روس کے صدارتی انتخابات کا تین روزہ عمل جاری ہے۔ روس کے معروف ادارے سوک چیمبر رشین فیڈریشن کے صدر کی دعوت پر ہم بطور انٹرنیشنل الیکشن آبزرور روس پہنچے ہیں اور ماسکو میں ایک دن گزارنے کے بعد روسی شہر چیلیابنسک میں موجود ہیں۔ چیلیابنسک روس کا ایک اہم صنعتی شہر ہے جو قازقستان بارڈر کے قریب واقع ہے۔ یہ شہر یورال پہاڑوں کے جنوبی سرے پر واقع ہے اور روس کے یورپی اور ایشیائی حصے کو جوڑتا ہے۔ اس شہر کی آبادی تقریباً گیارہ لاکھ ہے اور یہ ٹینکوں‘ راکٹوں اور دیگر دفاعی ساز و سامان کی پیداوار کے لیے جانا جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران چیلیابنسک ٹریکٹر پلانٹ کو جنگ سے متاثرہ علاقوں سے منتقل کردہ کارخانوں کے ساتھ ملا دیا گیا تھا جس کی وجہ سے چیلیابنسک کو ''ٹانکوگراڈ‘‘ (ٹینک سٹی) کا نیا نام ملا۔ آج کل چیلیابنسک ایک بڑا صنعتی شہر ہے۔ یہ شہر کاروبار‘ تعلیم‘ سائنس اور ثقافت کا مرکز ہے۔ اس ریجن کے لوگ سادہ‘ مہمان نواز اور نہایت ملنسار ہیں۔ وہ عالمی سیاست میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے اور اپنے کام سے کام رکھنے والے ہیں۔ چونکہ اس ریجن میں صنعت و حرفت کا کافی وسیع نظام موجود ہے تو لوگ مصروف اور خوشحال نظر آتے ہیں۔ ہمیں یہاں کئی پولنگ سٹیشنز کا دورہ کرایا گیا‘ جہاں ووٹنگ کے لیے جدید نظام نصب کیا گیا ہے۔
روسی صدر کے عہدے کے لیے ایک امیدوار خود بھی اپنی نامزدگی کر سکتا ہے یا کسی سیاسی جماعت کی طرف سے اس کی نامزدگی کی جا سکتی ہے۔ روس کے حالیہ صدارتی انتخابات کے لیے 25سیاسی جماعتوں کو اپنے صدارتی امیدوار نامزد کرنے کا حق حاصل تھا جن میں سے پانچ پارلیمانی جماعتوں کو قانون کے ذریعے ووٹرز کے دستخط جمع کرنے سے استثنیٰ حاصل ہے۔ روس کے مرکزی انتخابی کمیشن کے مطابق 33امیدواروں نے صدارتی الیکشن کے لیے اپنی نامزدگی کروائی۔ نو امیدواروں کو سیاسی جماعتوں نے نامزد کیا اور 24وہ شہری ہیں جنہوں نے خود کو نامزد کیا تھا۔ قانون کے ذریعے قائم کردہ نامزدگی کی تمام ضروری شرائط کی تصدیق کے بعد مرکزی الیکشن کمیشن نے چار امیدواروں کو رجسٹرڈ کیا۔ تین سیاسی جماعتوں سے تھے‘ جن میں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے لیونیڈ سلٹسکی‘ روسی کمیونسٹ پارٹی کے نکولائی کھریتونوف‘ نیو پیپلز پارٹی کے ولادیسلاو داوانکوف۔ چوتھے امیدوار ولادیمیرپوتن ہیں‘ جنہوں اپنے آپ کو خود نامزد کیا۔ روس کے مرکزی الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صدارتی الیکشن میں 11کروڑ سے زائد روسی شہری ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ بیرونِ ملک سے بھی 18لاکھ سے زائد افراد ووٹنگ کے عمل کا حصہ بنیں گے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ روس کے صدارتی انتخابات میں آن لائن ووٹنگ کا بندوبست کیا گیا ہے۔ اپنے موجودہ رہائشی علاقے سے ووٹ کاسٹ کرنے کے خواہش مندوں کو ڈیجیٹل سروس کے تحت 29جنوری سے 11مارچ کے دوران ایک مناسب پولنگ سٹیشن منتخب کرنے اور وہیں ووٹنگ کے لیے درخواست دینے کا حق دیا گیا تھا۔ اسی طرح اپنی رہائش گاہ پر رہتے ہوئے بھی ووٹ کاسٹ کرنے کا انتظام موجود ہے۔ 43ہزار سے زیادہ انتخابی مقامات کی ویڈیو نگرانی کا بندوبست کیا گیا ہے۔ 15سے 17مارچ تک جاری رہنے والی پولنگ کے دوران ہم چیلیابنسک کے علاوہ سائبیریا کے یخ بستہ سرحدی علاقوں کا وزٹ کریں گے۔ شدید برف باری کے باوجود حیرت انگیز طور پر بڑی تعداد میں لوگ اپنے حقِ رائے دہی کے استعمال کے لیے باہر نکلے ہیں۔ یہاں پولنگ سٹیشنز میں میوزک اور ووٹرز کے لیے کھانے پینے کا سامان موجود ہے۔ لوگ اپنے بچوں کے ساتھ پولنگ سٹیشنز کا رخ کر رہے ہیں‘ جیسے ایک میلے کا سماں ہو۔ولادیمیر پوتن 2000ء میں پہلی بار اقتدار میں آئے تھے۔ حالیہ انتخابات میں بھی پوتن کی کامیابی کے قوی امکانات ہیں۔ انتخابات میں شریک تقریباً تمام امیدوار ماسکو حکومت کی پالیسیوں کے حامی ہیں۔ صدارتی انتخابات میں پوتن کی اپوزیشن کرنے والا کوئی مضبوط رہنما شریک نہیں ہے۔ ایسے تمام افراد یا تو اس وقت جیلوں میں ہیں اور یا جلا وطن ہیں۔ حال ہی میں پوتن کے شدید مخالف اور عالمی سطح پر سب سے زیادہ معروف اپوزیشن رہنما الیکسی نوالنی جیل میں انتقال کر گئے۔
الیکشن کے پہلے دن 34فیصد ووٹرز نے اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا۔ شمالی روس میں 60فیصد ووٹرز نے ووٹ کاسٹ کیا۔ آج بروز ہفتہ‘ جب یہ سطریں تحریر کی جا رہی ہیں‘ روس میں صدارتی الیکشن کے پولنگ کا دوسرا دن ہے اور عام چھٹی ہونے کی وجہ سے گزشتہ روز کے مقابلے میں آج ووٹرز کی زیادہ تعداد کا پولنگ میں حصہ لینے کا امکان ہے۔ روس کے صدارتی انتخابی قوانین کے تحت 50فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار جیت جائے گا۔ اگر کوئی امیدوار بھی 50فیصد ووٹ حاصل نہ کر سکا تو مرکزی الیکشن کمیشن سرفہرست دو امیدواروں کے لیے ووٹنگ کے دوسرے دور کا اعلان کرے گا۔ دوسرے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کو صدر منتخب کیا جائے گا۔ روس کا مرکزی الیکشن کمیشن 28 مارچ کے بعد انتخابی نتائج کی تصدیق کرے گا اور بعد میں تصدیق کے تین دن کے اندر نتائج کا اعلان کرے گا۔ اگر یہ الیکشن پوتن جیت جاتے ہیں تو وہ آئینی ترامیم کی وجہ سے مزید چھ سال کے لیے صدر منتخب ہو جائیں گے۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ یہ صدارتی انتخابات پوتن کے لیے بہت اہم ہیں۔ ان کے اقتدار کا مدار خاصی ذہانت اور کامیابی سے برقرار رکھی جانے والی عوامی حمایت پر ہے۔ ایسے میں صدارتی انتخاب کا انعقاد عوامی حمایت کے حصول اور اظہار کا ذریعہ ہے۔ باضابطہ انتخاب میں کامیابی کی صورت میں وہ یوکرین میں جنگ زیادہ شدت کے ساتھ جاری رکھ سکیں گے۔ جمہوری معاشروں میں عوام کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ووٹ کی طاقت سے اپنے حکمرانوں کا انتخاب کریں‘ روس کے صدارتی انتخاب کے حوالے سے دنیا بھر میں یہ تاثر پایا جا رہا ہے کہ صدر پوتن نے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں رکھ کر کسی سیاسی حریف کی فتح کے امکانات ہی ختم کر دیے ہیں ‘مگر ہمارے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ روس کے عوام پوتن کی جنگی پالیسی سے آگاہ ہونے اور دنیا کی مخالفت کے باوجود انہیں سپورٹ کر رہے ہیں۔ پوتن موجودہ حالات میں روس کے مقبول لیڈر ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جنگ کہیں بھی ہو‘ اچھی چیز نہیں ہے‘یہ تباہی کا وہ طوفان ہے جو اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو نیست و نابود کر دیتا ہے۔ معصوم جانوں کا خون بہتا ہے‘ شہر خاکستر ہو جاتے ہیں اور ترقی کا پہیہ الٹا گھومنے لگتا ہے۔ خاندان بکھر جاتے ہیں‘ بچے یتیم ہو جاتے ہیں اور ہر طرف غم کا سناٹا چھا جاتا ہے۔ جنگ نہ صرف انسانیت کا جنازہ نکالتی ہے بلکہ مستقبل کی امیدوں کو بھی خاک میں ملا دیتی ہے۔ اس لیے ہمیں امن قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے چاہئیں اور مل جل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہونا چاہیے۔ یہی وہ راستہ ہے جو انسانیت کی بقاء اور خوشحالی کا ضامن ہے۔
اس وقت روس کی پالیسی ہمارا موضوع نہیں‘ بطور الیکشن آبزرور روس میں ووٹنگ کا مثالی طریقہ کار‘ جدید نظام‘ ریاست کی طرف سے عوام کو مہیا کی گئی سہولیات اور ووٹنگ کے عمل میں عوام کی دلچسپی دیکھ کر یہ احساس ضرور پیدا ہوا کہ پائیدار و مستحکم ریاست بننے کے لیے ابھی ہمیں طویل سفر طے کرنا ہے۔