تحریک انصاف کیلئے پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ دلانا مشکل ہو گیا ہے‘ جبکہ پنجاب اسمبلی کے معرکہ کو سر کرنے کے بعد ہی خیبرپختونخوا کا مرحلہ آ سکے گا۔ تحریک انصاف کے اپنے اراکین چوہدری پرویز الٰہی کو ووٹ دینے پرآمادہ نہیں ‘ ان میں سے دو خواتین صوبائی اراکین تو کھل کر اظہار بھی کر چکی ہیں کہ وہ چوہدری پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ نہیں دیں گی۔186 اراکین کی حمایت میں اگر دو تین اراکین بھی ادھر ادھر ہوتے ہیں تو چوہدری پرویز الٰہی ایوان کا اعتماد کھو دیں گے۔ چوہدری پرویز الٰہی چونکہ نوشتۂ دیوار پڑھ چکے ہیں اس لئے انہوں نے اب مؤقف اختیار کیا ہے کہ اعتماد کا ووٹ نہیں لوں گا۔ چوہدری پرویز الٰہی اعتماد کے ووٹ کے حوالے سے تحریک انصاف کے بیانات کو غیر ذمہ دارانہ قرار دے چکے ہیں۔ انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ 25تاریخ کو اپنا حال یاد رکھیں جب ان کی زبانیں نکلی ہوئی تھیں۔ 25جولائی 2022ء کو ڈپٹی سپیکر کی جانب سے (ق) لیگ کے 10 ووٹ مسترد کئے جانے کے بعد تحریک انصاف بیک فٹ پر چلی گئی تھی‘ اس طنز میں دراصل چوہدری پرویز الٰہی نے پی ٹی آئی کو وہ دن یاد دلایا ہے کہ موجودہ حالات میں وہ پی ٹی آئی کیلئے کس قدر اہم ہیں۔ خان صاحب مگر 11 جنوری کو اعتماد کا ووٹ لینے پر مُصر ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ نیوٹرلز پنجاب میں پیپلزپارٹی کو لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خان صاحب کے بقول مقتدرہ پولیٹیکل انجینئر نگ کر رہی ہے‘ اس کے ثبوت میں ان کا مؤقف ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگوں سے رابطہ کیا جا رہا ہے‘ تین لوگ اس کی تصدیق کر چکے ہیں۔ خان صاحب نے نئی حکمت عملی کے تحت پارٹی اراکین کو ہدایت کی ہے کہ اگر پنجاب اسمبلی کی تحلیل میں رکاوٹ ڈالی گئی تو پی ٹی آئی اراکین مستعفی ہو جائیں گے۔ اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے خان صاحب بڑی مہارت کے ساتھ کہہ گئے ہیں کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کو لانے کا بندوبست کیا جا رہا ہے‘ یعنی خان صاحب کی اصل پریشانی یہ ہے کہ ان کے سر سے دستِ شفقت اُٹھ گیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما فوادچوہدری اس کا اظہار ان الفاظ میں کر چکے ہیں کہ اپریل میں تحریک عدم میں پی ٹی آئی کا اصل مقابلہ فوج سے تھا۔
ایک بندوبست کے ذریعے پیپلزپارٹی کو لانے کے حوالے سے خان صاحب کا دعویٰ اگر حقیقت کے قریب ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ جمہوریت کی دعویدار سیاسی جماعتیں اپنی مقبولیت کھونے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر جمہوریت کے ٹریک سے بھی اُتر چکی ہیں‘ مگر سوال یہ ہے کہ اس موقع پر جبکہ تحریک انصاف اتحادی حکومت کیلئے بڑا چیلنج نہیں رہی تو پیپلزپارٹی سیاسی بندوبست کا سہارا کیوں لے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ پی ڈی ایم سے پیپلزپارٹی کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے‘ سندھ میں اس کی حکومت برقرار ہے‘ وفاق میں وزرات خارجہ‘ سپیکر قومی اسمبلی اور کئی دیگر اہم عہدے اس کے پاس ہیں‘ سندھ حکومت کو وفاق کی بھرپور حمایت اور تعاون حاصل ہے‘ اگرچہ دوسرے صوبے بھی سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں تاہم وزیراعظم شہباز شریف کی توجہ کا مرکز سندھ ہی رہا ہے‘ فنڈز بھی سب سے زیادہ سندھ کو ملے ہیں‘ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس کے برعکس مہنگائی کا ذمہ دار مسلم لیگ( ن) کو ٹھہرایا جا تا ہے۔حکومت میں آنے کی بھاری قیمت بھی مسلم لیگ (ن) نے چکائی ہے‘ یہ اثرات آئندہ الیکشن میں بھی موجود ہوں گے۔ غالب گمان ہے کہ پیپلزپارٹی کو پنجاب میں لانے کیلئے چیئرمین تحریک انصاف نے جس سیاسی بندوبست کی جانب اشارہ کیا ہے وہ ان کے خدشات ہوں۔ خان صاحب کے خدشات کی وجہ بلوچستان کے سابق صوبائی وزیر خزانہ و تعلیم ظہور بلیدی‘ میر اصغر رند‘ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما عبدالرؤف رند‘ میر سلیم کھوسو عارف محمد حسنی سمیت سات اہم سیاسی شخصیات کی آصف زرداری سے ملاقات اور پیپلزپارٹی میں شمولیت ہو سکتی ہے۔ یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ تبدیلی کاآغاز بلوچستان سے ہوتا ہے۔ اگر ارتقائی عمل کے ذریعے پیپلزپارٹی کیلئے زمین ہموار ہو رہی ہے اور یہ پیپلزپارٹی کی مقبولیت کا نتیجہ ہے تو اگلے الیکشن میں پیپلزپارٹی کو اس کا پھل مل جائے گا‘ لیکن جس طرح اس سے پہلے تحریک انصاف کو لایا گیا اور بعدازاں گرایا‘ اگر اسی طرز پر پیپلزپارٹی مقتدرہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر اقتدار میں آنے کی کوشش کر رہی ہے تو یہ بدقسمتی ہو گی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کو اگر اپنی سیاسی مقبولیت کی بنیاد پر اقتدار چاہئے تو اسے مصطفی نواز کھوکھر جیسے دیرینہ اور مخلص جیالوں کو راضی کرنا ہو گا۔ خیبرپختونخوا میں فیصل کریم کنڈی جیسے رہنماؤں کو نوجوان پسند کرتے ہیں اور قومی سطح پر انہیں پذیرائی حاصل ہے‘آفتاب شیر پاؤ کو محترمہ بے نظیر بھٹو کا قریبی ساتھی ہونے کا اعزاز حاصل ہے‘ جب تک آفتاب شیر پاؤ پیپلزپارٹی کے ساتھ وابستہ رہے‘ پیپلزپارٹی خیبرپختونخوا میں مقبول رہی‘ جبکہ پنجاب اور دوسرے صوبوں میں دیرینہ و مخلص رہنماؤں کو راضی کر کے پارٹی کو حقیقی معنوں میں مقبول بنایا جا سکتا ہے۔ قوی امید ہے کہ پیپلزپارٹی اپنے ماضی کی طرح جمہوریت پر کاربند رہے گی‘ اس عزم کا اظہار چند روز قبل بلاول بھٹو نے پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد یوں کیا کہ مقتدرہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت سیاسی معاملات میں مداخلت کے نہ صرف خلاف ہے بلکہ اس عمل کوآئین کے خلاف بھی قرار دیتی ہے۔ ایسی صورتحال میں خان صاحب کی طرف سے یہ کہنا کہ ایک بندوبست کے تحت پیپلزپارٹی کو پنجاب میں لایا جا رہا ہے حقائق کے خلاف ہے۔ خان صاحب کا مطمح نظر یہ ہے کہ طاقتور حلقوں کے تعاون کے بغیر اقتدار میں آنا کسی جماعت کیلئے بھی آسان نہیں ہے کیونکہ ان کا اقتدار اسی کا مرہون منت تھا۔ یہ سوچ جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔ جب سیاسی جماعتیں مقبولیت کی دعویدار ہیں تو پھر اقتدار کے حصول کیلئے جمہوری راستہ اختیار کرتے ہوئے انہیں عوام کے پاس جانا چاہئے کیونکہ طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہیں‘ مگر اقتدار کے حصول کیلئے دعوؤں کے برعکس شارٹ کٹ راستوں کو اختیار کیا جاتا ہے۔ خان صاحب پی ڈی ایم کے تیرہ جماعتی اتحاد کو الزام دیتے ہیں حالانکہ سیاسی جماعتوں کاآپس میں اتحاد جمہوری طریقہ اورآئین کے مطابق ہے۔جمہوری سیٹ اَپ میں خان صاحب کا مقتدرہ سے مدد طلب کرنا غیرآئینی ہے جس سے رجوع کی ضرورت ہے۔ یہ واضح ہے کہ سبھی جماعتیں آئندہ الیکشن پر نظریں جمائے بیٹھی ہیں‘ پیپلزپارٹی کو بعض حوالوں سے دیگر جماعتوں پر سبقت حاصل ہے‘ جس کی بنا پر کہا جا رہا ہے کہ آئندہ سیٹ اَپ میں پیپلزپارٹی نمایاں ہے‘ اسی سے خان صاحب یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو ایک بندوبست کے ذریعے آگے لایا جا رہا ہے۔ تمام تر خدشات کے باوجود اگر پرویز الٰہی کو بچانے اورپیپلزپارٹی کو پنجاب میں لانے میں طاقتور حلقے ملوث ہیں تو پھر اصل ہار سیاسی جماعتوں کی ہے۔تحریک انصاف کی ہار اس لئے کہ وہ اقتدار سے باہر ہو جائے گی جبکہ پیپلزپارٹی اقتدار کیلئے مقتدرہ کا ہاتھ تھامتی ہے تو جیت کر بھی ہار جائے گی۔