صادق کا اللہ حافظ !

وہ بیٹی کی شادی کیلئے پریشان تھا‘ لیکن اسے بھروسا تھا کہ رب کچھ نہ کچھ کردے گا۔ صادق کو لاہور میں آئے کئی برس بیت گئے تھے‘ پہلی بار مسجد میں ملاقات ہوئی‘ تعارف بالکل سادہ کہ دیہاڑی دار مزدور اور حافظ قرآن ہے۔ میرا بیٹا ایف ایس سی کے بعد دین کی جانب راغب ہوا‘ اس کا وقت زیادہ تر مسجد میں گزرتا‘ اسی دوران وہ بھی قرآن حفظ کرنے لگا۔ صادق اور دوسرے حفاظ کا بہت احترام کرتا‘ مجھے بھی ایک بار کہنے لگا‘ جس نے قرآن اپنے سینے میں محفوظ کیا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں میں شمار ہوتا ہے۔صادق نہایت سادہ طبیعت کا مالک‘ صحیح معنوں میں بے لوث انسان‘ جسے کچھ زیادہ کی لالچ نہیں۔ ایک بار میں نے پوچھا: آپ حافظ ہیں‘ بچوں کو قرآن پڑھایا کریں۔ اس نے کہا: میں کراچی کی مسجد میں موذن رہا ہوں‘ بہاولپور کے قریب گاؤں سے گیا تھا‘ بچوں کی کفالت نہیں کرپاتا تھا‘ سوچا محنت مزدوری سے ان کاپیٹ پالا جائے‘ وہیں کام شروع کیا‘پھر کسی کے بتانے پر لاہور آگیا‘ یہاں اچھی مزدوری مل جاتی ہے‘ گھر بھی کچھ بھیج دیتا ہوں۔ انہی دنوں سردیوں کے دوران کالونی کے ایک زیر تعمیر گھر کے باہر عارضی ٹینٹ لگاکر ہلکے سے کمبل میں سوتے دیکھا تو بیٹے نے پوچھا کہ حافظ صادق کیسے گزارا کرتے ہوں گے؟میں نے جواب دیا کہ بیٹا یہ لوگ عادی ہوتے ہیں‘ انہیں زیادہ محسوس نہیں ہوتا‘ وہ بڑی حیرت سے بولا: کیا مطلب عادی ہوتے ہیں‘ انہیں سردی نہیں لگتی؟ آپ تو کہتے تھے اللہ نے جانوروں میں سردی برداشت کرنے کی قوت دی ہوتی ہے‘ ایسا تو نہیں کہاتھا کہ غریب اور مزدور بھی اسی طرح کے ہوتے ہیں۔میں لاجواب ہوگیا اور فوری توجہ ہٹانے کیلئے کہہ دیا: تم ایسا کرو انہیں کوئی گرم لباس یا اوپر اوڑھنے کے لئے کچھ دے دو۔بیٹے نے کہا‘ سلیپنگ بیگ جسے سردی میں سونے کیلئے خریدا تھا وہ دے دوں؟ میں نے کہا بالکل وہ حافظ صادق کے لیے ٹھیک رہے گا۔میں نے محسوس کیا تھا کہ وہ بڑا خود دار انسان ہے‘ کبھی مدد مانگنے کی نوبت آجاتی تو ادھار کہہ کر لیتا‘ اور واپس دے جاتا۔ میں یہی کہتا‘ رہنے دیں‘ آپ کے کام آئیں گے‘ لیکن وہ کہتا‘ نہیں اس طرح میں آئندہ کا راستہ بند کردوں گا۔
صادق کی والدہ بہت علیل تھیں اور اسے ہمیشہ ان کی فکر لاحق رہتی‘ انہیں کے علاج یا دیکھ بھال کے حوالے سے بات کرتے سنا۔ چند ماہ پہلے انہوں نے بتایا کہ میری بیٹی سمجھ دار ہوگئی ہے‘ ہم نے اپنے قریبی عزیزوں میں اس کا بیاہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ وقت آنے پر آپ کو زحمت دوں گا۔ دوسروں کی طرح ہمارے بھی مالی حالات کچھ تنگ ہی چل رہے تھے‘ میں نے پھر بھی بخوشی ہامی بھرلی۔ جب وقت آیا تو میں سوچ میں پڑگیا۔ خیر بیٹا ان دنوں پڑھائی کے ساتھ ٹیوشن پڑھا رہا تھا‘ اس نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود ہی حافظ صاحب سے کچھ تعاون کا وعدہ کرلیا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ ہاں‘ اس دوران انہیں کچھ سامان کی ضرورت تھی‘ جسے قسطوں والی کمپنی سے انہوں نے لیا‘ مگر انہیں کسی مقامی شخص کی ضمانت درکار تھی جس پر وہ پریشان ہوئے‘ مجھ سے ذکر کیا تو میں نے گارنٹی دے دی۔ اس روز سامان لے جاتے ہوئے حافظ صادق کے چہرے پر ایسا اطمینان تھا جیسے کوئی بہت بڑا مسئلہ حل ہوگیا ہو۔اس معاملے سے فارغ ہوکر واپس آئے تو سب کو کورونا میں گھرے پایا‘ ادھر حالات ایسے تھے کہ دیہاڑی ختم ہوچکی تھی‘ رہائش بھی نہیں تھی‘ کورونا کے خوف نے کسی کے در پر جانے سے روک دیا تھا‘ کوئی اپنے گھر کا دروازہ اجنبی کیا اپنوں کیلئے کھولنے کو بھی تیار نہ تھا۔ دکانیں اور ہوٹل بند‘ جیب خالی‘ کسی کا دھیان بھی نہ گیا‘ ایک روز بڑی مجبوری میں فون کیا کہ طبیعت ٹھیک نہیں‘ کچھ کھانے کو مل سکتا ہے‘ میں باہر سے لے جاؤں گا۔میرے علم میں آیا‘ دُکھ‘ شرمندگی‘ افسوس کے ملے جلے جذبات تھے کہ ہم لوگ اپنے اردگرد ایسے افراد کو نظرانداز کرکے نہ جانے کہاں کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ بیٹے نے حافظ صادق سے کہا: آپ آئیں‘ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ حکومت نے امداد کا اعلان کیا ہے‘ فلاں نمبر پر ایس ایم ایس کریں آپ کو بارہ ہزار روپے ملیں گے۔ جب انہوں نے ایسا کیا تو جواب ملا کہ آپ اس امداد کے اہل ہیں۔ وہ بھی مطمئن اور ہمیں بھی تسلی ہوگئی کہ اب کچھ ہوجائے گا۔ ابھی تعمیرانی شعبے میں کام کا اعلان ہوا‘ ہمارے جاننے والوں نے رکا ہوا کام شروع کرایا ‘میں نے ٹھیکے دار سے درخواست کی کہ انہیں اپنے ساتھ لگالیں‘ ضرورت مند بھی ہیں‘ نیکی ہوگی۔ ایسا ہی ہوا‘ لیکن حافظ صاحب کو کم خوراکی کے باعث پہلے دن کام کے دوران ہیضے کی شکایت ہوگئی۔ اگلے روز چھٹی کرنا پڑی۔ تیسرے روز ہمت کرکے کام پر آئے تو گاؤں سے اطلاع آئی کہ دس سال کا چھوٹا بیٹا شدید بیمار پڑگیا ہے‘ اس کے دماغ میں کچھ ہوگیا ہے‘ اسے ہسپتال لے جانا پڑرہا ہے۔ٹرانسپورٹ بند ہونے کے باعث وہ پریشان ہوگئے‘ ہم نے کہا: کسی پرائیویٹ گاڑی یا ٹرک میں بیٹھ کر چلے جائیں‘ حافظ صاحب نے ہمت کی اور چلے گئے۔ چند روز بعد اچانک واپس آگئے‘ اس دوران معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے کی حالت بہتر ہوگئی ہے‘ میں نے خیریت دریافت کی جواب دیا کہ ڈاکٹر کہتے ہیں دماغ میں کچھ ہوگیا ہے۔میں نے پوچھا حکومت سے پیسے ملے‘بولے نہیں میری بیوی کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ملتے تھے ‘میسج آیا تھا کہ آپ اہل نہیں آپ کی اہلیہ کو ملیں گے‘ میں نے دریافت کیا: پھر انہیں کیوں نہیں ملے؟ انہوں نے کہا کہ اب بتاتے ہیں کہ بے نظیر پروگرام میں سے اس کا نام نکل گیا ہے۔ ہم سرکاری دفتر بھی نہیں جاسکے کیونکہ وہ چالیس میل دور ہے‘ اب ایک جاننے والے کے ساتھ ٹرالر میں بیٹھ کر واپس لاہور آگیا ہوں۔
حافظ صادق آج بھی ہمیشہ کی طرح بڑی سادگی اور اطمینان سے پرامید لہجے میں یہ سب سنا رہے تھے‘ میں حیران تھا کہ یہ شخص کس مٹی کا بنا ہے‘ یہاں پیسے والا اور تہی دامن سب رو رہے ہیں ‘کسی کو کورونا کا خوف ہے اور کوئی کام بند ہونے کے کرب سے دوچار ہے۔ اسے یہ سب معلوم بھی ہے‘ لیکن اس نے نہ حکومتی اداروں کا گلہ کیا نہ سیاستدانوں کو کچھ سنایا‘ حتیٰ کہ ہم جیسوں کی سماجی دوری کے نام پر خود پر طاری کی گئی سماجی غفلت کی نشاندہی تک نہیں کی۔میں نے جان لیا کہ صادق جیسے انسان کا صرف اللہ ہی حافظ ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں