"RS" (space) message & send to 7575

مقدس گریبان!

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو گرفتار کرنا انتظامیہ کیلئے ایک چیلنج تھا کیونکہ جب بھی پولیس انہیں گرفتار کرنے کیلئے پہنچتی پی ٹی آئی کے کارکن اور رہنما رکاوٹ بن جاتے۔ زمان پارک لاہور میں سینکڑوں کارکن خان صاحب کی حفاظت پر مامور رہے۔ پولیس اور کارکنوں کے درمیان چومکھی کھیل کئی دن تک چلتا رہا‘ جب نو مئی کو خان صاحب اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کیلئے حاضر ہوئے تو رینجرز نے انہیں عدالت کے احاطے سے گرفتار کر لیا۔ خان صاحب کی گرفتاری کے بعد قانونی طریقہ کار میں رہتے ہوئے ان کی رہائی کی کوشش کی جانی چاہئے تھی مگر ان کے فینز نے تصادم کا راستہ اختیار کیا‘ ملک کے بڑے شہروں میں ہنگامے پھوٹ پڑے‘ جلاؤ گھیراؤ کا ایسا سلسلہ شروع ہوا‘ کور کمانڈر ہاؤس لاہور‘ الیکشن کمیشن اور ریڈیو پشاور کی عمارتوں کو جلا دیا گیا‘ کئی بلوائیوں نے جی ایچ کیو راولپنڈی کے سامنے نفرت انگیز نعرے لگائے۔ نجی و سرکاری املاک کو جو نقصان پہنچایا گیا اس کا تخمینہ اربوں روپے بنتا ہے‘ ہنگامہ آرائی کو دیکھتے ہوئے حکومت کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا بند کرنا پڑا‘ اس مد میں ہونے والا مالی نقصان بھی اربوں روپے ہے۔ کئی لوگ زخمی ہوئے اور کچھ لوگ گمنام راہوں میں مارے گئے۔ یوں دیکھا جائے تو خان صاحب کی ایک دن کی گرفتاری کافی بھاری ثابت ہوئی۔ پی ٹی آئی قیادت اس ہنگامہ آرائی سے خود کو الگ نہیں کر سکتی‘ وہ لاکھ دعویٰ کریں مگر بلوائیوں کو قیادت کی آشیر باد حاصل تھی بلکہ درست تو یہ ہے کہ قیادت کے اکسانے پر ہی بلوائی باہر نکلے جس کے ناقابلِ تردید شواہد آڈیو کی شکل میں موجود ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری پر شدید ردِعمل دے کر پی ٹی آئی نے خود پر شدت پسندی کا لیبل لگا لیا جسے آسانی سے زائل نہیں کیا جا سکے گا۔
خان صاحب کے چاہنے والوں نے ان کی گرفتاری پر مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان ان کی ریڈ لائن ہے‘ جسے کراس کرنے پر وہ مشتعل ہوئے۔ دیکھا جائے تو کارکنوں کے اندر یہ سوچ نئی نہیں ہے‘ کارکن آن ریکارڈ یہ بات پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں تو قیادت کی طرف سے ان کی رہنمائی کیوں نہیں کی گئی؟ کارکنوں کو یہ بات کیوں نہیں بتائی گئی کہ خان صاحب سے محبت و عقیدت اپنی جگہ مگر قانون کو ہاتھ میں لینا ریاست کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔کارکنوں کو ریاست کی اہمیت اور قانون کی بالادستی بارے کچھ بتایا جاتا تو کبھی بھی جلاؤ گھیراؤ اور ہنگامہ آرائی کی نوبت نہ آتی۔ حیرت ہے ملکی املاک اور قومی اثاثوں کو جلانے پر خان صاحب کو کوئی پروا نہیں۔ عدالت میں انہوں نے اظہار کیا کہ ان کے بس میں نہیں کہ وہ کارکنوں کو روک سکیں‘ ایسا ہرگز نہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ وہ کارکنوں کو روکنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ وہ اشتعال انگیزی سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔ سیاست اگر محض لڑائی اور دنگا فساد کا نام ہے تو خان صاحب اس میں کامیاب ٹھہرے لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہے یعنی سیاست اگر ایجنڈے کا نام ہے تو خان صاحب ناکام ہو گئے۔ خان صاحب کی حالیہ سیاسی حکمت عملی سے پی ٹی آئی اور اداروں کے درمیان خلیج بڑھ گئی ہے۔ جن لوگوں نے کسی کی ایما پر کور کمانڈر ہاؤس لاہور پر حملہ کیا ان کی شناخت ہو چکی ہے‘ تصاویر میں دکھائی دینے والے اکثر چہرے کم عمر ہیں‘ وہ بہت جلد سب کچھ اُگل دیں گے‘ اصل ہدایت کاروں کے نام سامنے آ جائیں گے۔ کیا پی ٹی آئی جناح ہاؤس پر حملہ آور ہونے والوں سے لاتعلقی کا اظہار کر دے گی؟ کیا کارکنوں کو مشکل میں تنہا چھوڑ دے گی؟ پی ٹی آئی ایسے مقام پر ہے کہ نہ کلی طور پر انکار کر سکتی ہے اور نہ ہی اس کیلئے اقرار کرنا آسان ہے۔
اقتدار جانے کے بعد پی ٹی آئی اور مقتدرہ کے درمیان جو خلیج پیدا ہوئی وہ اب انتہائی حد تک وسیع ہو چکی ہے۔ نو مئی کے واقعات پر پاک فوج کے ردِعمل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معاملات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ حالیہ جلاؤ گھیراؤ نے پی ٹی آئی کی پوزیشن تبدیل کر دی ہے کیونکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ محدود تعداد میں لوگ باہر نکلے‘ عقل و خرد سے عاری اس طبقے نے پرامن طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے بجائے ملک کو جلانا شروع کر دیا‘ ہاں اگر خان صاحب کی گرفتاری پر لاکھوں لوگ باہر نکلتے تو کہا جا سکتا تھا کہ عوام حقیقی معنوں میں خان صاحب کے ساتھ ہیں۔ نو مئی کو پی ٹی آئی نے ریڈ لائن عبور کی جس پر فوج میں اداروں میں ایکشن ہے۔ ایسی اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ فوج کے بعض افسران سے استعفے طلب کر لیے گئے ہیں مگر ترجمان پاک فوج نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی سربراہی میں پاک فوج متحد ہے اور مارشل لاء کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ آرمی چیف جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ اس وضاحت کے باوجود لگتا ہے کہ فوج میں کہیں نہ کہیں تطہیر کا عمل جاری ہے۔ جیسے طوفان گزرنے کے بعد اپنے پیچھے تباہی کی تاریخ رقم کر جاتا ہے اسی طرح نو مئی اب تاریخ کا سیاہ باب بن چکا ہے پی ٹی آئی کسی بھی طرح اس سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکے گی۔
پی ٹی آئی نے پاکستان میں دراصل ترکی کی تاریخ دہرانے کی کوشش کی‘ کہ جب ہزاروں کارکن اداروں کے سامنے کھڑے ہوں گے تو ادارے بے بس ہو جائیں گے‘ لیکن یہاں پی ٹی آئی سے غلطی ہو گئی کیونکہ ترکی میں فوج نے حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی اور فوج سڑکوں پر نکل آئی تھی جبکہ یہاں پی ٹی آئی کے جتھوں نے زور زبردستی اداروں میں گھسنے کی کوشش کی۔ پی ٹی آئی کی اس منصوبہ بندی کا فوج نے تحمل اور بردباری سے جواب دیا‘ یوں فسادات برپا کرنے کی جو سازش رچائی گئی تھی وہ ناکام ہو گئی۔ بعض حلقوں میں یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ ادارے پی ٹی آئی کے ساتھ ہمیشہ امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں‘ جو کام پی ٹی آئی نے کیا ہے یہی کوئی دوسرا گروہ کرتا تو اسے نشانِ عبرت بنا دیا جاتا‘ اگر گریبان عمران خان کا مقدس ہے تو گوادر کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے والے مولانا ہدایت الرحمان اور اپنے علاقے کے لوگوں کے حقوق کی بات کرنے والے منظور پشتین کا گریبان بھی مقدس ہونا چاہئے‘ ایک ہی ملک کے شہریوں کیلئے یہ تفریق کیوں؟ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں فوجی چوکی پر نہ رکنے کی سزا گولی ہے تو پی ٹی آئی کے جتھوں کے ساتھ نرمی کا مظاہرہ کیوں کیا گیا؟
اعلیٰ عدالتوں نے عمران خان کو فوری ریلیف فراہم کیا ۔ 15مئی تک انہیں کسی بھی مقدمے میں گرفتار کرنے سے روک دیا گیا ہے‘ خان صاحب کو عدالتوں سے ریلیف ملنے پر اتحادی جماعتوں کو تحفظات ہیں‘ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ عدلیہ کے دہرے معیار نے انصاف کا جنازہ نکال دیا‘ انہوں نے پیر کو سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج کی کال دی ہے جس میں پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کی جماعتیں شامل ہوں گی۔ چودہ مئی کو الیکشن کرانے کا وقت آج پورا ہو رہا ہے‘ عدالت کیلئے فیصلہ واپس لینا بظاہر مشکل ہے‘ مذاکرات کامیاب ہو جاتے تو سب کیلئے محفوظ راستہ تھا‘ اب جو منظر نامہ بن رہا ہے وہ بہت بھیانک ہے۔ بظاہر الیکشن دور ہو گئے ہیں‘ ادارے اور اہلِ سیاست کب حتمی نتیجے پر پہنچتے ہیں تب تک کتنا نقصان ہوچکا ہو‘ کوئی نہیں جانتا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ملک و قوم کو اس متوقع نقصان سے بچانے والی دانش کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں