سیاسی معاملات کی حساسیت اور سنگینی کا اندازہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس میں موجودگی سے لگایا جا سکتا ہے۔ملکی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ ہے کہ ملک کے سرکردہ خفیہ ادارے کے سربراہ اس طرح میڈیا کے سامنے آئے۔ اس پریس کانفرنس میں کئی انکشافات کئے گئے جنہوں نے ملکی سیاست کا دھارا بدل کر رکھ دیا ۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بارہا سوال اٹھا چکے ہیں کہ فوجی قیادت خاموش کیوں ہے؟ جواباً کہا گیا ہے کہ ضروری ہو گیا تھا کہ پراپیگنڈہ کا جواب دیا جائے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ پچھلے ایک سال سے ادارے پر سیاسی مداخلت کیلئے دباؤ تھا۔ انہوں نے تحریک انصاف کا نام لئے بغیر کہا کہ گزشتہ حکومت نے تحریک عدم اعتماد سے پہلے سپہ سالار کو مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت تک توسیع کی پیشکش کی تھی جو مسترد کر دی گئی۔ اس سے ساری کہانی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ عمران خان چاہتے تھے کہ اقتدار بچانے کیلئے عسکری ادارے ان کا ساتھ دیں‘جب اس جانب سے غیر آئینی کردار ادا کرنے سے انکار کیا گیا تو عمران خان نے اداروں کو ہدفِ تنقید بنانا شروع کر دیا۔ اداروں کے خلاف ان کی تلخی کا سلسلہ 8 مارچ 2022ء کو پی ڈی ایم کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد شروع ہوا جس میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت آتی گئی ۔پھر انہوں نے سپہ سالار کا نام لے کر مخاطب کرنا شروع کر دیا‘ سپہ سالار کو اس طرح مخاطب کرنے کی مثال بھی ماضی میں نہیں ملتی ۔ اس کے باوجود جب تک دوسری جانب سے ریڈ لائن کراس نہیں کی گئی تب تک ادارے خاموش رہے۔ اسی دوران سینئر صحافی ارشد شریف کینیا میں شہید ہو گئے‘ عمران خان نے ارشد شریف کے قتل کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہا اور قتل کا ملبہ اداروں پر ڈالنے کی مہم شروع کر دی گئی۔ ابھی مقتول کا جسد خاکی پاکستان نہیں آیا تھا کہ سوشل میڈیا پر قومی اداروں کے خلاف پراپیگنڈہ عروج پانے لگا۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے عسکری حکام سامنے آئے اور ماضی میں جن امور پر عموماً بات نہیں کی جاتی تھی انہیں پریس کانفرنس کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کے انکشافات کے بعد عمران خان کا بیانیہ زمین بوس ہو گیا ہے۔ایک عام پاکستانی سمجھ سکتا ہے کہ عمران خان نے اقتدار کے حصول کیلئے قومی اداروں کو متنازع بنایا اور غیر آئینی اقدامات پر مجبور کیا اوراداروں کے خلاف پراپیگنڈہ کیا گیا۔
تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا لانگ مارچ کو' خونیں مارچ ‘قرار دے چکے ہیں‘ مگرانہوں نے جو پریس کانفرنس کی اسے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی قرار دے کر تحریک انصاف نے ان کی بنیادی رکنیت ختم کر کے انہیں پارٹی سے نکال دیا ہے۔ لانگ مارچ کا آغاز بھی کئی طرح کے سوالات کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ عمران خان لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان نہیں کر پا رہے تھے‘ گزرے جمعہ کو انہوں اعلان کرنا تھا مگر اسی جمعہ کو لانگ شروع کر دیا گیا۔ توقع تھی کہ لانگ مارچ میں کم لوگ ہوں گے مگر وہ لاہور میں بڑا مجمع کرنے میں کامیاب ہو گئے‘ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ عمران خان لاہور میں حسب توقع بڑا شو کرنے میں ناکام رہے‘ ان کے ہمراہ جتنے لوگ تھے اسے غیر معمولی تعداد کہنا درست نہیں۔ عمران خان پُرامید ہیں کہ جیسے جیسے ان کا قافلہ اسلام آباد کی طرف بڑھے گا لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ لاہور میں عمران خان نے ڈی جی آئی ایس آئی کو مخاطب کرتے ہوئے سخت لہجہ اختیار کیا جس پر بھارت میں جشن کا سماں ہے‘ تحریک انصاف کے رہنما اعظم سواتی اور عمران خان کے دفاعی اداروں پر تنقید والے بیانات کو جواز بنا کر بھارتی میڈیا کو پراپیگنڈہ کا موقع مل گیا ہے۔ ایک بھارتی خاتون میزبان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ آج کی تاریخ میں عمران خان میرے لئے سب سے پیارے ہو گئے ہیں کیونکہ جو کام بھارت بسیار کوششوں کے باوجود نہیں کر پایا وہ عمران خان نے کر دکھایا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کلپ میں بھارتی ٹی وی میزبان نے تحریک انصاف کے رہنما فیاض الحسن چوہان کو مدعو کر رکھا تھا‘ فیاض الحسن چوہان نے اپنے تئیں خان صاحب کے دفاع کی کوشش کی مگر ٹی وی میزبان نے برملا کہا کہ فیاض الحسن چوہان کو عمران خان کے بیان کی ہندوستانی چینل پر وضاحت کرنا مشکل ہو رہی ہے ۔ ایسے حالات میں جب قومی رازوں کا امین اور وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہنے والا شخص چوکوں چوراہوں میں قومی اداروں کے خلاف بول رہا ہو تو بھارت کے چینل کو کیسے خاموش کیا جا سکتا ہے؟
ملک کی پچھتر سالہ تاریخ اختلافات اور تصادم سے عبارت ہے‘ تاہم جب بھی سیاسی حالات کشیدہ ہوئے تو مقتدرہ ایک پل کا کردار ادا کرتی رہی اور معاملات سلجھ جاتے تھے‘ مگر اب کی بار معاملہ مختلف دکھائی دیتا ہے‘ حکمران جماعتیں ایک پیج پر ہیں‘ اپوزیشن محاذ آرائی پر تلی بیٹھی ہے‘ طاقتور حلقے وضاحتیں پیش کر رہے ہیں کیونکہ عمران خان نے ان کے کردار کو متنازع بنا کر انہیں ایک فریق بننے پر مجبور کر دیا ہے۔یوں دیکھا جائے تو ماضی کی نسبت سنگینی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ غیر سیاسی قوتوں کو راستہ فراہم کرنے کیلئے سیاسی جماعتیں خود اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی کانفرنس میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ انہوں نے ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے آئندہ کیلئے سیاسی معاملات سے دور رہنے کا واضح پیغام دیا ہے۔سیاسی معاملات سے کنارہ کشی پر اہلِ سیاست کو خوش ہونا چاہئے اور اس پریس کانفرنس کی تحسین کی جانی چاہئے مگر یہاں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی پریس کانفرنس کیلئے منظر عام پر کیوں آئے؟
لانگ مارچ کا پہلا دن تحریک انصاف کیلئے حوصلہ افزا رہا کیونکہ لاہور جیسے بڑے شہر کے اندر لوگوں کو جمع کرنا قدرے آسان تھا‘ البتہ لانگ مارچ کے پہلے دن کا اختتام کارکنان کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوا بالخصوص وہ کارکنان جو لاہور سے باہر کے اضلاع سے شامل ہوئے تھے۔ ان کیلئے رات گزارنے کا مناسب بندوبست نہیں تھا جبکہ قیادت آرام کیلئے گھروں کو چلی گئی۔ 2014ء کے آزادی مارچ میں بھی اسلام آباد پہنچنے پر شدید بد نظمی دیکھنے کو ملی تھی۔عمران خان سمیت اعلیٰ قیادت آرام کیلئے بنی گالہ چلی گئی تھی جبکہ خیبرپختونخوا سمیت ملک بھر سے آئے کارکنان کیلئے رات گزارنے کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ بہت سے کارکنان مایوس ہو کر واپس لوٹ گئے تھے۔ اگلی شب عمران خان کنٹینر پر کارکنان کے ساتھ موجود تھے۔ رہی یہ بات کہ لانگ مارچ کامیاب ہو گا یا اس کا نتیجہ 2014ء کے آزادی مارچ جیسا ہو گا تو ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ لانگ مارچ کی کامیابی کا انحصار لوگوں کی شرکت پر ہے۔
بظاہر یہی امکان دکھائی دیتا ہے کہ عمران خان مجمع کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے‘ اگر ایک لاکھ کے قریب لوگ شریک ہوگئے تو عمران خان اپنے لانگ مارچ کو کامیاب قرار دیں گے جیسا کہ وہ 2014ء کے آزادی مارچ میں کر چکے ہیں‘ اس صورت میں وہ دباؤ ڈالیں گے اور اپنی شرائط پر بات کریں گے‘ لیکن اگر لوگ پچاس ہزار سے کم ہوئے تو قانون کی بالادستی‘ اداروں کے احترام اور امن و امان کی بات کر کے واپسی کیلئے محفوظ راستے کی بات کریں گے۔