"RS" (space) message & send to 7575

نئے تجارتی مواقع اور پی ٹی آئی کے بیرونی وکلا

وزیر اعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے 18مئی کو پاک ایران سرحد پر مارکیٹ اور بجلی کی ٹرانسمیشن لائن کا افتتاح کیا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی یہ ملاقات کئی حوالوں سے اہم تصور کی جا رہی ہے۔ پاکستان کے چار پڑوسی ممالک ہیں‘چین‘ ایران‘ افغانستان اور بھارت۔ چین کے ساتھ ہمیشہ پاکستان کے مثالی اور پائیدار تعلقات رہے ہیں‘ لیکن سی پیک کی تکمیل سے پہلے چین کے ساتھ تجارت میں جغرافیائی رکاوٹیں حائل رہی ہیں کیونکہ گلگت بلتستان کے ساتھ 600کلو میٹر کا پاک چائنہ بارڈر دشوار پہاڑی راستوں پر مشتمل ہے‘ ان مشکلات کے باوجود مالی سال 2022ء میں پاک چین تجارتی حجم 20ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا‘ موجودہ حکومت اسے بڑھانے کیلئے کوشاں ہے اس لئے کہ پڑوسی اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مثالی تعلقات اور تجارت کے بغیر ترقی کا حصول نہایت مشکل امر ہے۔ پاکستان اور بھارت کی سرحد طویل اور آسان ہے‘ پنجاب اور سندھ کے ساتھ 2100 کلو میٹر انٹر نیشنل بارڈر‘ 202 کلو میٹر ورکنگ باؤنڈری جبکہ لائن آف کنڑول 861کلو میٹر ہے۔ پاک بھارت تعلقات کسی دور میں بھی مثالی نہیں رہے‘ اس لئے دونوں ممالک باہمی تجارت کے وسیع اور آسان مواقع سے مستفید نہیں ہو سکے۔ افغانستان کے ساتھ 2600 کلو میٹر سے زائد بارڈر ہے‘ دونوں ممالک میں تجارت کے مواقع موجود ہیں لیکن بدامنی کی وجہ سے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ پاک ایران بارڈر 959 کلو میٹر ہے اور بلوچستان سے آسان رسائی ہے‘ مگرپاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی حجم محض دو ارب ڈالر سالانہ ہے۔ اس تفصیل کے بعد پاک ایران سرحد پر وزیر اعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ملاقات کو دیکھا جائے تو نہایت اہم پیش رفت ہے۔ دوطرفہ تجارت کو قانونی شکل دینے اور سرحد پار آسان رسائی سے تجارتی حجم میں اضافہ ہو گا۔ پشین مند مارکیٹ کے افتتاح اور اسی طرز پر مزید چھ مارکیٹوں کے قیام سے پاک ایران سرحد کے قریب رہنے والے ہزاروں افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ غیر قانونی تجارت سے جو پیسہ چند افراد کی جیبوں میں چلا جاتا ہے ‘اب دونوں ریاستوں کو فائدہ پہنچائے گا۔ پولان گبد ٹرانسمیشن لائن منصوبہ کئی سال پرانا ہے اور 2009ء سے مختلف وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہوتا رہا ہے۔گزشتہ برس وزیر توانائی خرم دستگیر ایران گئے اور اس توانائی منصوبے پر رکے ہوئے کام کو دوبارہ شروع کروایا۔ 100میگا واٹ کے اس منصوبے سے گوادر کے لوگ مستفید ہو سکیں گے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات کو مذہبی عقائد مضبوط بناتے ہیں‘ حکومت نے دوطرفہ تجارتی مواقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے اقدام اٹھایا ہے‘ امید کی جانی چاہئے کہ حکومتوں کی تبدیلی سے ان منصوبوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
نئے عالمی بلاکس کی تشکیل سے عالمی اجارہ داری کے بادل چھٹ رہے ہیں‘ ہمیں بھارت کے بجائے چین‘ ایران اور افغانستان کے ساتھ تجارت کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں موجود کچھ لوگ بھارت کے ساتھ باہمی روابط اور تجارت کی بات کرتے ہیں کیونکہ چین کے طرح کئی ممالک ہیں جن کے بھارت کے ساتھ مثالی تعلقات نہ ہونے کے باوجود تجارتی تعلقات بہت ہیں‘ مگر پاک بھارت تجارت کی ہر دور میں کوششیں نام ہوئی ہیں کیونکہ ہر مرتبہ بھارت اپنے رویے سے تمام اندازوں کو غلط ثابت کر دیتا ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا دنیا نے اسے کھلی آنکھوں سے دیکھا‘ اب بھارت جی 20 کانفرنس کشمیر میں کرنے جا رہا ہے‘ بھارت کی میزبانی میں سیاحت پر جی 20 ورکنگ گروپ کا تیسرا اجلاس 22سے 24 مئی کو ہو رہا ہے‘ جس پر کشمیری سراپا احتجاج ہیں۔ پاکستان نے بھی اس پر شدید ردِعمل کا اظہار کیا ہے جبکہ چین نے کانفرنس میں شرکت سے انکار کیا ہے۔ انڈونیشیا کی شرکت بھی واضح نہیں ۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ترکیہ بھی جی 20کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا۔ تحریکِ آزادیٔ کشمیر نے بھی لندن سے گلاسکو تک احتجاج کا اعلان کیا ہے جس میں اگست 2019 ء کے بھارت کے یکطرفہ اقدام اور دس لاکھ بھارتی افواج کی مقبوضہ کشمیر میں تعیناتی اور کشمیریوں پر بھارتی مظالم بارے دنیا کو آگاہ کیا جائے گا۔ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد وہاں سیاحتی مقامات سے فائدہ اٹھانے کیلئے معاشی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں‘ شاید مودی کا یہی مطمح نظر تھا۔ کشمیریوں کیلئے زندگی اجیرن بنانے کے بعد مودی وہاں پر معاشی سرگرمیوں میں مصروف ہیں‘ یہ اہلِ کشمیر کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ چونکہ پاکستان جی 20 ورکنگ گروپ کا رکن نہیں اس لئے اقوام متحدہ کو بھارتی اقدامات کا نوٹس لینا چاہئے۔
اہلِ سیاست کیلئے گرفتاریاں‘ قید و بند‘ اور جیلیں کوئی نئی بات نہیں‘ مشکل وقت گزر جانے کے بعد اہلِ سیاست ان مشکلات پر فخر کرتے ہیں۔ زیرک اور دانا سیاستدان مناسب وقت کا انتظار کرتا ہے‘ خان صاحب مگر اس حوالے سے اعصابی طور پر کمزور ثابت ہوئے ہیں۔ وقتی مشکلات پر تحمل کے بجائے خان صاحب نے دنیا سے مدد مانگنا شروع کر دی ہے کوئی ملک یا شخصیت اپنی طرف سے خان صاحب کی حمایت میں کچھ بولے تو الگ معاملہ ہے‘ اس طرح کی حمایت کی درجنوں مثالیں موجود ہیں‘ مثلاً میاں نواز شریف کے لیے سعودی عرب نے مصالحت کی کوشش کی۔مصالحت اور صلح کی حد تک بات سمجھ میں آنے والی ہے‘پی ٹی آئی نے اس کے برعکس راستہ اختیار کیا۔پی ٹی آئی قیادت نے یورپی یونین‘ آسٹریلیا اور امریکہ کو خطوط لکھنا شروع کر دیے۔ ان کوششوں کے باوجود کوئی ملک یا نامور شخصیت مصالحت کیلئے آگے نہیں بڑھی‘ چند ایک افراد نے ذاتی طور پر پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کوشش کی‘ زلمے خلیل زاد ان میں سرفہرست ہیں جو عمران خان کے حق میں کئی بیانات دے چکے ہیں۔ ان کا حالیہ بیان سمجھ سے بالاتر ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں عدم استحکام خطے میں جنگ کا باعث بن سکتا ہے‘ زلمے خلیل زاد نے یہ بتانا گوارہ نہیں کیا کہ پاکستان کے اندرونی سیاسی مسائل جنگ کا پیش خیمہ کیسے بن سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے‘ مگر یہ بتانا پسند نہیں کیا کہ وہ دشمن کون ہے؟ زلمے خلیل زاد نے پاکستان کے سیاسی و عسکری رہنماؤں کو رابطے کا مشورہ بھی دیا‘ مگر کس حیثیت سے؟ زلمے خلیل زاد کے پاس اس وقت کوئی عہدہ نہیں ‘ وہ اپنی موجودگی کا احساس دلانے کیلئے بیانات دیتے رہتے ہیں جنہیں سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں۔ ان کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کا یہ بیان ہی کافی ہے کہ زلمے خلیل زاد ملک کی خارجہ پالیسی کی نمائندگی نہیں کرتے اور صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی جانب سے بیان نہیں دیتے۔ ایک ایسا شخص جسے امریکہ میں اہمیت نہیں دی جا رہی پی ٹی آئی اسے اپنے حق میں توانا آواز سمجھ رہی ہے۔پی ٹی آئی کی قیادت کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ نو مئی کے بعد حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے کئی لیڈر خان صاحب کے ساتھ کھڑا ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ان پرتشدد واقعات کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ خان صاحب کارکنان کو احتجاج کی کال نہیں دے سکتے۔ چہ جائیکہ زلمے خلیل زاد جیسے لوگ باہر بیٹھ کر ان کیلئے صدائے احتجاج بلند کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں