا ہے کہ جناب عمران خان وہ غلطی نہ کریں جو جناب بھٹو صاحب نے کی اور نہ صرف اقتدار بلکہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اگر آپ اسے اقربا پروری نہ سمجھیں تو میں صدق ِدل سے اپنے ساتھی کالم نگار جناب خالد مسعود خان پر تعریف اور تحسین کے پھول برسائوں جنہوں نے 15 ستمبر کے روزنامہ دنیا میں (اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر) جناب عمران خان کے وزیر خزانہ پر‘ عوام دوست معاشی پالیسی نہ بنانے کی وجہ سے کڑی تنقید کی۔ اُنہوں نے بجا طور پر لکھا کہ پرانی کاروں (چاہے وہ کتنی قیمتی ہوں) اور بھینسوں (چاہے وہ کتنی چمکدار اور دیکھنے میں اچھی لگیں) کی نیلامی سے مہنگائی نہیں روکی جا سکتی۔ ایک بوسیدہ فرسودہ‘ گلاسڑا اور عوام دشمن نظام سطحی مرمت اور نمائشی تبدیلیوں سے کارآمد نہیں بنایا جا سکتا۔ ایک موذی مرض کا علاج اسپرین کی گولی سے نہیں کیا جا سکتا۔میٹھے شربت مگر مہلک (مثلاً آئی ایم ایف سے اربوں ڈالروں کے ایک نیا قرض) کو عمل جراحی کا متبادل نہیں بنا یا جا سکتا۔ اسی طرح شیروں کو سبزی خور نہیں بنایا جا سکتا‘چاہے دیانتداری سے کوشش کرنے والے کا نام عمران خان ہو۔ میرے ایک اور ساتھی کالم نگار جناب حمید بھاشانی کے بے حد قیمتی‘ عالمانہ مشورہ (اُصول کے مطابق بندر بانٹ کو بانٹ برت میں بدل دیں) پر عمل کئے بغیر نہ بڑھتے ہوئے اندھیرے کو روشنی میں ضم کیا جا سکتا ہے اور نہ ایک روشن‘ خوش و خرم‘ خوشحال اور عوام دوست پاکستان معرض وجود میں لایا جا سکتا ہے۔ شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پانی نہیں پلایا جا سکتا۔اِس منطق کے مطابق شیروں کو سبزی خور نہیں بنایا جا سکتا‘چاہے دیانتداری سے کوشش کرنے والے کا نام عمران خان ہی ہو۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں