"FBC" (space) message & send to 7575

تحریکِ عدل

نواز شریف اور ان کی دختر نیک اختر مسلسل تحریکِ عدل یعنی عدل کی بحالی کا راگ الاپ رہے ہیں‘ مگر اس راگ کے ریاض میں مسلم لیگ نواز کی اکثریت ان کا ساتھ نہیں دے رہی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کی اس تحریک کا نام بھی ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف کی جماعت ''تحریکِ انصاف‘‘ سے ملتا جلتا ہے۔ مگر آج کل کی پاکستانی سیاست میں اس طرح کے نازک فرق کو اتنا خاطر میں نہیں لایا جاتا۔
اس تحریکِ عدل میں شریف فیملی کا وفادار ایک قلیل سا آتش فشاں ٹولہ شامل ہے (جن میں سے کئی ایک کچھ عرصہ قبل تک کسی اور شاہ کی قصیدہ خوانی میں مصروف تھے) اس درخشاں فہرست میں طلال چوہدری، دانیال عزیز اور آصف کرمانی جیسے نابغہ روزگار شامل ہیں‘ جن کے نام ہی اس تحریک کے پس پردہ کارفرما بدنیتی کو عیاں کرنے کے لیے کافی ہیں۔ خاص بات یہ کہ شہباز شریف، راجہ ظفرالحق، چوہدری نثار علی خان، خرم دستگیر حتیٰ کہ خواجہ آصف جیسے پرانی وضع کے زیرک مسلم لیگی رہنمائوں نے بھی اس تحریک میں شمولیت اختیار کی ہے‘ نہ ہی سپریم کورٹ اور اس کے معزز جج صاحبان کی کردار کشی کی اس مہم جوئی کا حصہ بنے ہیں۔
لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ زیرک سیاستدانوں نے خود کو اس تحریک سے فاصلے پر کیوں رکھا (بلکہ اسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا) جبکہ موقع پرستوں کا ٹولہ ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے اس مہم کا حصہ بن گیا۔ یہ تحریک دراصل ہے کیا؟ اس سے کیا مقصد حاصل کرنا مقصود ہے؟ یہ مقصد کیسے حاصل کیا جائے گا؟ کیا یہ تحریک ہمارے ملک کی جمہوریت اور آئین پسندی کے لیے واقعی سود مند ہے؟ یا اس کا مقصد محض مغل اعظم کو پھر سے تخت نشیں کرانا ہے؟
ہم اس تحریک کے بعض نمایاں مقاصد کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مغل اعظم اور اس کی صاحبزادی کے پیش نظر صرف ایک ہی مقصد و منشا ہے اور وہ ہے نواز شریف کی نااہلی ختم کروا کر انہیں پھر سے وزیر اعظم کی آئینی مسند پر جلوہ افروز کرانا۔ سب جانتے ہیں کہ اس تحریک نے 28 جولائی کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد جنم لیا‘ اور اگر سپریم کورٹ نے نواز شریف کو بری قرار دے دیا ہوتا تو یہ تحریک کبھی شروع نہ ہوتی۔ اسی پہلو کو ایک اور طرح سے دیکھتے ہیں۔ اگرچہ نواز شریف پاکستان کی 35 سالہ سیاست میں سے 25 سال بنفسِ نفیس اقتدار کے سنگھاسن پر جلوہ افروز رہے‘ لیکن اس پورے عرصے میں انہیں یا ان کے وفادار ٹولے کو ایک مرتبہ بھی عدل کی بحالی کا خیال نہیں آیا۔ نظامِ عدل میں اصلاحات کبھی بھی ان کی جماعت کے منشور کا حصہ نہیں رہیں۔ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کبھی شریف فیملی کے پالیسی بیانیے میں شامل نہیں رہی۔ لہٰذا نظام عدل میں اصلاحات کے بارے میں تازہ چیخ و پکار کی وجہ عدلیہ کے بارے میں ان کی تشویش ہرگز نہیں‘ بلکہ تحریک عدل کو وزیر اعظم کے منصب کے حصول کے لیے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
مگر اس نااہلی سے گلوخلاصی کیسے ممکن ہے؟ اس کے لیے ہم تحریکِ عدل کے اگلے محرک پر نظر ڈالتے ہیں‘ اور وہ ہے جی حضوری نہ کرنے والے تمام ججوں کی برطرفی ۔
اس مقصد کا حصول ایک کٹھن مرحلہ ہے کیونکہ اس کے لیے کم از کم ایک آئینی ترمیم درکار ہو گی۔ ایسی ترمیم جس کی مدد سے نا صرف چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ جیسے ججوں کو سپریم کورٹ سے سبکدوش کیا جا سکے بلکہ وہ چیلنج کیے جانے کی صورت میں سپریم کورٹ کا سامنا کرنے کی آئینی سکت بھی رکھتی ہو۔ اس سلسلے میں اہم نکتہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ پہلے ہی (21ویں ترمیم کے حوالے سے اپنے فیصلے میں) یہ قرار دے چکی ہے کہ عدالت عظمیٰ کو ایسی تمام آئینی ترامیم کو منسوخ کرنے کا اختیار حاصل ہے‘ جو بشمول عدلیہ کی آزادی ہمارے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف جاتی ہوں۔
اگر معجزاتی طور پر نواز شریف اپنی نااہلی کا فیصلہ منسوخ کروانے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں‘ تو ان کی تحریکِ عدل کو اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ ایسی ہنگامی صورتحال دوبارہ نہ پیدا ہو۔ اس کے لیے ہمیں اس گھنائونی تحریک کے اگلے محرک کو سمجھنا پڑے گا۔
آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے دائرہ کار کو محدود کرنے کا مقصد (بدعنوان لوگوں کے پارلیمنٹ میں بلا روک ٹوک داخلے کی راہ ہموار کرکے) عدالتوںکو منتخب نمائندوں کا احتساب کرنے سے روکنا اور ججوں کی تقرری اور سبکدوشی کا معاملہ پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں لانا ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ نواز پہلے ہی اس بل کا ڈرافٹ تیار کر چکی ہے جس کے بعد عدلیہ میں ججوں کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل ہو جائے گا۔ پھر یہ معاملہ پارلیمنٹ کے کنٹرول میں چلا جائے گا‘ اور جج اپنی تقرری اور ترقی کے لیے سیاسی ناخدائوں کی کاسہ لیسی پر مجبور ہوں گے۔ کئی حوالوں سے یہ تجویز 1997ء میں وزیر اعظم نواز شریف کی اشیرباد سے سپریم کورٹ پر ہونے والی یلغار کے مترادف ہے۔ اگر یہ ترمیم کامیاب ہو جاتی ہے تو پاکستان میں عدلیہ کی آزادی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو کر رہ جائے گی‘ جس کے بعد مغل اعظم اور ان کی بیٹی عوام کے بجائے اپنی رعایا پر شاہانہ انداز میں حکمرانی کر نے کے لیے آزاد ہوں گے ۔ نامور وکلا سمیت عدل کے کئی تابندہ استعارے بھی اس حوالے سے کوئی واضح موقف اپنانے سے محض اس لیے گریزاں ہیں کہ ان کے سیاسی آقا کہیں ناراض نہ ہو جائیں۔ 
آخر میں ان مضحکہ خیز تجاویز سے ہٹ کر دیکھیں تو تحریکِ عدل کا ایک مقصد ان لوگوں کو سزا دینا بھی ہے جو حاکمِ وقت کے شاہانہ اختیارات پر انگلی اٹھاتے ہیں‘ یا اس کے اقدامات پر اس کی جواب دہی کی کوشش کرتے ہیں۔ اب ہم اس تحریک کے آخری محرک کی طرف آتے ہیں۔
تحریکِ عدل کا اہم مقصد ''ووٹ کی توہین‘‘ کے مرتکب لوگوں کو سزا دینا اور ایسا طریقہ کار وضع کرنا ہے کہ عدالتوں کے فیصلے کو عوام کی عدالت کے ذریعے تبدیل کیا جا سکے۔ اس تجویز کا واضح مقصد یہ ہے کہ مغل اعظم سے سوال جواب کرنے والے جج کو اس گستاخی پر قرار واقعی سزا دی جا سکے۔ کیا پاکستان میں قانون کا چلن اب یہ ہوگا کہ ایک منتخب نمائندے کے جرم کی سزا کا تعین کسی عدالتی کارروائی کے بجائے جلسۂ عام میں لوگوں کے ہاتھ کھڑے کروا کر کیا جائے گا۔ (کیا تمہیں یہ فیصلہ قبول ہے؟) کیا فوجداری مقدمات کی سزائیں عوامی ریفرنڈم کے ذریعے کالعدم ہوں گی؟ کیا سیاسی اثرورسوخ کی آڑ میں مالیاتی جرائم کی پردہ پوشی ہوگی اور مجرم سزا سے صاف بچ نکلیں گے؟
''تحریکِ عدل‘‘ کا نعرہ شاید ہماری عدلیہ پر سب سے شدید حملہ ہے۔ ایک وسیع تر تناظر میں یہ ہماری حالیہ تاریخ میں آئین پسندی کی اقدار اور اس کی روح پر سب سے زوردار حملہ تصور کیا جائے گا۔ یہ جمہوری پیش رفت کے پہیے کو الٹا گھمانے کی کوشش ہے اور شاید یہ لوگ ہمیں مغل اعظم کی قانون کے مطابق جواب طلبی سے پہلے کے دور میں واپس لے جانا چاہتے ہیں۔
اب ہم سچائی کو اس کے حقیقی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تحریک انصاف کی بحالی کے لیے نہیں ہے۔ یہ صرف ''مجھے کیوں نکالا‘‘ کی تحریک ہے۔ اگر قسمت نے یاوری کی اور نواز شریف پھر سے وزیراعظم کی مسند پر جلوہ افروز ہو گئے تو اچانک اس تحریک کی ضرورت و افادیت ختم ہو جائے گی۔ بالکل ویسے ہی جیسے نواز شریف کے سابقہ 25 سالہ دور اقتدار میں اس کی کبھی ضرورت محسوس نہیںکی گئی۔
ایسے موقع پر خاموشی گناہ ہے۔ معاشرے میں آزادی کے علمبرداروں کو وقت کے سلطان کے روبرو کلمہ حق بلند کرنا ہوگا۔ بلاشبہ ہمارے نظامِ عدل میں اصلاحات کی گنجائش موجود ہے۔ شاید ہمارے تمام حکومتی امور میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔ مگر ان اصلاحات کا مقصد و محور مسندِ انصاف کو مضبوط کرنا ہونا چاہئے نہ کہ اسے بادشاہِ وقت اور اس کے گماشتوں کے اشارۂ ابرو کے تابع بنانا۔
اس وقت مغل اعظم اور ان کی دختر نیک اختر کو یہ بات سمجھانے کی اشد ضرورت ہے کہ جمہوریت صرف نواز شریف کا نام نہیں۔ انصاف محض بادشاہِ وقت کی خواہشات کا نام بھی نہیں ہے۔ پاکستان کا نظام نواز شریف کی سیاست میں آمد سے پہلے بھی چل رہا تھا اور انشااللہ یہ نواز شریف اور ان کے ہمنوائوںکے جانے کے بعد بھی اسی طرح قائم و دائم رہے گا۔
جس طرح ان سے پہلے بھی بڑے بڑے نامیوں کے نشان صفحۂ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ گئے اسی طرح وہ بھی تاریخ کے دھارے کو نہ موڑ سکے ہیں اور نہ ہی انشاء اللہ اسے موڑنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں