"RS" (space) message & send to 7575

یکطرفہ الیکشن کا تاثر

پاکستان میں شفاف انٹرا پارٹی انتخابات کبھی بھی سیاسی جماعتوں کی ترجیح نہیں رہے‘ اس ضمن میں تمام سیاسی جماعتیں ایک جیسا طرزِ عمل رکھتی ہیں۔ جمہوریت کی علمبردار سیاسی جماعتوں میں پارٹی سطح پر کتنی جمہوریت ہے اس کا اندازہ لگانے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ 175 سیاسی جماعتوں میں صرف ایک جماعت اسلامی جمہوری طریقہ کار کے مطابق الیکشن کراتی ہے‘ باقی سیاسی جماعتوں میں مخصوص لوگ ہی منتخب ہوتے ہیں اور پارٹی کے کلیدی عہدے چند خاندانوں تک محدود ہیں۔ ایسے حالات میں تحریک انصاف قیادت کی طرف سے جب دعویٰ کیا گیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات اس کی اولین ترجیح ہوں گے تو گمان کیا جانے لگا کہ سیاسی جماعتوں کیلئے بہترین روایت قائم ہو گی لیکن ساری حقیقت اس وقت آشکار ہو گئی جب جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات میں بے ضابطگیاں پارٹی چیئرمین کے سامنے رکھیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین کے اعتراضات کا ازالہ کیا جاتا کیونکہ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین کو 2013ء میں ہونے والے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات میں بدعنوانیوں کی تحقیقات کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اورانہوں نے سات نکاتی چارٹر پیش کیا تھا۔ 2013ء کے انٹرا پارٹی انتخابات میں دھاندلی کرنے پر جہانگیر ترین‘ پرویز خٹک‘ علیم خان اور نادر لغاری کو پی ٹی آئی سے نکالنے کا مطالبہ کیا گیا‘ مگر انٹرا پارٹی انتخابات میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی پر چیئرمین پی ٹی آئی اور جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین کے درمیان تنازعات سامنے آئے۔چیئرمین پی ٹی آئی نے 24 مارچ 2015ء کو تسنیم نورانی کو تحریک انصاف کا نیا چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا‘ اگست 2015 ء میں پی ٹی آئی نے ڈسپلن کی خلاف ورزی پر وجیہ الدین کی رکنیت معطل کر دی۔ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین نے سوالات اٹھائے کہ 2013ء میں پی ٹی آئی کے الیکشن کمیشن کے سربراہ حامد خان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ الیکشن ٹربیونل نے چیئرمین پی ٹی آئی کو تقریباً بادشاہوں جیسے اختیارات کیوں تفویض کیے؟ پارٹی قیادت نے ان سوالوں کا جواب دینا ضروری نہ سمجھا۔2013ء کے بعد پی ٹی آئی نے دسمبر 2018ء میں خانہ پُری کیلئے انٹرا پارٹی انتخابات کرائے‘ جن میں پارٹی عہدیداروں کے تقرر کے لیے ایک انتخابی عمل تھا‘ اس عمل میں پارٹی ممبران نے قومی‘ صوبائی اور مقامی سطح پر پارٹی عہدیداروں کا انتخاب کیا۔ یہ عمل بنیادی طور پر پارلیمانی بورڈ کی سفارشات پر مبنی تھا اور اسے پارٹی آئین کے مطابق نہیں سمجھا جاتا تھا کیونکہ 2018ء میں پی ٹی آئی کی ساری توجہ عام انتخابات پر تھی۔ اس وقت پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کا ڈنکا بج رہا تھا تو انٹرا پارٹی انتخابات کیسے ہوئے کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ عام انتخابات میں پی ٹی آئی اقتدار میں آ گئی تو پارٹی کی اہم شخصیات حکومت کا حصہ بن گئیں۔ اس دوران خیال نہ کیا گیا کہ پارٹی معاملات اور حکومتی امور دو الگ الگ چیزیں ہیں‘ اس کا نقصان یہ ہوا کہ پارٹی کو سنبھالنے والا کوئی نہ تھا جس کی بنا پر پارٹی میں تنظیمی کمزوریاں پیدا ہونے لگیں۔ سیف اللہ نیازی کو پارٹی کا چیف آرگنائزر مقرر کر کے یہ سمجھ لیا گیا کہ پارٹی معاملات بخوبی چلتے رہیں گے یہاں تحریک انصاف نے ناتجربہ کاری کا مظاہرہ کیا ‘جیسا کہ بیرونی فنڈنگ کے سلسلے میں کیا گیا تھا۔ جب بیرون ملک سے فنڈز آنے لگے تو پارٹی کے باشعور لوگوں نے مشورہ دیا کہ ان فنڈز کا حساب کتاب رکھا جائے مگر کہا گیا کہ پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے‘ بعدازاں فارن فنڈنگ کے معاملے پر پی ٹی آئی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس سے آج بھی دامن چھڑانا مشکل ہے۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے لیے اپنے عہدیداروں کا انتخاب انٹرا پارٹی انتخابات کے ذریعے کرنا الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت لازمی قرار دیا گیا۔ اس ایکٹ کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے لیے انتخابات کے طریقہ کار کی ہدایات دی گئیں۔ اس سے پہلے پاکستان میں زیادہ تر سیاسی جماعتوں میں اندرونی انتخابات نہیں ہوتے تھے‘ یا پھر وہ غیر شفاف اور منصفانہ نہیں ہوتے تھے۔2017ء کے الیکشن ایکٹ کے ذریعے اس خامی کو دور کرنے اور سیاسی جماعتوں کو جمہوری بنانے کی کوشش کی گئی۔ اب جبکہ تمام سیاسی جماعتیں عام انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرا چکی ہیں تو الیکشن کمیشن کی طرف سے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر اس سے بلے کا نشان لے لیا گیا ہے۔ اس فیصلے سے کئی لوگوں کے دل میں پی ٹی آئی کیلئے نرم گوشہ پیدا ہوا ہے کیونکہ پی ٹی آئی بلے کے نشان کے بغیر انتخابات میں جاتی ہے تو اس کی ساکھ کمزور ہو گی۔ پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لینے پر مجبور ہوں گے۔ قومی اور صوبائی سطح پر یہ تعداد سینکڑوں میں ہو گی‘ تو کیا سب کو الگ الگ نشان دیا جائے گا‘ اور کیا عوام ان نشانات کو انتخابات والے دن یاد رکھ سکیں گے؟ اگرچہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ سیاسی جماعتوں سے ان کا انتخابی نشان چھینا گیا ہے تاہم یہ ٹائمنگ ایسی ہے کہ پی ٹی آئی کیلئے بیک وقت کئی طرح کی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں نمایاں پہلو یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات میں اپنے آئین کی خلاف ورزی کی۔ پی ٹی آئی پر عام اعتراضات یہ تھے کہ پارٹی آئین کے تحت انتخابات کی بجائے خفیہ طور پر کرائے گئے‘ کسی بھی ممبر کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی‘ پی ٹی آئی کے دفتر میں کاغذات نامزدگی نہ تھے‘ پی ٹی آئی عمر ایوب کو سیکرٹری جنرل قرار دیتی ہے جبکہ دستیاب ریکارڈ کے مطابق اسد عمر پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ پی ٹی آئی کے آئین میں کچھ ایسا نہیں کہ چیئرمین عہدیداران کی معیاد بڑھا سکتا ہے‘ پی ٹی آئی کے چیئرمین کی معیاد13جون کو مکمل ہو گئی تھی‘ انٹرا پارٹی الیکشن سے قبل چیف آرگنائزر نے پارٹی کو چلانا تھا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی چیئرمین نے 10جون 2022ء تک کوئی الیکشن نہیں کروایا‘ پی ٹی آئی کا یہ الیکشن بھی آئین کے مطابق نہیں تھا۔ پارٹی آئین کی روشنی میں الیکشن کمیشن کو مطمئن کرنا پی ٹی آئی کا کام تھا لیکن عوام کے سامنے جو کچھ ظاہر کیا جا رہا ہے الیکشن کمیشن کے سامنے پی ٹی آئی کے وکیل یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے ۔ اس سے قبل 23 نومبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی انتخابات دوبارہ کرانے کیلئے 20 دن کی مہلت دی تھی اور متنبہ کیا تھا کہ اگر شفاف پارٹی انتخابات نہ کرائے گئے تو انتخابی نشان واپس لے لیا جائے گا۔ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے اعترضات پر مؤقف اختیار کیا کہ جون 2022ء میں انٹرا پارٹی الیکشن پارٹی آئین کے مطابق کروا کے تفصیلات جمع کروا دی تھیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے نیا پارٹی آئین ستمبر 2022 ء کو الیکشن کمیشن کو جمع کروا یا تھا جو الیکشن کمیشن کے اعتراض کے بعد واپس لے لیا گیا ۔ مطلب یہ کہ پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کے سامنے جو مؤقف پیش کر رہی ہے اس میں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔
تمام تر تحفظات اور خدشات کے باوجود پی ٹی آئی نے اعلان کیا ہے کہ وہ الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کریں گے‘ کیونکہ پی ٹی آئی اب بھی سمجھتی ہے کہ دیگر جماعتوں کی نسبت اس کا ووٹ بینک زیادہ ہے ‘یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی قیادت نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کا اعلان کیا ہے۔ پی ٹی آئی کا الیکشن میں شریک ہونا حریف جماعتوں کیلئے بھی اچھی خبر ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے بغیر الیکشن ہوتے ہیں تو یہ تاریخ کے متنازع ترین اور یکطرفہ الیکشن کہلائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں