ستمبر 2022ء میں جب اسحاق ڈار کی لندن سے واپسی ہوئی تو لوگ پُرامید تھے کہ وہ اپنے طویل تجربے سے ملک کو معاشی بحران سے باہر نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان سے توقعات وابستہ کرنے کی بنیادی وجہ ان کا سابقہ ریکارڈ تھا۔ 2014ء میں انہوں نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو مستحکم کیا اور میاں نواز شریف کے ترقیاتی وژن کو آگے بڑھایا۔ ستمبر 2022ء میں ڈالر کی قدر میں 10روپے کی کمی کو اسحاق ڈار کی واپسی سے جوڑا گیا۔ ڈار صاحب کے کریڈٹ پر کئی کامیابیاں ہیں۔ 1998ء میں جب پاکستان پر ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں اقتصادی پابندیاں لگیں تو ڈالر کے مقابلے میں روپیہ اپنی قدر کھو چکا تھا‘ اُس وقت بھی اسحاق ڈار نے روپے کی قیمت اور مجموعی معیشت کو مستحکم کیا تھا۔
اسحاق ڈار سے پہلے مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ تھے۔ مفتاح اسماعیل کو وزارتِ خزانہ کے عہدے سے ہٹاتے وقت جو معاشی چیلنجز درپیش تھے‘ وہ آج بھی موجود ہیں بلکہ شدت اختیار کر چکے ہیں۔ مفتاح اسماعیل نے بطور وزیر خزانہ جس معاشی سمت کا تعین کیا تھا‘ اگر اس پر گامزن رہا جاتا تو طویل سفر کم ہو سکتا تھا۔ آج آٹھ ماہ گزر چکے ہیں مگر آئی ایم ایف کیساتھ مالی پیکیج بحال ہوا ہے اور نہ معاشی سمت کا تعین ہو سکا ہے۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ مفتاح اسماعیل نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر پورا سچ قوم کے سامنے رکھنے کی کوشش کی تھی اور مؤقف اختیار کیا تھا کہ ٹیکس دیے بغیر کوئی ملک ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی معاشی بحران سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس سچ کے بعد انہیں فوراً وزارتِ خزانہ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور اسحاق ڈار اس مسند پر فائز ہو گئے‘ جنہوں نے گزشتہ نو مہینوں میں مختلف معاشی تجربات کیے‘ ان کے پاس وسیع اختیارات ہیں‘ مفتاح اسماعیل جن سے محروم تھے۔ اسحاق ڈار بظاہر کسی کو جواب دہ نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود معاشی مسائل جوں کے توں ہیں۔ بجٹ2023-24 ء کو ہم نے متوازن بجٹ قرار دیا مگر بجٹ منظور کرتے وقت اس کی ہیئت تبدیل کر دی گئی ہے‘ اس میں نئے ٹیکسز شامل کر دیے گئے ہیں جو غریب عوام کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنیں گے۔
کیا یہ درست نہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدے میں اصل رکاوٹ خود اسحاق ڈار ہیں‘ وہ مسلسل بیانات دیتے رہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کوئی مشکل کام نہیں‘ میں برسوں سے انہیں ڈیل کرتا آیا ہوں اور اب بھی میں انہیں ڈیل کر سکتا ہوں۔ مفتاح اسماعیل بالکل درست لائن پہ تھے مگر اسحاق ڈار کی طرح انہیں یہ رعایت نہ مل سکی‘ مفتاح اسماعیل نے ڈالر کو مارکیٹ ریٹ پر چھوڑنے کی پالیسی دی تھی‘ آج اسحاق ڈار وہی پالیسی اپنانے پر مجبور ہیں۔ مفتاح اسماعیل جو فیصلے شروع کے چھ ماہ میں کرنا چاہتے تھے‘ اسحاق ڈار نے وہ فیصلے کرتے ہوئے آٹھ ماہ لگا دیے‘ یوں آئی ایم ایف کی شرائط مزید سخت ہوتی گئیں اور معاملات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ ایک طرف سے ہمیں آئی ایم ایف پیکیج کی اشد ضرورت ہے تو دوسری طرف زرِمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر ہیں۔ بیرونی ادائیگیوں کیلئے ہمیں ڈالرز کی ضرورت ہے‘ دوست ممالک کے مالی تعاون کو بیرونی ادائیگیوں میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ چین کے علاوہ کسی دوست ملک نے تعاون نہیں کیا ہے ہاں جو رقم ہم نے ادا کرنی تھی ان پرانے قرضوں کو رول اوور یعنی ادائیگی میں توسیع کر دی گئی ہے جبکہ ہمیں فوری طور پر ڈالرز کی ضرورت ہے۔ ڈالرز کا بندوبست نہیں ہوتا ہے تو ہم شدید معاشی بحران کا شکار رہیں گے اور نوبت دیوالیہ پن تک بھی جا سکتی ہے۔ ان حقائق کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آئی ایم ایف کی ہر شرط کو من و عن تسلیم کرنا تھا تو پھر اتنی تاخیر کیوں کی گئی‘ ان نو ماہ کے دوران ہونیوالے معاشی بحران کا ازالہ کیسے ممکن ہو پائے گا؟ دہشت گردی کے خلاف 13 برسوں میں 130 ارب ڈالرز کا مالی نقصان ہوا ہے جبکہ چند برسوں میں معاشی تجربات سے 135 ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔
ہمارا معاشی بحران کسی ایک شخصیت یا محض اندرونی عوامل سے متعلق نہیں ہے‘ نہ ہی وزیر خزانہ کی تبدیلی اور معاشی حکمت عملی تبدیل کرنے سے مسائل حل ہونے والے ہیں جب تک کہ ہم بیرونی عوامل کا ادراک نہیں کر لیتے۔ جب تک ہم اس گیم کو عالمی تناظر میں نہیں دیکھیں گے کچھ سمجھ نہیں آئے گی۔ معاشی گیم چین اور امریکی قیادت میں شروع کی گئی مغربی جنگ ہے۔ چین تیز ترین ابھرتی معاشی طاقت ہے جو دنیا کے بے شمار ممالک کو ایک پُرکشش ماڈل مہیا کر رہا ہے۔ امریکی ماڈل جنگ اور لوٹ مار کا ماڈل ہے‘ اس کے مقابلے میں چین کا بیلٹ اینڈ روڈ ماڈل ہے جو معاشی ترقی کا ماڈل ہے‘ جس کے خلاف مغربی دنیا بہت ہی طاقتور پروپیگنڈا کر رہی ہے اور ہماری سابقہ حکومت نے بھی چین کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی حتیٰ کہ چینیوں پر کرپشن کے الزامات بھی لگائے گئے۔ اب یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے جبکہ چین راستے کے پتھروں سے الجھنے کے بجائے منزل پر اپنی نظریں جمائے مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک چین کی معاشی پالیسی کو تسلیم کر چکے ہیں اور کوشاں ہیں کہ وہ بھی ترقی کے اس ماڈل سے مستفید ہو سکیں۔ اب جا کر یورپی یونین کو ہوش آئی ہے اور اس نے ترقی کا مقابلہ ترقی سے کرنے کے لیے ''گلوبل گیٹ وے‘‘ کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا ہے تاہم گلوبل گیٹ وے کے 300ملین یوروز کا مقابلہ ایک سے آٹھ ٹریلین ڈالر کے بیلٹ اینڈ روڈ سے نہیں ہو سکتا۔ چین اس لڑائی میں اس لیے بھی جیتے گا کیونکہ وہ ہائی مورال گراؤنڈپہ ہے اور اس کے مقابل امریکہ و یورپ‘ جنگ اور خون کا ماڈل پیش کرتے ہیں۔ ترقی کے اس ماڈل کو دیکھا جائے تو ساری کہانی سمجھ آ جاتی ہے کہ ہمیں کن ناکردہ گناہوں کی سزا مل رہی ہے۔
آئی ایم ایف سامراجی نمائندہ ادارہ ہے‘ جس پر امریکہ و یورپی ممالک کا اثر و رسوخ ہے۔ بھارت بھی اس گٹھ جوڑ میں شامل ہو چکا ہے۔ مودی کے دورۂ امریکہ میں اس اشتراکِ باہمی کی جھلک دیکھنے کو ملی۔ دونوں ممالک کے مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کا تاثر دیا گیا۔ یہ گٹھ جوڑ پاکستان کی قسمت کا کیا فیصلہ کرے گا‘ اسے سمجھنے کیلئے افلاطون کی عقل کی ضرورت نہیں ہے‘ اس لیے جس قدر جلد ممکن ہو آئی ایم ایف سے جان چھڑا لینی چاہیے تاکہ ہم اس معاشی دلدل سے نکل سکیں۔ ہماری معیشت 75برس تک امریکی امداد اور اثر و رسوخ کی مرہونِ منت رہی ہے‘ ہمارے لیے فوری طور پر امریکی کیمپ سے نکلنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔ حالیہ معاشی بحران اُس سلسلے کی ایک کڑی ہے جو مشکلات آگے آ سکتی ہیں۔ امریکی کیمپ سے نکلنے کیلئے ایک طریقہ کار وہ تھا جو چیئرمین پی ٹی آئی نے اختیار کیا اور ببانگ دہل کہہ دیا کہ ہم روس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ طریقہ کار مہلک ثابت ہوا۔ نقصانات اٹھانے کے بعد انہیں رجوع کرنا پڑا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم آہستہ آہستہ غیر محسوس انداز سے امریکی کیمپ سے نکلتے چلے جائیں۔ امریکہ کو اپنا کچھ نقصان کرکے احساس ہو گا کہ پاکستان کو مکمل طور پہ چین کی طرف دھکیل کر اس نے کتنی بڑی غلطی کر دی‘ مگر تب تک تاخیر ہو چکی ہو گی۔ مقتدرہ کو بھی امریکی شکنجے سے غیر اعلانیہ طور پہ دوری اختیار کرنا ہو گی‘ معاشی تجربات سے گریز کرنا ہوگا۔ جس طرح مرض کی تشخیص کے بغیر علاج ممکن نہیں ہوتا‘ اسی طرح معاشی بحران کے اندرونی و بیرونی عوامل کا ادراک کیے بغیر اس گرداب سے نکلنا آسان نہیں ہو گا۔