باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام کے ورکرز کنونشن میں ہونے والے خود کش حملے نے خیبرپختونخوا کے عوام میں بیداری کی لہر پیدا کر دی ہے۔ سوات اور وزیرستان میں پے در پے حملوں کے بعد اگرچہ ''اولسی پاسون‘‘ کے نام سے دہشت گردی کے خلاف عوامی تحریک زور پکڑ رہی تھی‘ جس کا مطلب عوامی بیداری ہے‘ سوات میں '' اولسی پاسون‘‘ کے تحت ہونے والے احتجاج نے پچھلے سال اسی بنا پر توجہ حاصل کی تھی کہ اس احتجاج میں کسی بھی سیاسی جماعت کا جھنڈا نہیں تھا‘ تاہم اب باجوڑ حملے کے بعد یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ آخر خیبرپختونخوا کے پختون علاقے ہی دہشت گردی کا نشانہ کیوں بن رہے ہیں؟ افغان سرحد پر جب باڑ لگا دی گئی‘ فوج اور ایف سی اہلکار تعینات ہیں‘ افغان شہریوں کے آنے جانے کیلئے ویزا کی شرط ہے‘ مخصوص بارڈر پر طے شدہ طریقہ کار کے بغیر آمد و رفت پر پابندی ہے تو پھر دہشت گرد کہاں سے آتے ہیں؟ خفیہ ادارے ان دہشت گردوں کا کھوج لگانے سے قاصر کیوں ہیں؟ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں صرف جولائی کے مہینے میں دہشت گردی کے 54 واقعات ہوئے جبکہ اس سال کے پہلے سات ماہ کے دوران 18 خودکش دھماکے ہو چکے ہیں۔ اس قلیل عرصے میں 200سے زائد افراد شہید جبکہ پانچ سو کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ انسٹیٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کے اعداد وشمار کے مطابق دہشت گردی کے واقعات میں خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف مبہم ریاستی اور سیاسی پالیسی کے باوجود پولیس شدت پسندی کے سامنے آہنی دیوار کی طرح کھڑی ہے۔ پولیس آفیسر اور ہمارے دوست خورشید عالم جیسے کیسے کیسے ہیرے دھرتی کی حفاظت میں خاک میں مل گئے۔ مئی 2023ء میں کرم ایجنسی میں سات اساتذہ کا بے رحمانہ قتل اور اسی روز آرمی کے چھ جوانوں کی شہادت معمولی واقعات نہیں تھے۔ جب قبائلی اضلاع میں شرپسند عناصر مضبوط ہو رہے تھے تو اس کا فوری سدباب ہونا چاہیے تھا مگر ارباب ِاختیار سیاسی معاملات میں مگن رہے اور آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ سیاسی جماعتوں کیلئے انتخابی مہم چلانا آسان نہیں رہا۔
دہشت گردی کے خلاف ''اولسی پاسون‘‘ عوامی احتجاج تھا‘ یہ مہم شاید اس وجہ سے زیادہ پذیرائی حاصل نہ کر سکی کیونکہ عوام کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ باجوڑ حملے کے بعد عوامی اور سیاسی سوچ ایک جگہ پر جمع ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ باجوڑ حملے کے تناظر میں مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت پشاور میں ہونے والا قبائلی عمائدین کا جرگہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے‘ جرگے میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ریاستی اداروں کو بیگناہ عوام پر کریک ڈاؤن کرنے کے بجائے سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنا چاہیے تاکہ دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنایا جا سکے۔ جرگے میں فوجی آپریشنز کو مسئلے کا حل قرار نہیں دیا گیا بلکہ مطالبہ کیا گیا کہ ماضی میں فوجی آپریشنز کے دوران جو لوگ متاثر ہوئے‘ ان کے نقصانات کا ازالہ کیا جانا چاہیے۔جرگے نے کُل جماعتی کانفرنس کا مطالبہ کیا ہے‘ یہ مطالبہ پشاور پولیس لائن حملے کے بعد بھی سامنے آیا تھا لیکن عملی شکل اختیار نہ کر سکا۔ پشاور پولیس لائن پر حملہ جنوری 2023ء کے آخر میں ہوا تھا‘ چھ ماہ کا عرصہ گزر گیا ‘مگردہشت گردی کے معاملے پر کُل جماعتی کانفرنس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور جب دوبارہ ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تو کُل جماعتی کانفرنس کی پھر یاد آ گئی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے میں ہماری قیادت کس قدر سنجیدہ ہے اور ہماری پالیسی کتنی مستحکم ہے۔ قبائلی جرگے کی طرف سے کُل جماعتی کانفرنس کا مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند روز بعد اسمبلیاں تحلیل ہونے والی ہیں۔ موجودہ حکومت کی چھتری تلے کُل جماعتی کانفرنس کا انعقاد مشکل دکھائی دیتا ہے تاہم قبائلی روایات سے واقفیت رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ پختون سماج میں جرگے کو کیا اہمیت حاصل ہے۔ جرگے میں دہشت گردی کے حالیہ واقعے یا کسی خاص علاقے میں کارروائی کے مطالبے کے بجائے خیبرپختونخوا کے دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کو شدت پسندوں سے محفوظ بنانے کا ریاست سے مطالبہ کیا گیا ہے۔ عام انتخابات سے قبل ان مطالبات پر کیسے عمل ہو پائے گا‘ ریاستی اداروں کو بہرصورت اس کا حل نکالنا ہو گا۔ ماضی قریب میں ریاستی اداروں نے دہشت گردوں کے متعدد گروہوں کے خلاف کارروائیاں کیں ‘ مختلف ادوار میں دہشت گردی کے خاتمے کا دعویٰ بھی کیا جاتا رہا ہے مگر دہشت گردی کا ہر نیا واقعہ ہمارے دعووں کی تردید کرتا رہا اس لئے ضروری ہے کہ خیبرپختونخوا میں بالخصوص اور ملک کے دوسرے حصوں میں بالعموم دہشت گردی کے محرکات کا جائزہ لیا جائے۔یہ اسی صورت ممکن ہے جب سیاسی جماعتیں اور ریاستی ادارے ایک چھتری تلے جمع ہو کر دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیں گے۔ الیکشن کو پُرامن بنانا ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے مگر اس سے کہیں زیادہ اہم شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ہے۔دہشت گردی کے حوالے سے ایسا بندوبست کیا جانا چاہئے جو الیکشن کے انعقاد تک محدود نہ ہو۔
ان سطور کی تحریر کے وقت چیئرمین پی ٹی آئی کو توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے تین سال قید اور پانچ سال کیلئے سیاست سے نااہلی کی سزا کا فیصلہ سنا دیا ہے ‘ جس کے بعدلاہور سے ان کی گرفتاری بھی عمل میں آ چکی ہے۔ان کی نااہلی کے فیصلے سے پاکستان کی سیاست اور آنے والے انتخابات پر اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ پاکستان کی سیاست میں پارٹی سربراہ کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ نو مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد پی ٹی آئی پرامن احتجاج کے حق سے بھی محروم ہو چکی ہے۔ لوگ چیئرمین پی ٹی آئی کو ریڈ لائن قرار دیتے تھے اور نو مئی کو چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری پر ردعمل کے طور پر حساس تنصیبات کو جلانا شروع کر دیا ‘مگر آج پی ٹی آئی کی صفوں میں مکمل خاموشی ہے۔ پی ٹی آئی کو جن مشکلات کا سامنا ہے یہ سیاست کا حصہ تصور کی جاتی ہیں‘ تاہم فرق یہ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتیں ایک عرصہ سے جن مشکلات کا سامنا کر رہی تھیں تحریک انصاف کو اس سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو شاید اسلئے بھی زیادہ پریشانی ہے کیونکہ پارٹی میں ان کا متبادل نہیں ہے اس کے برعکس دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت جب مشکلات کے باعث بیرون ملک جانے پر مجبور ہوئی تو ان کے خاندان میں کوئی نہ کوئی ایسی شخصیت موجود تھی جس نے پارٹی کو سنبھالے رکھا اور کارکنان نے اس پر اعتماد کیا‘ مگرپی ٹی آئی میں چیئرمین کے مائنس ہونے کی صورت میں قیادت سے محروم ہو جائے گی۔
توشہ خانہ کیس کو چیئر مین پی ٹی آئی اور ان کے وکلا نے ٹالنے کی پوری کوشش کی کیونکہ ان کے پاس اس کیس کے دفاع میں کچھ بھی نہیں تھا۔ اپیل میں وکلا ممکن ہے یہ کہیں کہ انہیں سنا ہی نہیں گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ جان بوجھ کر پیش نہیں ہوتے رہے‘ بتیس تینتیس تاریخیں ہوئیں اس دوران مختلف حیلوں بہانوں سے چیئرمین پی ٹی آئی عدالت میں پیش ہونے سے کتراتے رہے۔ اگر ان کا دامن صاف تھا تو وہ عدالتوں کا سامنا کرنے سے کیوں گریزاں رہے؟ نو مئی کے بعد پیدا ہونے والے حالات نے چیئرمین پی ٹی آئی کو سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا ہے‘ امید ہے تنہائی میں وہ خود احتسابی کریں گے اور جائزہ لیں گے کہ مقبولیت سے غیر مقبولیت کے اس سفر کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر چیئرمین پی ٹی آئی اس سوال کا جواب جاننے میں کامیاب ہو گئے تو ان کی سیاست باقی رہے گی اور وہ کم بیک کریں گے بصورت دیگر پی ٹی آئی کے لیے مشکلات بڑھتی جائیں گی۔