"RS" (space) message & send to 7575

پی ٹی آئی کے دو متضاد بیانیے

اقتدار سے محروم ہونے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے دو بیانیے سامنے آئے۔ ریاستی اداروں کے حوالے سے جو بیانیہ عوام کے سامنے پیش کیا گیا تو اسے عوام کے بعض حلقوں میں پذیرائی بھی حاصل ہوئی۔ پی ٹی آئی کے جلسوں میں اس بیانیے کی اس قدر گردان کی گئی کہ سوشل میڈیا پر یہ بیانیہ وائرل ہو گیا۔ نو مئی کے واقعات اسی بیانیے کی انتہا تھے۔ پی ٹی آئی کا دوسرا بیانیہ پس پردہ تھا جس میں پارٹی قیادت مقتدرہ سے کسی بھی قیمت پر صلح چاہتی تھی تاکہ اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار ہو سکے‘ لیکن جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی رخصتی سے یہ ممکن نہ رہا۔ پی ٹی آئی نے عوام کے سامنے ریاستی اداروں کے خلاف جو بیانیہ اپنایا اس کا نقصان بھی اٹھایا۔ خیال یہی تھا کہ حالات نے پی ٹی آئی قیادت کو بہت کچھ سکھا دیا ہو گا مگر زمینی حقائق اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت اب بھی دو الگ الگ بیانیوں پر قائم ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور عوام کے سامنے جو ظاہر کرتے ہیں دورنِ خانہ عمل اس کے یکسر خلاف ہے۔ علی امین گنڈا پور نے وزارتِ اعلیٰ کیلئے نامزدگی کے بعد وفاقی حکومت سے فنڈز کے حصول کیلئے جو بیان دیا تھا اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ عوام کو مطمئن کرنے کیلئے یہ بیان دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کی تقریبِ حلف برداری میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی عدم شرکت بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی تاکہ صوبے کے عوام کو مطمئن کیا جا سکے کہ قیادت اپنے بیانیے پر قائم ہے‘ لیکن 13مارچ کو وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کے بعد انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ شہباز شریف صاحب سے ملاقات مثبت رہی‘ اس ملاقات میں عوامی مسائل سے متعلق بات چیت ہوئی ہے اور شہباز شریف صاحب نے مکمل سپورٹ کی یقین دہانی کروائی ہے۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے کہا کہ ہم وفاق سے وہ مطالبے نہیں کریں گے جو ممکن نہ ہوں۔ تصور کریں کہ عوام کے سامنے کہا جا رہا ہے کہ وفاق سے خیرات نہیں بلکہ اپنے صوبے کا حق مانگیں گے لیکن آفیشلز سے ملاقات ہوتی ہے تو نہایت نپا تُلا بیان دیا جاتا ہے۔
چند روز قبل خیبرپختونخوا کابینہ نے کور کمانڈر ہاؤس پشاور کا دورہ کیا‘ تاہم صوبائی حکومت کی طرف سے اسے مخفی رکھا گیا جس سے افواہیں گردش کرنے لگیں کہ کورکمانڈر ہاؤس میں خیبرپختونخوا کابینہ کا اجلاس ہوا ہے۔ ظاہر ہے ان خبروں کی وضاحت ضروری تھی سو صوبائی مشیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ کورکمانڈر ہاؤس میں کابینہ کا اجلاس منعقد نہیں ہوا۔ کابینہ اجلاس وزیراعلیٰ کی زیرِ صدارت منعقد ہوتا ہے اور وہی کابینہ کا اجلاس بلا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الیون کور میں کابینہ ممبران کو دعوتِ افطار دی گئی تھی جسے قبول کر لیا گیا۔ افطاری کے بعد کابینہ ممبران کو صوبے میں موجودہ سکیورٹی صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔ بیرسٹر محمد علی سیف کے مطابق الیون کور میں سکیورٹی معاملات کے حوالے سے سپیشلائزڈ بریفنگ روم مختص ہے اس لیے کابینہ اراکین وہاں گئے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں سکیورٹی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوج سے فعال رابطوں اور تعاون پر یقین رکھتے ہیں۔ نو مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی اور ریاستی اداروں میں دوریاں بڑھ گئی تھیں‘ تاہم صوبے کی سکیورٹی صورتحال نے دونوں کو قریب آنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ پی ٹی آئی کی دیرینہ خواہش بھی تھی کہ نو مئی کے باعث جو دوریاں پیدا ہو چکی ہیں ان کا خاتمہ ہو‘ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ صوبائی کابینہ کے اراکین کے کورکمانڈر پشاور ہاؤس جانے سے پہلے بانی پی ٹی آئی سے اجازت حاصل کی گئی۔یعنی بانی پی ٹی آئی چاہتے ہیں کہ جو تلخیاں پیدا ہو چکی ہیں ان کا خاتمہ ہو۔ سوال مگر یہ ہے کہ پھر عوام کے سامنے مزاحمتی بیانیہ کیوں اپنایا جاتا ہے؟
پی ٹی آئی کا مخاصمانہ بیانیہ سینیٹ انتخابات میں بھی دکھائی دیا۔ تین صوبوں اور وفاق میں سینیٹ انتخاب ہو چکا ہے مگر خیبرپختونخوا میں انتخاب ملتوی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخاب کو مخصوص نشستوں پر کامیاب اراکین کے حلف سے مشروط کر رکھا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ہدایت دی کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر کامیاب ممبران کی حلف برداری کے لیے انتظامات کیے جائیں۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں سینیٹ الیکشن کے لیے الیکٹورل کالج مکمل نہیں۔ مخصوص نشستوں کے حوالے سے پی ٹی آئی اپنے مؤقف پر قائم ہے لیکن فیصلہ تو بہر صورت الیکشن کمیشن یا عدالتوں نے ہی کرنا ہے۔ الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کیں کیونکہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلئے الیکشن کمیشن میں کوئی لسٹ جمع نہیں کرائی تھی۔ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا مگر پشاور ہائی کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے حکم صادر کیا کہ مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لیا جائے۔ پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے‘ تاہم معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے قبل اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کے مطابق سنی اتحاد کونسل پنجاب اور وفاق میں مخصوص نشستوں کے حصول میں ناکام رہی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب پنجاب اور وفاق میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں حاصل نہیں ہو سکیں تو خیبرپختونخوا میں کیسے حاصل ہوں گی؟
وفاق اور صوبے میں محاذ آرائی کا نقصان صوبے کے عوام کو ہو رہا ہے کیونکہ قومی انتشار کسی بھی ملک کے لیے تباہی کا باعث بنتا ہے۔ یہ نہ صرف معاشی ترقی کو روکتا ہے بلکہ معاشرے میں عدم استحکام اور انتشار کا ماحول پیدا کرتا ہے۔ ایسے حالات میں سیاسی قیادت کا کردار نہایت اہم ہو جاتا ہے۔ صاحبِ بصیرت رہنما ملک کو اس بحران سے نکال سکتے ہیں۔ اقتدار کے حصول اور ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے نفرت اور تعصب کی سیاست کی بجائے ملک کی مجموعی ترقی اور عوام کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے کیونکہ جب سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے درمیان قومی مفاد پر اتفاق ہو گا تو وہ مل کر انتشار کو ختم کرنے کی حکمت عملی بنا سکیں گے۔ وفاق اور صوبے کا مل کر چلنا خوش آئند ہے مگر اس مقصد کیلئے صوبے کے عوام کے سامنے تصویر کا درست رخ پیش کریں۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کے کندھوں پر صوبے کے چار کروڑ سے زائد عوام کی ذمہ داری ہے‘ انہیں اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہیے۔ پی ٹی آئی قیادت اس وقت دو بیانیوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے‘ عملی طور پر ایسا ممکن نہیں‘ الٹا اس کا نقصان ہے۔ یہ واضح ہے کہ نو مئی کے پُرتشدد واقعات کے بعد پی ٹی آئی اپنی شرائط پر بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ نو مئی مقدمات کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے‘ لہٰذا مفاہمت ہی واحد راستہ ہے جو اسے دوبارہ قومی منظر نامے پر واپس لا سکتا ہے‘ مگر پی ٹی آئی کو یہ خوف بھی لاحق ہے کہ اگر وہ مفاہمت کا راستہ اختیار کرتی ہے تو عوام اس منطق کو نہیں سمجھیں گے۔ ووٹ بینک بھی متاثر ہو گا‘اور پی ٹی آئی کسی صورت اپنا ووٹ بینک نہیں کھونا چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس بظاہر دو راستے ہیں‘ ایک مخاصمانہ بیانیہ اور دوسرا مفاہمتی بیانیہ۔ مخاصمانہ بیانیہ طویل‘ کٹھن اور صبر آزما ہو سکتا ہے جبکہ مفاہمتی بیانیے کے فوری اثرات مرتب ہو سکتے ہیں‘ تاہم مفاہمتی بیانیے کیلئے پی ٹی آئی قیادت کو عوام کے سامنے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا ہو گا۔ پی ٹی آئی قیادت کو کون سا راستہ اختیار کرنا ہے‘ یہ فیصلہ اسے جلد کرنا ہو گا کیونکہ دو متضاد بیانیوں کے ساتھ چلنا آسان نہیں ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں