"RS" (space) message & send to 7575

بیساکھیوں کے بغیر چلنے میں دشواری

عمران خان کا پونے چار سالہ اقتدار ہیئت مقتدرہ کا مرہون منت تھا۔ خان صاحب جب اقتدار میں تھے تو اس کا اعتراف یوں کرتے کہ مقتدرہ اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ حریف جماعتوں کا مؤقف تھا کہ جب بیساکھیاں ہٹیں گی تو تحریک انصاف کی حکومت کا قائم رہنا مشکل ہو جائے گا۔ خان صاحب اور تحریک انصاف کی قیادت یہ تاثر دیتی کہ طاقتور حلقوں کے ساتھ ان کا تعلق کبھی ختم نہ ہو گا۔ انہی دنوں خان صاحب برملا کہا کرتے تھے کہ اگلی بار تحریک انصاف کی دوتہائی اکثریت کے ساتھ حکومت ہو گی۔ اس وقت حیرت ہوتی تھی کہ ہر شعبے میں ناکام ہونے کے باوجود تحریک انصاف کو دوتہائی اکثریت کیسے حاصل ہو گی؟ اب خان صاحب کے دعوؤں کی حقیقت سامنے آ رہی ہے کہ کچھ حلقوں کی جانب سے انہیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ دوتہائی اکثریت دلا کر صدارتی نظام لا کر طویل عرصہ تک خان صاحب کو اقتدار میں رکھا جائے گا‘ مگر تعلق کی اس دیوار میں مارچ 2022ء میں دراڑ پڑ گئی اور دوتہائی اکثریت والا منصوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ خان صاحب کے لانگ مارچ اور جارحانہ رویے کی وجہ محض انتخابات کا اعلان کرانا ہے تو ایسا ہرگز نہیں ‘ حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب یہ جان چکے ہیں کہ مقتدرہ کی حمایت کے بغیر ان کا اقتدارمیں آنا اور حکومت چلانا آسان نہیں ہے۔خان صاحب سمجھتے ہیں کہ اپنی مرضی کا آرمی چیف تعینات کرا لینے سے وہ اپنے مقاصد پورے کر سکتے ہیں اس لئے انہوں نے پہلے مؤقف اپنایا کہ آرمی چیف کی تقرری کے عمل کو چھ ماہ کیلئے مؤخر کر دیا جائے اور انتخابات کے بعد جو نئی حکومت آئے وہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کرے‘ جب ان کے اس مؤقف کو اہمیت نہیں دی گئی تو انہوں نے پینترا بدلا اور کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی باہمی مشاورت سے ہونی چاہئے اور یہ کہ تین نام میں پیش کرتا ہوں اور تین نام وزیراعظم شہباز شریف پیش کریں اور باہمی مشاورت سے یہ عمل پورا ہو۔ خان صاحب کا یہ مطالبہ غیر آئینی تھا اس لیے حکومت نے اسے مسترد کر دیا۔ خان صاحب بار بار ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ آرمی چیف کی تعیناتی میرٹ پر ہونی چاہیے‘ جو تعیناتی ابھی ہوئی نہیں اس کے بارے کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس میں میرٹ کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے؟ خان صاحب کا مطمح نظر غالباً یہ ہے کہ کسی طرح اپنی مرضی کا آرمی چیف تعینات کروا کر دوبارہ اقتدار میں آ جائیں۔ ذہن میں اس سوال کا جنم لینا فطری ہے کہ جب خان صاحب مقبول لیڈر ہیں‘ انہوں نے ضمنی الیکشن میں اتحادی جماعتوں کے خلاف کامیابی حاصل کر کے اپنی مقبولیت ثابت بھی کر دی ہے تو پھر انہیں کیا ضرورت ہے کہ محض اقتدار کیلئے آرمی چیف کی تقرری کو متنازع بنانے کی کوشش کریں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خان صاحب خود بھی یہ بات جانتے ہیں کہ ان کی مقبولیت کے محرکات کیا ہیں‘ اگر ان کی مقبولیت حقیقی ہوتی اور انہیں قوی امید ہوتی کہ عوام کے ووٹوں کی بدولت وہ دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں تو وہ قطعی طور پر مقتدرہ مخالف بیانیہ تشکیل نہ دیتے۔ سچ تو یہ ہے کہ خان صاحب کی ضد صرف اتنی ہے کہ مقتدرہ کے ساتھ ان کے تعلقات بحال ہو جائیں۔
حیرت تو اس بات پر ہے کہ اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد خان صاحب نے بیرونی سازش کا بیانیہ گھڑا۔ آئینی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی‘ یہ جانتے ہوئے کہ بیرونی سازش کے بیانیے میں کوئی حقیقت نہیں تحریک انصاف کی پوری قیادت خان صاحب کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی۔ اب خان صاحب امریکی سازشی بیانیے سے دستبردار ہو رہے ہیں۔سائفر کو ماضی کا حصہ قرار دیتے ہوئے امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔بقول ان کے جس ملک نے تحریک انصاف کی حکومت ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا‘ اب اس کے ساتھ تعلقات کی خواہش کیوں؟
خان صاحب آئینی معاملات کو بھی دباؤ اور دھونس کے بل پر کرانا چاہتے ہیں۔اگر آرمی چیف کی تقرری کے معاملے میں آئینی تقاضوں کو پورا کرنے کے بجائے خان صاحب کی بات کو مان لیا جائے تو پھر کل کلاں کوئی بھی آ کر ایسا ہی مطالبہ کر سکتا ہے۔ نہ صرف آرمی چیف کی تعیناتی بلکہ ہر اہم معاملے کو طاقت کے زور پر اپنی مرضی کے مطابق کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ خان صاحب آج آرمی چیف کی تقرری کو ایشو بنائے ہوئے ہیں۔ایک لمحے کیلئے فرض کرتے ہیں کہ آرمی چیف کی تعیناتی خان صاحب کے کہنے پر کر لی جاتی ہے تو کیا خان صاحب اس کے بعد خاموش ہو جائیں گے؟مجھے ایسا نہیں لگتا کیونکہ انہیں چیف الیکشن کمشنر سے بھی تحفظات ہیں پھر وہ دباؤ کے زور پر چیف الیکشن کمشنر کو ہٹانے کا مطالبہ کریں گے جس سے خلافِ آئینی اقدامات کا راستہ کھل جائے گا۔ اس لیے ایسے مطالبات کی مذمت کی جانی چاہئے۔ بظاہر دکھائی دے رہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ہی نئے آرمی چیف کی تعیناتی کریں گے کیونکہ اس معاملے کو التوا میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ جب یہ بات واضح ہو گئی تو پھر اس معاملے کو خان صاحب متنازع بنانے کی کیوں کوشش کر رہے ہیں؟
اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد خان صاحب نے پورے ملک میں بڑے جلسے کر کے سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا‘ جسے مخالفین نے بھی تسلیم کیا۔ کئی حلقوں نے بڑے جلسوں کو خان صاحب کی مقبولیت سے تعبیر کیا‘ جلسوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے‘ اگر یہ جلسے پرامن رہتے تو تب بھی کسی کو اعتراض نہ تھا لیکن احتجاج اور جلسوں کی آڑ میں راستے بند کر کے شہریوں کیلئے مشکلات پیدا کرنے کے بعد تحریک انصاف کیلئے نرم گوشہ ختم ہوا ہے۔ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ احتجاج سیاسی جماعتوں کا حق ہے مگر یہ کیسا احتجاج ہے جو چھ ماہ کے بعد بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ سیاسی احتجاج کا بنیادی مقصد مذاکرات کی راہ ہموار کرنا ہوتا ہے‘ خان صاحب احتجاج پر مصر ہیں مگر وہ سیاسی ڈائیلاگ کیلئے حریف جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے کیلئے آمادہ نہیں۔ یہ سوچ بامقصد مذاکرات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔خان صاحب کو اپنی سوچ اور رویے میں نرمی لانا ہو گی۔ اگر خان صاحب اب بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ ماضی کی طرح انہیں مقتدرہ کی حمایت حاصل ہو جائے گی اور معاملات پہلے کی طرح ہو جائیں گے تو چند وجوہ کی بنا پر ایسا ہونا آسان نہیں رہا کیونکہ خان صاحب خود معاملات کو نو ریٹرن پوائنٹ پر لے گئے ہیں۔پاک فوج بھی خود کو سیاسی معاملات سے الگ کر چکی ہے۔ ایسی صورت میں صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ خان صاحب سیاسی حریفوں کے ساتھ بیٹھیں‘ اور اپنا چارٹر پیش کریں کہ عام انتخابات کب ہونے چاہئے‘ انتخابی اصلاحات اور ووٹر لسٹوں کے حوالے سے انہیں کیا تحفظات ہیں‘ چیف الیکشن کمیشن پر اعتراض کی وجوہات کیا ہیں۔ خان صاحب کی طرف سے حریف جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے آمادگی کے باوجود اگر اتحادی حکومت میں شامل جماعتیں خان صاحب کے تحفظات کو دور کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کرتی تو قصور وار انہیں سمجھا جائے گا اور خان صاحب کا سیاسی قد کاٹھ بڑھ جائے گا۔ ہماری دانست میں عام انتخابات کا اعلان خان صاحب کا آخری مطالبہ نہیں ہے‘ اس لئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں وسیع تر مفاد کیلئے سیاسی ڈائیلاگ کریں‘ سیاسی اخلاقیات ایجنڈے کا حصہ ہونا چاہئے کیونکہ اگر جلد انتخابات کا اعلان ہو بھی جاتا ہے تو یہ ہماری پریشانیوں کا حل ہرگز نہیں ۔ پرامن انتخابات کا انعقاد اور نتائج کو تسلیم کیا جانا‘ انتخابات کے مطالبے سے اہم معاملہ ہے‘ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب سیاسی ڈائیلاگ سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیںکیونکہ بیساکھیوں کے بغیر چلنا اب انہیں دشوار لگتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں