لیول پلیئنگ فیلڈ

پہلے مسلم لیگ (ن) اور پھر پیپلز پارٹی کے صف اوّل کے راہ نمائوں کا یہ بیان اخبارات اور ٹیلی وژن کی زینت بنا کہ وہ آئندہ عام انتخابات (وہ جب بھی ہوں) کو صرف اُس صورت میں فری اینڈ فیئر تسلیم کریں گے جب کھیل کا میدان سب فریقوں کے لیے یکساں ہموار اور برابر (ہر لحاظ سے لیول) ہو گا۔ کالم نگار کی نسل کے لوگوں میں کوئی ایسا نہیں ہو گا جس نے مُلاّ دو پیازہ (جو خالصتاً ایک دیسی کردار تھا)، بیریل (اکبر بادشاہ کے نورتنوں میں سے ایک) اور وسطی ایشیا کے ایک کردار ملاّ نصر الدین کا نام اور ان افراد سے منسوب سدا بہار لطائف نہ سُن رکھے ہوں۔ ہمارے امیر کبیر سیاست دانوں (جو رُبع صدی سے زیادہ عرصہ تک بار بار برسر اقتدار رہ چکے ہیں) کا مذکورہ بالا بیانیہ مزاحیہ ہونے کے اعتبار سے کسی بھی قابلِ اشاعت لطیفے سے زیادہ ہنسانے والا ہے اور شاید یہ رُلانے والا بھی ہو سکتا ہے۔ ایک طرف فضائوں میں حکمران طبقہ‘ جو اُڑنے والے عقاب کی مثل ہے، عقاب بھی ایسا کہ جس کے سر پر ہُما چند سالوں کے وقفے کے بعد مسلسل بیٹھتا چلا آرہا ہے اور دُ وسری طرف عوام جو بقول اقبالؔ خاکِ راہ میں رزق ڈھونڈنے والی چیونٹی کی طرح ہیں۔ بے چارے اور بے کس۔ بے آو از اور بے وسیلہ۔ بے سہارا و بے بس۔ بے نام و نشان۔ نہ گنتی میں نہ کسی قطار میں۔ نہ تین میں نہ تیرہ میں۔ تمام حقوق سے محروم، رعایا۔ ہانکی جانے والی مخلوق کی مثل۔ جن کا قومی ترانہ اُن پر ''عوام‘‘ ہونے کی تہمت لگاتا ہے۔ اگر آئین کی رُو سے ہمارے ملک کی 99 فیصد آبادی ''جمہور‘‘ ہے تو بقول اقبالؔ‘ سلطانی جمہور کی سحر کیوں طلوع نہیں ہوئی؟ جب رعایا (ایک انقلابی اور جوہری تبدیلی کے بعد) عوام کا درجہ حاصل کرے گی تو پھر عوام اُمورِ مملکت میں شریک ہوں گے۔ جب وہ قومی وسائل کے مالک بنیں گے تو اس وقت تک سوئی ہوئی قوتِ اخوتِ عوام بھی اپنے کرشماتی کارنامے سرانجام دے گی۔ گزرے 76 برس میں اشرافیہ کا وہ طبقہ‘ جو کُل آبادی کا محض ایک فیصد ہے‘ ہمارے معاشی نظام پر پوری طرح قابض ہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا کہ فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے، ہماری رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہو نہ ہو‘ اس ایک فیصد طبقۂ اشرافیہ کے قبضے میں ضرور ہے۔ یہی حال ہمارے سیاسی نظام کا ہے۔ اُس پر بھی چند سو جاگیرداروں، سرمایہ داروں، تاجروں اور اُن کے حاشیہ برداروں کی اجارہ داری ہے اور دونوں میدانوں میں اُس نام نہاد اشرافیہ کو جرائم پیشہ مافیا کی مکمل تائید، تعاون اور اشتراکِ عمل حاصل ہے۔ بقول غالبؔ: اصل میں دونوں ایک ہیں۔
ہمارے انتخابات تو دراصل بلامقابلہ ہوتے ہیں۔ دو دھڑوں کے درمیان۔ دونوں ایک ہی طبقے سے۔ حکومت کرنے والے۔ عوام کا استحصال کرنے والے۔ ان کو انسانی حقوق سے محروم کرنے والے بلکہ ان کے منہ سے نوالہ تک چھین لینے والے۔ فلاحی مملکت کے خواب کو درہم برہم اور پریشان کر دینے والے۔ غیر ملکی (خصوصاً امریکی و برطانوی) بین الاقوامی کھرب پتی‘ مالیاتی اداروں اور کارپوریشنوں کا نمک کھانے والے اور پھر اس نمک کو حلال کرنے والے۔ حکمرانی کو اپنا پیدائشی حق سمجھنے والے۔ بقول اقبالؔ متاعِ غرور کا سودا کرنے والے۔ کھیتوں میں کاشتکاری کرنے والے اور کارخانوں میں مزدوری کرنے والوں کو اُن کے حق حلال کی کمائی سے کم از کم حصہ دینے والے۔ غیر آباد لاکھوں ایکڑ زمین کو بے زمین کسانوں میں تقسیم نہ کرنے والے۔ ہماری ہر خرابی‘ ہر بیماری‘ ہر مسئلہ‘ ہر بحران کے ذمہ دار۔ سو فیصد ذمہ دار!
کیا ان گزرے 76 برس میں ایک بار بھی ایسا ہوا کہ کوئی ریلوے مزدور، کوئی ماہی گیر، کوئی چھوٹا کسان، کوئی کانوں کی سینکڑوں فٹ کی گہرائی سے کوئلہ نکالنے والا (اور کئی بار خود کوئلہ بن جانے والا)، اپنی جان کو شدید خطرے میں ڈال کر گہرے سمندروں سے مچھلی پکڑنے والا، کوئی موٹر مکینک، بھٹہ مزدور، کوئی محنت کش صوبائی یا قومی اسمبلی کا رُکن بنا ہو۔ اُس نے پرانے زمانے میں کروڑ پتی اور ان دنوں ارب پتی اشرافیہ کے نمائندوں کو عام انتخابات میں شکست دی ہو؟ اس اندھیرے اُفق پر بہت کم لوگ ستاروں کی طرح جگمگاتے ہیں، مثال کے طور پر جڑانوالہ کے میاں عبدالباری مرحوم۔ سائیکل سوار ایم حمزہ مرحوم۔ بلوچستان سے میر غوث بخش بزنجو مرحوم اورعبدلباقی بلوچ مرحوم۔ عاصمہ جہانگیر مرحومہ اور حنا جیلانی کے بہادر والد ملک غلام جیلانی مرحوم۔ پختونخوا سے ارباب سکندر خیل اور مفتی محمود مرحوم۔ گزرے ہوئے کُل 76 سال، اور ان سالوں میں اسمبلیوں کے اراکین کی کل تعداد پانچ‘ چھ ہزار کے لگ بھگ۔ عوام دوست اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے‘ تعلیم یافتہ‘ باشعور‘ عوامی اُمنگوں کے ترجمان‘ جن کی جڑیں عوام کے دلوں میں ہوں۔ کتنی تعداد ہو گی ایسے ممبران کی؟ یقینا سو سے بھی کم یعنی ہر 50 میں سے صرف ایک۔
اس کالم نگار کی نظر میں لیول پلیئنگ فیلڈ وہ ہوگا جس میں سلطانیٔ جمہور (99 فیصد آبادی) کار فرما ہو‘ جب انتخابی نظام متناسب نمائندگی (Proportional Representation) پر مبنی ہو۔ سارے ملک میں ڈالے گئے ووٹوں کی بنیاد پر ہر سیاسی جماعت کو سیٹیں الاٹ کی جائیں۔ یہ نظام یورپ کے کئی جمہوری ممالک میں کامیابی سے رائج ہے۔ مقامی حکومتوں (ہر سطح پر یعنی گائوں، تحصیل، ضلع اور ڈویژن کی سطح پر) کا نظام متواتر اور بااختیار ہو۔ جس میں حکومت عوام سے اتنی قریب ہو جتنی زمین سے گھاس کی جڑیں۔ ہر اسمبلی میں کسانوں، مزدوروں، اساتذہ، ماہی گیروں، کان کنوں، وکلا اور مزارعین کے لیے نشستیں مخصوص کی جائیں۔ پاکستان سے باہر رہنے والے پاکستانیوں جن کے پاس صرف پاکستان کا پاسپورٹ یا شناختی کارڈ ہو، کو نہ صرف ووٹ دینے کا حق دیا جائے بلکہ ان کے لیے ہر اسمبلی میں کم از کم ایک نشست مختص کی جائے۔ بالفاظ دیگر‘ ہر وہ تدبیر اختیار کی جائے جس کی بدولت آبادی کے تمام طبقات کو اُمورِ مملکت میں شریک ہونے اور اپنے وسائل کو استعمال کرنے کا مکمل اختیار دیا جائے۔ موجودہ قابلِ صد مذمت صورتحال کی جگہ قانون کی حکمرانی اور تمام انسانی حقوق کے احترام اور آئین کی پاسداری ہو۔ وہ آئین جو 1988ء سے اُردو کو سرکاری زبان بنانے کا تقاضا کرتے کرتے تھک گیا ہے۔
ہمارے ہاں صرف دو طبقات ہیں: Haves‘ جو صرف ایک فیصد ہیں۔ اور Have Nots‘ جو99 فیصد ہیں۔ اوّل الذکر کی پانچوں کی پانچوں انگلیاں ہمارے معاشی نظام کے گھی میں دھنسی ہوئی ہیں۔ ان کے سر اقتدار کی کڑاہی میں ہیں۔ Have Nots کا کام صرف گزارہ موافق (اب تو گزارہ بھی بے حد مشکل ہو چکا ہے) کاشتکاری یا مزدوری کرنا ہے۔ انتخابات میں مقامی چودھری، وڈیرے، خان اور سردار کے اشارے پر اقتدار کے دستر خوان پر لڑنے والوں میں سے ایک کو ووٹ دینا ہے اور بس! بڑی سیاسی جماعتوں کے بڑے رہنما نوٹ فرما لیں کہ وہ جس قسم کا لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتے ہیں وہ 99 فیصد عوام کے لیے کسی اعتبار سے ''لیول‘‘ کے معیار پر پورا نہیں اُترتا۔ وہ اس نظام کو اسی حقارت سے ٹھکراتے ہیں جس کا یہ مستحق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی بڑی تعداد اب انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتی کیونکہ یہ اس کے لیے بے مقصد اور لاحاصل کارروائی ہے۔ اسے انگریزی میں Voting with Feet کہتے ہیں۔ موجودہ سیاسی اور معاشی نظام اس حد تک گل سڑ چکا ہے کہ اب قابلِ اصلاح بھی نہیں رہا۔ صرف انقلابی تبدیلیاں ہی اس نظام کو عوام دوست‘ خدمت گزار‘ دیانت دار اور قومی مفادات کے تابع بنا سکتی ہیں۔ کالم نگار پورے وثوق سے کہہ رہا ہے کہ آج بھی ہمارے خاکستر میں ایسی چنگاریاں موجود ہیں جو ہمارے مستقبل کو روشن بنا سکتی ہیں۔ خوشی اور خوشحالی کا حامل مستقبل۔ یہ کرشمہ صرف اس صورت میں رونما ہو گا جب 99 فیصد طبقہ رعایا کے بجائے عوام بنے گا۔ جب ان عوام کے درمیان اُخوت ہوگی اور یہ اُخوت ایک بہت بڑی قوت میں ڈھل جائے گی۔ یہی وہ تین کرشماتی اور طلسماتی الفاظ ہیں جو ہمارے قومی ترانے کا خلاصہ ہی نہیں بلکہ نسخہ کیمیا اور روشنی کی واحد کرن ہیں: قوتِ اُخوتِ عوام۔
76 سال پہلے کروڑوں لوگوں نے ایک باکمال قائد کا فرمان مان کر ایک ملک بنایا تھا۔ دُنیا کا پانچواں بڑا ملک۔ اب وہی قوت (کروڑوں عوام) مل کر اپنے ملک کو بچا لیں گے۔ اندھیرے کو روشنی میں بدل دیں گے۔ جلد یا بدیر! آج نہیں تو کل! یہی ازل سے تقدیر کے قاضی کا فتویٰ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں