ہمارے ملک میں‘ جہاں جمہوری نظام کمزور ہے‘ وقفے وقفے سے نئے نظام کی صدائیں بلند ہوتی رہتی ہیں۔ ایسی صدائیں لگانے والوں کی اکثریت یہ تک نہیں جانتی کہ نیا نظام کیسا ہو گا اور اسے نافذ کرنے کے لیے کتنا عرصہ درکار ہو گا؟ یہ درست ہے کہ کسی بھی ملک کے ترقی کے ماڈل سے سیکھا جا سکتا ہے مگر کسی ملک کے نظام کو اپنے ہاں نافذ کرنا قطعی آسان نہیں ہوتا کیونکہ ہر ملک کے حالات اور تقاضے الگ ہوتے ہیں جنہیں مقامی سطح پر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ دنیا کے اکثریتی ممالک میں جمہوری نظام رائج ہے۔ مورخین جمہوریت کو پانچ ہزار سالہ انسانی تجربے کا نتیجہ قرار دیتے ہیں‘ اس لیے دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے فی الحال یہی نظام قابلِ قبول سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے جب ہم کسی بحران کا شکار ہوتے ہیں تو اس سے نکلنے کی سبیل تلاش کرنے کے بجائے نظام کی تبدیلی کی بات کرنے لگتے ہیں‘ یوں ہم مقصد اور منزل سے مزید دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس وقت کی کامیاب اقوام کا ارتقائی سفر بھی مشکلات سے خالی نہیں تھا۔ اُن کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہو گا کہ انہیں کن کن مشکلات سے گزرنا پڑا۔ ہمیں اس وقت جن مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے‘ کوئی نیا نظام یا کوئی باہر سے آ کر ہمارے ان مسائل کو حل نہیں کرے گا بلکہ ہمیں خود اپنے مسائل حل کرنا ہوں گے۔ جب مشکلات کسی قوم کو گھیر لیتی ہیں تو اس سے نجات کے لیے طویل عرصہ اور مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے‘ لیکن ہم کوشش کے بجائے کسی کرشمے کے منتظر ہیں۔ اس میں قوم کا کوئی قصور نہیں کیونکہ ماضی میں قوم کو سہانے مستقبل کے خواب دکھائے گئے‘ اقتدار میں آنے کے بعد سب ٹھیک کرنے کے وعدے کیے گئے‘ اس ضمن میں کسی ایک لیڈر کا نام نہیں لیا جا سکتا ہے کم و بیش ہر لیڈر نے قوم کو سہانے خواب دکھائے۔ کسی لیڈر نے یہ تکلف نہ کیا کہ قوم کو حقیقی مسائل سے آگاہ کرتا اور یہ باور کرواتا کہ جب تک من حیث القوم ہم مشکلات کا سامنا نہیں کریں گے‘ ہماری مشکلات ختم نہیں ہوں گی۔
پاکستان میں رائج جمہوری نظام شخصی پالیسیوں کے گرد گھومتا ہے۔ ہر وزیراعظم نے اپنے پیشرو کی پالیسیوں کو غلط گردانا اور نئی پالیسیاں متعارف کرائیں۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ کسی دور میں بھی ترقی کے سفر میں تسلسل باقی نہ رہا۔ یہاں ایک فلائی اوور سے لے کر بڑے بڑے منصوبے کو رول بیک کرنے تک کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ سیاسی لیڈروں نے جس انداز میں اپنے اپنے حامیوں کی ذہنی آبیاری کی‘ دھیرے دھیرے ہمارا مجموعی قومی مزاج ویسا ہی بن گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ قوم لیڈروں کی بات پر یقین کرنے کے لیے تیار ہے اور نہ طویل سفر یا جدوجہد کے لیے آمادہ ہے۔ قلیل مدتی سیاسی بندوبست نے پالیسیوں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں‘ اس لیے ہمیں فوری طور پر دو کام کرنے کی ضرورت ہے‘ طویل المدتی سیاسی بندوبست اور حقیقی جمہوری پالیسیوں کا اجرا و تسلسل۔ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں جتنے تجربات ہو چکے ہیں‘ شاید ہی کہیں اور ہوئے ہوں‘ اس لیے اب ہمیں نئے تجربات کے بجائے یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ یہاں کسی قسم کا ہائبرڈ یا غیر جمہوری نظام نہیں چلے گا۔ عوام جن نمائندوں کو منتخب کریں ان کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے‘ عوامی مینڈیٹ سے قائم ہونے والی حکومت اگر ڈیلیور نہیں کرے گی تو عوام اگلے انتخابات میں اسے ووٹ کی طاقت سے مسترد کر دیں گے۔
ایک منتخب جمہوری حکومت آئین و قانون کے تابع ہونی چاہیے‘ تاہم ہمارے ہاں سیاسی حکمت عملی ہی منتخب حکومت کی پالیسی ٹھہرتی ہے۔ ایک سیاسی جماعت اگر انتخابی مہم میں جارحانہ پالیسی اپناتی ہے تو حکومت قائم ہونے کے بعد بھی اس کی یہ پالیسی جاری رہتی ہے جیسا کہ تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں ہوا۔ عوام نے ایک سیاسی جماعت کو مسائل کے حل کے لیے مینڈیٹ دیا تھا مگر وہ قیمتی عرصہ کمزور پالیسی کی نذر ہو گیا۔ اس میں دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے سیکھنے کا سامان موجود ہے کہ جو غلطی تحریک انصاف نے کی تھی وہ دوسری سیاسی جماعتیں نہ دہرائیں۔ مسلم لیگ (ن) نے شاید انتخابات سے قبل اس مسئلے کا ادراک کر لیا ہے۔ میاں نواز شریف نے چند روز قبل جارحانہ بیانیہ اپناتے ہوئے کچھ نام لے کر ان کے احتساب کا مطالبہ کیا تھا‘ بعد ازاں لندن میں ہونے والی لیگی قیادت کی بیٹھک میں وہ اس مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے۔ بعض حلقے مسلم لیگ (ن) کی اس پالیسی کو وقت کی ضرورت کے بجائے نظریۂ ضرورت سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اسے جو نام بھی دیا جائے‘ ملک و قوم کا مفاد اسی میں ہے کہ تصادم سے گریز کیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت شاید یہ جان چکی ہے کہ الیکشن سے پہلے کوئی ایسی غلطی نہیں کی جانی چاہیے جو پارٹی کو اقتدار سے دور لے جائے‘ جیسا کہ ماضی میں ہوا۔ مسلم لیگ (ن) میں یہ سوچ بھی موجود ہے کہ جب مقتدرہ خود اپنے لوگوں کے خلاف ایکشن لے رہی ہے تو پارٹی کو جارحانہ پالیسی اپنانے کی کیا ضرورت ہے‘ یہ تسلی اور یقین ہو جانے کے بعد میاں نواز شریف جارحانہ بیانیہ ترک کرنے پر آمادہ ہوئے ۔
میاں نواز شریف کو باور ہو چکا ہے کہ اس وقت سیاست سے بھی اہم چیلنج سکیورٹی کے حوالے سے درپیش مسائل کا ہے جو افغان سرحد‘ بلوچستان اور قبائلی اضلاع میں سر اٹھا چکے ہیں۔ پاکستان نے اب اس حوالے سے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنالی ہے کیونکہ دہشت گردی کے عمومی واقعات سے ہٹ کر افغانستان کی طرف سے پاکستان میں کھلی دراندازی ہونے لگی ہے‘ اس لیے شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے مکمل لائحہ عمل تیار ہو چکا ہے۔ خیبر سے لے کر کراچی تک شرپسند عناصر کے خلاف کارروائی ہو گی۔ ماضی میں کیے جانے والے بڑے آپریشنز کے بجائے ٹارگٹڈ آپریشنز پر فوکس کیا جائے گا۔ پاکستان میں غیرقانونی طور پر آباد افغان باشندوں کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اسی طرح افغانستان سے ملحق سرحدی پٹی پر آپریشن کے ذریعے دراندازی کو روکا جائے گا۔ دہشت گردی کے سدباب کے لیے اقدامات اٹھانے سے پہلے سکیورٹی ادارے افغان طالبان اور عبوری افغان حکومت کے سامنے ٹھوش شواہد پیش کر چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان متحرک ہوئے ہیں اور پاکستان کو مطلوب تقریباً دو سو افراد کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔ اب جبکہ ہمارے سکیورٹی ادارے شدت پسند عناصر کی طرف متوجہ ہیں اور آئندہ کچھ عرصہ تک اس طرف مصروف رہیں گے‘ اس موقع پر میاں نواز شریف نے مفاہمتی راستہ اختیار کر کے مثبت پیغام دیا ہے کیونکہ موجودہ حالات میں اشتعال انگیزی ملک کے لیے نقصان دہ ہے‘ چاہے وہ شدت پسند عناصر کی طرف سے ہو یا سیاسی سطح پر۔ اندرونی اور بیرونی شدت پسندی کا الگ الگ حل نکالنا ہی مسئلے کا دیرپا حل ہے۔ ممکن ہے بلوچستان اور قبائلی اضلاع کے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے سے ان کے تحفظات دور ہو جائیں‘ یہ کام سیاسی قیادت بطریق احسن انجام دے سکتی ہے جیسا کہ سوات آپریشن سیاسی بصیرت کا نتیجہ تھا تو اس کا کریڈٹ عسکری و سول قیادت دونوں کو جاتا ہے۔ اس کے برعکس لال مسجد آپریشن میں چونکہ یکطرفہ حل نکالنے کی کوشش کی گئی اس لیے آج تک اس سے دامن چھڑانا مشکل ہے۔