’’فری میسن ‘‘

اگر آپ گورنر ہائوس لاہور سے مال روڈ پر چیئرنگ کراس کی طرف سفر کرتے بڑے چوک تک پہنچیں تو واپڈا ہائوس آپ کے دائیں ہاتھ ہوگا اور بائیں ہاتھ اُس کے سامنے ایک بڑی عمارت۔ نصف صدی قبل اس کا رنگ زرد تھا۔ ساٹھ کی دہائی تک یہ عمارت کسی کے استعمال میں نہ تھی ۔ مقفل ہونے کی وجہ سے یہ زیادہ پرُ اسرا دکھائی دیتی تھی اور مشہور تھا کہ یہ برطانوی راج کے دوران جادوگروں کے تصرف میں تھی۔ زیادہ چھان بین کی تو پتا چلا کہ جادوگروں سے مراد فری میسن ہیں۔ نصف صدی سے زیاہ عرصہ گزر گیا‘ مجھے یہ عمارت یاد رہی اور نہ اس کے پرُانے مالکان۔ گزرے ہوئے موسم گرما میں کئی مہینوں پر پھیلی ہوئی قید (Lock Down) سے رہائی ملی تو کالم نگار لندن کی سیر کو نکلا۔ جب معمول کی کتابوں کی دکانوں کی طرف لپکا تو دیکھا کہ جو کتاب مقبولِ عام (Best Seller ) ہونے کا اعزاز حاصل کر چکی تھی وہ انہی فری سین کے بارے میں ہے۔ نام ہے: The Craft مصنف کا نام ہے: John Dicxie اور ناشر ہیں Hodder۔ میں نے خریدنے کی خواہش پر قابو پا کر لائبریری سے عاریتاً لے کر پڑھی۔ کتاب یقینا معلوماتی ہے مگر اتنی دلچسپ نہیں کہ دن کا چین او ررات کا آرام حرام کر دے۔ نہ سنسنی خیز ہے اور نہ رونگٹے کھڑے کر دینے والی‘ اس لئے مجھے یہ جان کر کوئی زیادہ خوشی نہ ہوئی کہ نہر سویز کے مغرب میں بھی لوگ ہوائیاں اُڑانے اور اُنہیں قابلِ اعتبار بنا کر پیش کرنے کے فن میں مہارت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر کئی معتبر لوگوں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ فری میسن نہ صرف انقلابِ فرانس بلکہ جنگ عظیم (اوّل اور دوم) شروع کرانے کے ذمہ دار ہیں۔ افواہ بازوں نے اس پر اکتفا نہ کیا‘ ایک امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قاتلHarvey Oswaldکے بھی اس تنظیم کا رکن ہونے پر اصرار کیا گیا۔برطانوی بحری جہازٹائی ٹینک کے غرق ہو جانے اور بہت سے تباہ کن واقعات پر صرف اُس مصافحہ کی بدولت ہمیشہ کیلئے راز داری کا دبیز پردہ ڈال دیا گیا جو فری میسن تنظیم کے اراکین کا طرئہ امتیاز ہے۔ اگر میں مذکورہ بالا خرافات کی طرح تمام بے بنیاد اور سازشی ذہن رکھنے والوں کے زرخیز دماغ کی تخلیقات کو لکھوں جن کا سہرا فری میسن کے سر باندھا جاتا ہے‘ تو سارا کالم بھر جائے گا۔ حقیقت اپنی جگہ مگر اسے بیان کرنے والوں نے زیب داستان کیلئے کم نہیں بلکہ بہت کچھ بڑھا دیا۔ فری میسن اپنے آپ کے بارے میں راسخ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ اس دنیا کی ازلی اور ابدی سچائیوں کے امین ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اعلیٰ انسانی قدروں کے نگہبان سمجھتے ہیں۔ 
فری میسن کو سترہویں صدی میں پتھر تراشنے والوں کی برادری نے جنم دیا۔ اس کی رسمی بنیاد تین صدیاں قبل رکھی گئی۔ اس کی شاخوں کو Lodges کہتے ہیں۔ دو صدیوں کے اندر نہ صرف برطانیہ کے ہر حصے بلکہ دنیا کے زیادہ ممالک میں ان شاخوں کا جال پھیل گیا۔ نہ صرف امریکی انقلاب کے رہنما اور پہلے صدر جارج واشنگٹن اور 13 مزید امریکی صدور فری میسن تھے بلکہ بے شمار ارب پتی جرنیل بڑے فنکار اور سربراہانِ مملکت بھی۔ ونسٹن چرچل‘ Mozart‘ گوئٹے‘Peter Sellers آسکروائلڈ اور والٹ ڈزنی۔ مذکورہ شخصیات کی طرح ہزاروں نامور افراد نے برضا و رغبت روایتی ا یپرن باندھ کر حلف برداری کی رسم میں حصہ لیا۔ امریکہ میں گیارہ لاکھ اور دنیا بھر میں ساٹھ لاکھ افراد کا تعلق فری میسن سے ہے۔ اب اس تنظیم کا سورج نصف النہار پر نہیں رہا‘ ساٹھ سال پہلے صرف امریکہ میں اس کے اراکین کی تعداد چالیس لاکھ تھی‘ جو اَب ایک چوتھائی رہ گئی ہے۔ 
رازداری کی روایت فری میسن کی شہرت یا رسوائی کا باعث بنی۔ فری میسن کے مخالفین اور نقاد جن کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے‘ جب اس کی دھجیاں اُڑاتے ہیں تو ایک دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ فری میسن کا دامن ان گنت جرائم سے داغدار ہے‘ مگر وہ آج تک رنگے ہاتھوں پکڑے نہیں گئے۔ جس سے ثابت ہوتے ہیں کہ وہ کتنے چالاک اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے ماہر ہیں۔ ایک فارسی شعر کے مطابق: چور اتنا دیدہ دلیر ہو چکا ہے کہ ہاتھوں پر چراغ رکھ کر پھرتا ہے اور پھر بھی پکڑا نہیں جاتا۔ یورپ میں جب سے صدیوں پرانا برادری نظام ٹوٹ پھوٹ کر شکار ہو کرقصہ پارینہ بن گیا اُس کی جگہ فری میسن کی طرح کئی دوستانہ بلکہ برادرانہ سماجی تنظیموں نے لے لی‘ مثال کے طور پر Moose, Elk, Freemason, Odd, Kiwanis, Rotarianns اور Shrines۔ ناقدین ایک نسل پرست تنظیم (Ku Klux Klan)اورMafia کا سراغ لگاتے لگاتے فری مسین تک پہنچ جاتے ہیں۔ 
فری میسن کو اپنی تین صدیوں پر پھیلی تاریخ میں 1885 ء میں اتوار کا وہ دن کبھی نہیں بھولتا جب فرانس کے ایک گرجا گھر میںLeo Taxilنامی پادری نے اتنی غضبناک تقریر کی کہ لگتا تھا کہ اُس کے منہ سے شعلے نکل رہے ہیں اور آنکھوں سے چنگاریاں۔ تقریر فری میسن کے خلاف تھی اور مقرر کا موقف یہ تھا کہ فری میسن شیطان کے آلہ کار ہیں۔ اُن کے Lodgesمیں بکری کے سر والوں جنگلی جانوروں کے بتوں کی پرستش کے علاوہ اور ناقابل بیان گناہوں کا ارتکاب بھی کیا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا پادری کو اتنی شہرت ملی کہ اُس وقت کے پاپائے اعظم نے اُسے شرفِ ملاقات بخشا۔ بارہ برس گزرے تو ایک ڈرامائی واقعہ ہوا‘ Taxil نے ایک مذہبی اجتماع میں اعتراف کر لیا کہ اُس نے فری میسن پر جتنے بھی گھنائونے الزامات لگائے تھے وہ سب فرضی اور من گھڑت تھے۔ اگر Taxil کے دوست اور خیر خواہ اُسے حفاظت سے ہال سے باہر نکال لے جانے میں کامیاب نہ ہوتے تو غیظ و غضب سے مغلوب ہجوم اُسے یقینا مار ڈالتا۔ مشہور انگریز ادیب( اور گوروں کی نسلی برتری کے علمبردار) Rudyard Kiplingنے ایک کہانی فری میسن پر لکھی (The Man Who Would Be King)۔ صرف نثر پر اکتفا نہیں کی بلکہ ایک نظم (The Mother Lodge) بھی لکھی۔ پچھلی صدی میں سپین کا آمر مطلق فری میسن کے مخالفین میں سرفہرست تھا‘ اُس نے فری میسن کی سرکوبی کیلئے خصوصی ٹربیونل بنایا۔ اُس نے قانون بنایا کہ فری میسن ہونے کا جرم ثابت ہو جائے تو مجرم کو بارہ سے لے کر تیس سال قید کی سزا دی جاسکے گی۔
برصغیر پاک و ہند سے برطانوی راج ختم ہوا تو فری میسن کا طلسم بھی ٹوٹا۔ عرصہ ہوا کہ مجھے لندن میں ایک اُڑتی ہوئی خبر ملی جس کی آج تک تصدیق یا تردید نہیں کی جا سکی‘ خبر یہ تھی کہ حکومت پاکستان نے فری میسن تنظیم کو خلافِ قانون قرار دے دیا ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ میرے قارئین اس معاملے میں میری رہنمائی کریں کہ یہ درست ہے یا نہیں؟ قانون بنا یا گیا یا نہیں مگر وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اب پاکستان میں کسی بھی شہر میں Freemason Lodgeنہیں۔ کتنا اچھا ہو کہ کالم نگار کو کس دن یہ خوش خبری بھی ملے کہ پاکستان اب ان معنوں میں آزاد ہو چکا ہے کہ وہاں سے انگریزی کا بطور نصابی اور سرکاری زبان کا تسلط ختم ہو گیا۔ ان 73 سالوں میں ہم نے لفظ آزادی کے پانچ حروف ابجد میں سے پہلا بھی نہیں سیکھا۔ فارسی کے ایک محاورے کے مطابق سرمنڈوانے سے قلندری نہیں مل جاتی۔ 14 اگست 1947ء کو ہم نے سیاسی‘ معاشی‘سماجی اور ذہنی آزادی کی منزل کی طرف پہلا قدم بڑھایا، دوسرا قدم کب بڑھائیں گے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں