مغلوں کی شکست اور انگریزوں کی فتح کے اسباب …(5)

نذیر الدین خان نے عمر سمندروں میں بحری جہازوں میں سفر کرتے گزاری مگر دورانِ سفر تاریخ کی کتابیں اتنے ذوق و شوق سے پڑھیں کہ خود ایک بہت اچھی کتاب لکھ ڈالی اور نام رکھا ''پہلا پتھر‘‘۔ یہ پہلے بھی بیان کیا جاچکا ہے کہ مروجہ‘ دقیانوسی‘ روایتی اور عوامی مفروضوں (جو اکثر خلافِ حقیقت ہوتے ہیں) کی تائید کرنے والے تاریخی بیانیے کے بت پر اُنہوں نے پہلا پتھر پھینکا اور یہی اپنی کتاب کا عنوان بنایا۔ اس سے زیادہ موزوں اور کون سا عنوان رکھا جا سکتا تھا؟ گزشتہ قسط میں با ت ہو رہی تھی شہنشاہِ ہند نور الدین جہانگیر اور پرتگالیوں کی صلح کی۔ پرتگالیوں کی پہلی شرط یہ تھی کہ انگریزوں سے تمام مراعات واپس لے لی جائیں اور اُنہیں دربار سے نکال دیا جائے۔ مزید یہ کہ سمندر پار سے آنے والی (برطانوی) قوم کو پرتگالی وائسرائے کی اجازت کے بغیر کسی بھی قسم کی مراعات نہ دی جائیں اور ہندوستانی بحری جہاز وائسرائے کے حکم کے مطابق تاوان ادا کرتے رہیں۔ مغل بادشاہ کو پرتگال کی یہ کڑی شرائط قبول کرنا پڑیں۔ برطانوی سفیر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ 1611ء میں ناکام اور نامراد انگلستان واپس چلا گیا مگر وہ جاتے وقت جہانگیر کو بتا گیا کہ اگر انگلستان کے چودہ بڑے جنگی جہاز سمندر سے حملہ آور ہوں اور زمین سے مغل افواج بیک وقت یلغار کریں تو پرتگالیوں کو شکست دی جا سکتی ہے۔
1612ء میں بحرِ ہند میں ایک انگریز مہم جو کی تاریخ ساز فتح (جس نے تاریخ کا رُخ موڑ دیا) کا سہرا Captain Thomas Bestکے سر باندھا جانا چاہئے۔ اس کے ساتھ صرف ایک جنگی جہاز اور چھوٹی کشتی تھی۔ اتفاقاً اس کا سامنا پرتگال کے چار بڑے جنگی جہازوں سے ہو گیا جن پر بڑے دھانے کی دُور مار توپیں نصب تھیں لیکن انگریز کپتان کی اعلیٰ مہارت اور جنگی چالوں نے پرتگالی جہازوں کو غرق کر کے شکست دے دی مگر یہ کارواں ہندوستانی ساحل پر لنگر انداز ہونے کے بجائے واپس انگلستان چلا گیا۔
1615ء میں انگلستان کے بادشاہ James I کا سفارتی وفد جہانگیر کے دربار میں پہنچا اور شہنشاہ کو یقین دلایا کہ انگریز ہی وہ واحد بحری قوت ہیں جو مغل حکمرانوں کو پرتگالی فتنے سے نجات دلا سکتے ہیں۔ اکبر اور جہانگیر پرتگالیوں کے خوف میں مبتلا رہے۔ انگریزوں کے آنے کے بعد پرتگالیوں کا زور بڑی حد تک ٹوٹ چکا تھا۔ جہانگیر کے بعد کے نصف دور اور شاہجہاں کے دور میں (انگریزوں کے طفیل) بیرونی تجارت میں بیش بہا اضافہ ہوا کیونکہ تجارتی (بحری) گزر گاہیں بڑی حد تک محفوظ ہو گئی تھیں۔ اب پرتگالیوں کی توجہ زیادہ تر غلاموں کی تجارت پر مرکوز ہو گئی۔ وہ کلکتہ میں چھائونی بنا کر نو عمر بچوں کو اغوا کر کے غلام بناتے اور اُنہیں جزائرِ غرب الہند لے جا کر فروخت کر دیتے۔ جب پرتگیزی ظلم بہت بڑھ گیا تو شاہجہاں نے بنگال میں اپنے صوبیدار قاسم خان سے کہا کہ ہگلی سے پرتگالیوں کو مار بھگایا جائے۔ یہاں ایک قَلعہ بھی تھا۔ صرف دو یا تین سو پرتگالی اور چھ‘ سات سو مقامی عیسائی۔ یہ بھی عجیب جنگ تھی۔ کہاں ڈیڑھ لاکھ کی عظیم مغل افواج اور کہاں بمشکل ایک ہزار دشمن لیکن پرتگالی تین ماہ تک اپنا دفاع کامیابی سے کرتے رہے‘ اپنے برتر اسلحے اور بحری جہازوں سے گولہ باری کی بدولت۔ تین ماہ بعد پرتگالی اپنے بحری جہازوں کے ذریعے فرار ہو گئے اور مغل فوج انہیں دیکھتی رہ گئی۔ اورنگزیب عالمگیر نے لگ بھگ 50 برس سارے ہندوستان پر حکومت کی مگر وہ بھی مٹھی بھر پرتگالیوں کے آگے بے بس تھا۔ اورنگزیب کے خاندان کے افراد (مع خواتین) حج کے لیے روانہ ہوئے تو راہ میں پرتگالی قزاقوں نے جہازوں کو اغوا کر لیا۔ بعد میں ان سارے مسافروں کو بھاری تاوان لے کر رہا کیا گیا۔ عظیم الشان مغل سلطنت کی شرمناک ناکامی واضح ہوئی تو ساحلی ریاست گجرات کے حکمران بہادر شاہ نے بحری بیڑا بنایا اور مصر کے مملوک بادشاہ کی مدد سے ایک بار پھر پرتگالیوں کو بحری جنگ میں شکست دی۔ صد افسوس کہ بعد ازاں مغل فوج نے گجرات کی اس بہادر مسلم مملکت کو ہی تباہ و برباد کر دیا۔
انگریزوں کے لیے ابتدا ہی سے ہندوستان میں تجارت منفعت بخش ثابت ہوئی۔ پورے یورپ میں ہندوستا ن کی مصنوعات کی زبردست مانگ تھی۔ اگر ہندوستان میں سیاسی و معاشرتی استحکام قائم رہتا تو ہندوستان کی خوشحالی میں بے پناہ اضافہ ہوتا مگر ہندوستان میں ابتری اور طوائف الملوکی نے بتدریج انگریز کے لیے ہندوستان پر قبضے کے حالات سازگار بنا دیے۔ اہلِ اختیار اور اہلِ اقتدار کی مجرمانہ سیاسی و معاشی غفلت و جہالت اور ارتقائی عمل کے سکوت و جمود نے معاشرے کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ لیا تھا۔ بالخصوص اورنگزیب کے دور میں مسلسل پچاس سال تک بدترین طوائف الملوکی‘ ہر سو بغاوتوں اور مسلسل قتل و غارت گری نے ہندوستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا تھا۔ اورنگزیب کے بعد آنے والے مغل بادشاہ شراب و افیون کے رسیا تھے۔ وہ ہر لمحے نشے میں مست رہتے۔ کچھ تو پیروں میں گھنگھرو باندھ کر ناچتے بھی رہے۔ اب مغل سلطنت سمٹ کر دلّی کے لال قلعے میں محبوس ہو گئی۔ شاہ عالم ثانی کے دور تک عظیم مغلیہ سلطنت دہلی سے پالم تک محدود ہو کر عبرت کا نشان بن چکی تھی۔ اسی دور میں یہ کہاوت مشہور ہوئی کہ ''سلطنت شاہ عالم از دلّی تا پالم‘‘ (پالم دہلی سے تین میل دور ایک گائوں ہوا کرتا تھا اور اب وہیں پر دہلی کا ایئر پورٹ ہے)۔
کون ہے جس نے مغلوں کو اپنی ٹھوکروں کا نشانہ نہ بنایا ہو؟ سکھوں نے‘ راجپوتوں نے‘ جاٹوں نے‘ افغانوں نے‘ فارسی لٹیروں نے‘ (جو قتل عام کر کے اسے بری طرح لوٹ چکے تھے) پرتگالیوں نے‘ نادر شاہ نے اور بالآخر انگریزوں نے۔ یہ سب کیونکر ہوا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایک مردہ قوم احتجاجی سطح پر خود کشی کر چکی تھی اور قومی عناصر پارہ پارہ ہو چکے تھے۔ ہندوستان ایک معاشرتی کھنڈر بن چکا تھا جو ماضی کی گم گشتہ تاریخ پر ماتم کنان تھا۔ قوم کو اس پاتال پر کسی اور نہیں‘ مغل حکمرانوں نے خود اپنے ہاتھوں پہنچایا تھا۔ سب سے بڑی ذمہ داری اورنگزیب عالمگیر پر عائد ہوتی ہے۔ ہندوستان ایک پکے ہوئے پھل کی طرح گرا چاہتا تھا اور تاریخی عمل اور جبر نے اسے انگریز کی جھولی میں ڈال دیا۔ مغلیہ دور میں باپ کی ابھی آنکھیں بند نہیں ہوتی تھیں کہ بیٹوں کے درمیان قتل و غارت گری شروع ہو جاتی تھی۔ اورنگزیب نے اپنے عہدِ حکومت کے 22 برس صرف دکن کی مضبوط مسلم ریاست بیجاپور کے قَلعہ کو فتح کرنے پر ضائع کر دیے۔ یہ وہ وقت تھا جب یورپ کے بحری قزاق ہندوستان کے ساحلوں پر بلا روک ٹوک قابض ہو چکے تھے۔ اورنگزیب کا ایک بیٹا 50 برس پہلے ناکام بغاوت کر کے اپنے باپ کے ہاتھوں قتل ہو چکا تھا۔ اورنگزیب نے اپنے سگے بھائیوں اور بیٹوں تک کو قتل کیا اور اپنے محسن بھائی مراد کو بینائی سے محروم کر دیا۔ اورنگزیب کے باقی تین بیٹے (معظم، اعظم اور کام بخش) خاندانی روایت کے عین مطابق ایک دُوسرے کو قتل کرنے میں مصروف رہے۔ آخر کار معظم اپنے دو سگے بھائیوں کو قتل کر کے (64 برس کی عمر میں) شاہ عالم کے نام سے تخت نشین ہوا۔ پانچ برس بعد اسے موت نے آ دبوچا تو اس کے چاروں بیٹوں نے ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت لیں۔ جہاندار شاہ نے اپنے تین بھائیوں کی لاشوں پر چڑھ کر اقتدار حاصل کیا۔ کچھ عرصہ گزار کر اس کے ایک مقتول بھائی کا بیٹا فرخ شیر مشہور سازشی سید برادران کی مدد سے بادشاہ بن گیا مگر انہوں نے چند سالوں بعد ہی اسے بھی مار ڈالا۔ اگلا بادشاہ افیون کے کثرتِ استعمال سے صرف تین ماہ بعد ہی مر گیا۔ آخر کار مغلیہ تخت کی لاٹری اونگزیب کے ایک پوتے محمد شاہ کے نام نکلی۔ (جسے تاریخ نے ''رنگیلا‘‘ کے نام سے یاد رکھا) اورنگزیب کے مرنے کے بعد بارہ برس میں آٹھ مغل بادشاہوں کو ''شاہ گروں‘‘ نے تحت پر بٹھایا اور ان میں سے چھ کو اپنے ہاتھوں قتل کیا۔ محمد شاہ نے ''شاہ گروں‘‘ (سید برادران) کو یکے بعد دیگرے قتل کروا دیا۔ یہ تھا مغل سلطنت کا عبرتناک انجام اور یہ تھے وہ حالات جن کے سبب برصغیر پر انگریزوں کی بالادستی کے راہ ہموار ہوئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں