All Hands on Deck

یہ وہ تاریخی الفاظ ہیں جو 21 اکتوبر1805ء کو برطانوی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل لارڈ نیلسن نے اُس وقت کہے تھے جب اُس کے فلیگ شپ (جس پر ایڈمرل سوار ہو کر بحری جنگ میں اپنے جہازوں کو جنگی احکامات جاری کرتا ہے) Victory کو آگ لگ گئی۔ Deckیعنی جہاز کا عرشہ لکڑی کا بنا ہوا تھا‘سپین اور فرانس کی بحریہ کی گولہ باری سے عرشے پر شعلے بھڑک اُٹھے۔ عرشے پر موجود عملہ آگ بجھانے کیلئے ناکافی ثابت ہونے لگا تو لارڈ نیلسن کا یہ حکم اُس جہاز کے ہر حصے میں گونجا کہ جہاز پر موجود تمام سپاہی اور افسر اپنا کام چھوڑ کر عرشے کی طرف لپکیں اور آگ بجھانے کی سر توڑکوشش کرنے والوں کی مدد کریں۔ بحریہ کی زبان میں عام سپاہیوں کو Hands کہا جاتا تھا ( ممکن ہے اب بھی یہی دستور ہو) ۔ روایت کے مطابق جان نامی باورچی جہاز کے تہہ خانہ میں کھانا پکا رہا تھا‘ اُس نے ایڈمرل کا حکم سنا تو ہنڈیا کو چولہے سے اُتارے بغیر پانی کی بالٹی بھر کر عرشے کی طرف دوڑپڑا‘ اگر وہ یوں نہ کرتا اور کھانا پکانے میں مصروف رہتا تو جہاز جل کر راکھ ہو جاتا۔ جو بات لارڈ نیلسن نے 1805ء میں کہی تھی وہی 215 برس بعد یہ کالم نگار وطنِ عزیز میں رہنے والوں اور خصوصاً اس کے قائدین کو مخاطب کر کے صدقِ دل سے کہہ رہا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ہمارے دلوں میں پڑی ہوئی گانٹھیں کتنی پکی ہیں‘ سیاسی جماعتیں اقتدار کے اُونچے دسترخوان سے گرنے والے ٹکڑے (یا نوالے) جھپٹ کراُٹھانے کیلئے ایک دوسرے سے لڑتی جھگڑتی رہتی ہیں۔ اُن کی تمام سرگرمیوں کا صرف ایک ہی محور ہے اور وہ ہے ہر قیمت پر اپنے اقتدار کی سواری کو دوام دینا ۔ جو پیادہ ہیں وہ سوار کو گھوڑے سے نیچے اُتارنے کیلئے ہر ممکن حربہ استعمال کرتے ہیں ۔محلاتی سازش سے لے کر شاہرائوں پر دھرنا دینے تک۔سیاسی جماعتوں کے قیام کا واحد جواز یہ ہے کہ وہ عوامی مفاد کی نگہبان ہوتی ہیں جسے انگریزی میں Watchdog یاGuardian کہتے ہیں۔مگر اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ گارڈین ہی چوروں کے ساتھی بن جائیں۔ میں کوئی بھی سخت لفظ لکھنے کی بجائے اپنے قارئین کی ذہانت پر اعتماد کرتے ہوئے اُن سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ان سطور سے خود ہی یہ بات اخذ کر لیں کہ میرا اشارہ کس طرف ہے؟
جب سیاسی جماعتیں (یورپ کے برعکس) اور مذہبی جماعتیں (ایران اور ترکی کے برعکس) مسائل کا حل ہونے کی بجائے خود ایک مسئلہ بن جائیں تو ہم کیا کریں؟پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے جائزے کے مطابق پاکستان کی آبادی میں 0.4 فیصداَپر کلاس‘6 فیصد اَپر مڈل کلاس‘ 4.3 فیصدمڈل کلاس‘ 8.5 فیصدلوئر مڈل کلاس‘ 15.8 فیصداپر لوئر کلاس اور 41.9 فیصدلوئر کلاس ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مزدوروں‘ کسانوں اور محنت کشوں پر مشتمل اس نصف آبادی کا کیا بنے گا؟ دھوپ نکلی تو کالم نگار سیر کیلئے ایک سُنسان بیابان پارک سے ہوتا ہوا دریا کے کنارے جا پہنچا۔ Thames کے کنارے بیٹھے ہوئے پرندوں کو میں نے دانا دُنکا کھلایا تو اُن سے دوستی کا رشتہ قائم ہوا۔ اُنہوں نے میری دل گرفتگی کی وجہ دریافت کی تو میں نے وہی بتایا جو مندرجہ بالا سطور میں لکھا گیا ہے۔ پرندوں نے میری فریاد سُنی تو دم بخود ہو گئے۔ اُن کے چہچہانے سے پیدا ہونے والی موسیقی تھم گئی۔ ایک وقفہ کے بعد سے بزرگ ترین پرندہ مجھ سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا کہ اس اُمید پر کہ آپ نے کلامِ اقبال پڑھا ہوگا میں آپ کو اُن کے ایک شعر کی صورت میں نسخہ کیمیا بتاتا ہوں ؎
اُٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں
'سفالِ پاک‘ سے مینا و جام پیدا کر
آپ کو شاید اعتبار نہ آئے کہ اس بزرگ پرندے کو کلامِ اقبال پر اتنا عبور تھا کہ اُس نے کالم نگار کی ضعیف العمری کی پیش نظراُسے اپنی بات سمجھانے کیلئے اقبال کے وہ اشعار بھی خوش الحانی سے سنائے جن میں ممولہ (محنت کش طبقہ) کی شہباز (مراعات یافتہ طبقہ) سے خون ریز لڑائی اور اس میں ممولہ کی کامیابی کی پیش گوئی کا ذکر کیا گیا ہے۔ میں نے ہمت کر کے اپنے مخاطب پرندے کو یاد لایا کہ اقبال نے سو سال پہلے اپنے بصیرت افروز اور دل و دماغ کو روشن کر دینے والے اشعار لکھے تھے۔ اب تو شیشہ گرانِ فرنگ کو اپنے دیس سدھارے 73 سال ہونے کو ہیں۔ میری بات سن کر وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔ اُس کی ہنسی تھمی تو کہنے لگا کہ آپ یقینا عمر میں مجھ سے بڑے ہیں‘ آپ کا احترام واجب ہے مگر کیا آپ اتنے سادہ لوح ہیں کہ آپ کو نظر نہیں آتا کہ آپ کے حاکموں کی صرف جلد کا رنگ بدلاہے۔ آپ کا حکمران طبقہ نہ صرف مراعات یافتہ ہے بلکہ مغرب زدہ ہے۔ دوسری طرف بے بس‘ بے آسرا‘ بے آواز‘ بے یارو مددگار لوگ جن کی تعداد 19 کروڑ ہے‘ اُن کے سامنے صرف دو راستے ہیں ایک یہ کہ مستقل گریہ و زاری اور نہ ختم ہونے والا ماتم کرتے رہیں دوسرا اپنی حالت (جو لحظہ بہ لحظہ دگر گوں ہوتی جا رہی ہے) کو بہتر بنانے اور اندھیرے کو روشنی میں تبدیل کرنے کیلئے عملی قدم اُٹھانا۔ 
کالم نگار کی دعا ہے کہ اس کی لکھی ہوئی سطور پڑھنے والے دوسرا راستہ اپنا لیں ۔ وکلا‘ اساتذہ‘ صحافی‘ طلباوطالبات اور محنت کش۔ یہ پانچوں مل جائیں‘ ہاتھ کی پانچ انگلیوں کی طرح۔ وہ ایک نیا غیر انتخابی عوامی محاذ بنائیں (اجازت دیجئے کہ میں لوک برادری کا نام تجویز کروں) اور قومی مسائل کو قومی مفاد کے مطابق حل کرنے کیلئے مل کر جدوجہد کریں۔ کالم نگار نے سو ممتاز روشن دماغ افراد کی فہرست بنائی ہے جنہیں انفرادی خط لکھ کر قائل کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ وہ لوک برادری کی بنیاد رکھیں اور وہ بھی جلد از جلد۔ خوانخواستہ ایسا نہ ہو کہ اتنی دیر ہو جائے کہ پانی سر سے گزر جائے۔ جو سنگین مسائل ہمیں در پیش ہیں وہ آپ کی توجہ اور فوری حل کے متقاضی ہیں۔ فہرست تو کافی لمبی ہے لیکن کالم کے آخر میں صرف تین اہم ترین مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران جسٹس عمرعطابندیال صاحب نے فرمایا کہ ہمارا نظامِ عدل تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ غور فرمایئے کہ یہ سپریم کورٹ کے ایک محترم جج کی سوچی سمجھی رائے ہے جو ہم آپ سب کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔ خصوصاً سارے ملک کے وکلا اور جج صاحبان کیلئے۔ اٹھارہ لاکھ مقدمات سرد خانے میں پڑے ہیں۔ دوم: تعلیم کا شعبہ بھی بدترین بحران کا شکار ہے۔ یکساں نصاب اور انگریزی کا بطور ذریعہ تعلیم خاتمے کا خواب نہ جانے کب پورا ہوگا۔ سوم: تیسرا اور آخری مسئلہ غالباً سب سے سنگین ترین ہے اور وہ ہے اٹھارہویں ترمیم کا۔ ان دنو ں یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف کی دوسری جماعتوں کے درمیان پس پردہ خفیہ مذاکرات ہو رہے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کا حلیہ اس طرح بگاڑا جائے کہ ہم مملکت کو مزید وفاقی بنانے کی بجائے وحدانی (جس کی بنیاد کمزور صوبوں اور مضبوط مرکز پر رکھی جاتی ہے) نظام حکومت کی طرف لوٹ جائیں۔ آج ضرورت اٹھارہویں ترمیم کو مسخ کرنے کی نہیں بلکہ اس آئینی ترمیم کے تحت ضلع‘ تحصیل اور گائوں کی سطح پر بااختیار اور فعال مقامی حکومتوں کے قیام کی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم میں چھوٹی سے چھوٹی رخنہ اندازی بھی یقینا عوام دشمنی ہوگی۔ ہم جانتے ہیں کہ زبانِ خلق نقارہ خدا ہوتی ہے‘ مگر ہمارے ملک میں آواز خلق کون بنے گا؟ یہ تاریخی کردار صرف وکلا‘ اساتذہ اور محنت کشوں کا اتحادِ ثلاثہ ہی ادا کر سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں