رواں سال اپریل میں جب تحریک انصاف کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا تو خان صاحب نے جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے احتجاج شروع کر دیا۔ آئینی بحران پیدا ہونے کا اندیشہ ہوا تو نظام انصاف نے اس کا تدارک کیا۔ امریکی سائفر کی کہانی سامنے لائی گئی جس نے کچھ عرصے تک تحریک انصاف کے جلسوں میں خوب مقبولیت حاصل کی۔ خان صاحب نے ملک کے بیشتر بڑے شہروں میں بڑے بڑے جلسے کیے‘ ان جلسوں سے تحریک انصاف کے بیانیے کی مقبولیت میں اضافہ بھی ہوا۔ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی برتری نے اس مقبولیت کو دو چند کر دیا اور خان صاحب نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ 28اکتوبر کو لاہور سے شروع ہونے والا لانگ مارچ کئی مراحل میں تقسیم رہا اور 26نومبر کو راولپنڈی میں ایک بڑے جلسے کے بعد اختتام پذیر ہو گیا۔ اس جلسے میں توقع تھی کہ خان صاحب کارکنان اور پارٹی قیادت کو آئندہ کا لائحہ عمل دیں گے مگر طویل خطاب کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ ہم اس سسٹم کا حصہ نہیں رہیں گے‘ جہاں جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے‘ وہاں اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائیں گے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خان صاحب نے یہ اعلان پارٹی قیادت سے مشاورت کے بغیر کیا تھا کیونکہ انہوں نے خطاب کے دوران ہی کہہ دیا تھا کہ وہ پارٹی قیادت سے مشاورت کے بعد استعفے دیں گے۔ خان صاحب کی طرف سے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد یہ بحث شروع ہو گئی کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد خان صاحب نے جو سیاسی حکمت عملی اپنائی وہ ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے وقت خان صاحب کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ قومی الیکشن کروائے جائیں‘ اُس وقت اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے میں چونکہ سوا سال کا عرصہ رہ گیا تھا‘ اس لیے خان صاحب کا مطالبہ کسی قدر معقول بھی لگتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خان صاحب کے مطالبات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ نئے آرمی چیف کی تقرری کافی عرصہ زیرِ بحث رہی اور یوں محسوس ہونے لگا کہ اگر یہ تقرری خان صاحب کی مرضی سے ہو جائے تو انہیں کوئی شکوہ نہ ہوگا۔ اتحادی حکومت نے مگر آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے کو خوش اسلوبی سے نمٹا دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اب خان صاحب کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں رہ گیا‘ اس لیے انہوں نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہی سطور میں ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ خان صاحب خود انتخابات نہیں چاہتے‘ ورنہ وہ صوبائی اسمبلیوں سے باہر نکل جائیں تو حکومت پر اخلاقی دباؤ بڑھ جائے گا۔ خان صاحب نے مگر اس وقت اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ نہ کیا‘ اب اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے اعلان پر کس حد تک عمل ہوتا ہے‘ یہ بہت اہم ہے۔
تحریک انصاف کے لیے فوری طور پر اسمبلیوں سے باہر نکلنا آسان نہیں ہے‘ کئی قانونی رکاوٹیں حائل ہو جائیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ صوبائی اراکینِ اسمبلی بھی نہیں چاہتے کہ وقت سے پہلے اسمبلی سے استعفیٰ دیا جائے ‘البتہ اس اعلان کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ تحریک انصاف کو لانگ مارچ ختم کرنے کا جواز مل گیا ہے۔ گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران خان صاحب نے بڑی مہارت سے نوجوانوں کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا‘ اگر خان صاحب ایک کے بعد ایک بیانیہ پیش نہ کرتے تو تحریک انصاف کی پونے چار سالہ کارکردگی بارے استفسار کیا جاتا۔ اس ضمن میں دیکھا جائے تو خان صاحب کافی حد تک کامیاب دکھائی دیتے ہیں کہ انہوں نے تحریک انصاف کی کارکردگی کا بھرپور دفاع کیا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ خان صاحب نے جس مہارت سے نوجوانوں کو ساتھ جوڑے رکھا‘ کیا اگلے نو ماہ تک بھی اسی جذبے کے ساتھ جوڑے رکھیں گے؟ اس سوال کا جواب صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے فیصلے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ صوبائی اسمبلیوں میں تحریک عدم اعتماد پیش کر دی جائے اور اسمبلیاں تحلیل کرنے کی راہ میں قانونی رکاوٹ ڈال دی جائے۔ ہمیں باوثوق ذرائع نے بتایا تھا کہ 2014ء میں جب خیبرپختونخوا میں پرویز خٹک وزیراعلیٰ تھے اوروفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی تو وفاق اور صوبے میں معاملات کشیدہ ہونے پر تحریک انصاف کی طرف سے کہا گیا کہ صوبائی اسمبلی سے استعفے دے دیں گے۔ تحریک انصاف کے کئی اراکینِ صوبائی اسمبلی استعفوں کے حق میں نہیں تھے‘ حتیٰ کہ پرویز خٹک بھی نہیں چاہتے تھے کہ ان کی وزارتِ اعلیٰ ختم ہو جائے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت نے اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے پیغام بھی بھجوایا تاکہ حکومت ختم نہ ہو۔ ظاہری طور پر مگرپرویز خٹک اور دیگر اراکین یہ بیان دیتے رہے کہ اگر عمران خان انہیں استعفیٰ دینے کے لیے کہیں گے تو وہ ایک لمحہ بھی نہیں لگائیں گے۔ اب بھی صورتحال ویسی ہی ہے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے اراکینِ صوبائی اسمبلی استعفوں کے حق میں نہیں ہیں لیکن بظاہر یہی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کی طرف سے انہیں جو حکم دیا جائے گا وہ اس کی تعمیل کریں گے۔ اسمبلیوں سے باہر نکلنے کی دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ خان صاحب کسی مشکل کو پاؤں کی زنجیر نہ بننے دیں اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر گزریں۔ یہ فیصلہ حکومت اور تحریک انصاف دونوں کے لیے کسی آزمائش سے کم نہ ہوگا۔ حکومت پر نئے انتخابات کا دباؤ بڑھے گا لیکن حکومتی وسائل کے بل پر مشکلات کا سامنا کرنا آسان ہوگا جبکہ اصل امتحان تحریک انصاف کے لیے ہوگا۔ وفاق سے حکومت کے خاتمے اور صوبائی حکومتیں چلی جانے کے بعد تحریک انصاف کے لیے دورِ ابتلا شروع ہو سکتا ہے۔ صوبائی حکومتیں ختم ہونے کے بعد تحریک انصاف کے لیے آگے بڑھنا مزید دشوار ہو سکتا ہے۔
جب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی تو کئی لوگوں کی ہمدردیاں خان صاحب کے ساتھ تھیں۔کئی قریبی دوستوں نے انہیں کچھ عرصہ کے لیے خاموش رہنے کا مشورہ بھی دیا کہ جس طرح دیگر سیاسی رہنماؤں کے لیے گنجائش نکالی جاتی رہی ہے اور ایک عرصہ کے بعد وہ اقتدار میں آتے رہے ہیں‘ خان صاحب اس کے زیادہ حق دار ہیں کیونکہ عوام انہیں پسند کرتے ہیں‘ انہوں نے مگر اس مشورے پرعمل نہیں کیا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ خان صاحب نے گزشتہ آٹھ ماہ میں جو کامیابیاں سمیٹی تھیں‘ راولپنڈی کے جلسے میں ان پر پانی پھر گیا ہے جس کے بعد آگے کا سفر تحریک انصاف کے لیے مشکلات سے بھرپور ہوسکتا ہے۔ نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعد سیاسی حالات بھی تبدیل ہو جائیں گے۔ مزید یہ کہ اتحادی جماعتوں میں اس سوچ کے حامل لوگ بھی موجود ہیں جو تحریک انصاف اور خان صاحب کے احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ جس طرح تحریک انصاف کے دور میں دیگر سیاسی رہنماؤں کو کڑے احتسابی عمل سے گزارا گیا‘ تحریک انصاف کے قائدین کے لیے بھی احتساب کا وہی پیمانہ ہوسکتا ہے۔ چند ماہ پہلے تک اتحادی حکومت کے رہنماؤں کی اس خواہش پر عمل ہونا آسان نہ تھا مگر اب ایسا ہونا ممکن نظر آ رہا ہے کیونکہ تحریک انصاف کو سائبان کی کمی کا سامنا ہے۔