"FBC" (space) message & send to 7575

خریداری (سینیٹ کے) ووٹوں کی

گزشتہ چند ہفتوں میں وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی پر کئی مرتبہ سخت تنقید کی ہے‘ خصوصاً ووٹوں کی مبینہ ''خریدوفروخت‘‘ کے حوالے سے، جو صادق سنجرانی کے سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہونے پر منتج ہوئی۔ وزیرِ اعظم کے ان تبصروں کی بنیاد ان کے قائد (اور ان کی دختر) کا بیانیہ ہے، جن کے عدلیہ، نیب (اور فوج؟) سے متعلق قوانین میں ترمیم کرنے کے منصوبے براہِ راست سینیٹ کو لازمی کنٹرول کرنے سے جڑے ہوئے تھے۔ 
ان حالات میں چند سوالات جواب طلب ہیں: کیا چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے دوران ووٹ خریدے اور بیچے گئے تھے؟ شاید۔ کیا ووٹ خریدنا اور بیچنا قانونی امر ہے؟ قطعاً نہیں۔ کیا وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کا موقف درست ہے؟ جی ہاں۔ کیا پاکستان میں انتخابات (کوئی بھی انتخابات) بڑی حد تک ''جو بھی سب سے زیادہ پیسہ خرچ کرے‘‘ کے مصداق ہو چکے ہیں؟ جی ہاں۔ کیا ووٹ خریدنے کے لیے پیسے کا اثر ممنوع ہونا چاہیے؟ یقیناً۔
لیکن جہاں سینیٹ انتخابات کے حوالے سے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کا عدم اتفاق درست ہے، وہاں ہم محترم وزیرِ اعظم سے چند مزید سوال دریافت کرتے ہیں: کیا یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ محترم وزیرِ اعظم نے پاکستانی انتخابات میں ووٹ خریدنے کے لیے پیسہ استعمال ہوتا دیکھا؟ کیا یہ پی ایم ایل (نون) کے ارکان کے لیے قانونی ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقۂ انتخاب میں ووٹ خریدیں (جیسا کہ گزشتہ چند برسوں میں سامنے آنے والے ویڈیو کلپس سے عیاں ہے)؟ کیا پی ایم ایل (نون) نے اپنے ارکان کے خلاف ایسی تفتیش کروائی (کبھی)؟ ایاز صادق (اور علیم خان) نے کتنی رقم ضمنی انتخابات پر خرچ کی؟ کیا وزیرِ اعظم کا ضمیر اُس وقت فعال نہیں ہوا تھا... صرف اس باعث کہ پی ایم ایل (نون) نے وہ نشست جیت لی تھی؟ 
ہو سکتا ہے ان کے پاس ایسے سوالات کے خواب آور جواب ہوں لیکن کیا وہ واضح کرنا گوارا کریں گے کہ اصغر خان کیس اور آئی جے آئی کی تشکیل کے معاملے میں کیا ہوا تھا؟ کیا جنرل (ریٹائرڈ) اسد درانی (اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ) اور دیگر نے بیانِ حلفی پیش نہیں کیے تھے کہ پی پی پی کے خلاف سیاست دانوں کو رشوت دینے کے لیے نواز شریف اینڈ کمپنی کو رقم دی گئی تھی؟ کیا معزز سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو ہدایت نہیں کی تھی کہ تمام ذمہ دار افراد (نواز شریف اور شہباز شریف) کے خلاف کارروائی کی جائے؟ کیا وزیرِ اعظم نے ایف آئی اے کو معزز عدالت کی ہدایات پر، اپنی قیادت کے خلاف، عمل کرنے کا حکم دیا؟
نیز پی ایم ایل (نون) کی تین عشروں پر محیط حکومت کے دوران انتخابی مہم سے متعلقہ مالی قوانین (انتخابی عمل کے دوران خرچ ہونے والی رقم) کا اطلاق اس کی ترجیح کیوں نہیں رہا؟ نواز شریف نے... جن پر اپنی قانونی آمدنی سے زیادہ اثاثوں کی ملکیت کا مقدمہ چل رہا ہے... انتخابات میں روپے پیسے کے غلط استعمال کی طرف سے آنکھیں کیوں بند رکھیں؟
درایں حالات کیا پی ایم ایل (نون) کا سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں روپے پیسے کے استعمال کے خلاف احتجاج کا مقصد انتخابی عمل کی بہتری ہے؟ یا کیا اس کی بجائے یہ محض ایک سیاسی جماعت کا ہار جانے پر واویلا ہے، جس نے اپنے (بدنیتی پر مبنی) قانون سازی کے ایجنڈے پر عمل کرنے کا انحصار سینیٹ پر کیا ہوا تھا؟ خواہ کچھ بھی ہو، انتخابی سال میں ہمیں انتخابات میں روپے پیسے کے استعمال کے بارے میں مباحثے کا خیرمقدم کرنا چاہیے اور اسے انتخابی فریم ورک میں ساختیاتی اصلاحات کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
جہاں تک قابلِ اطلاق قانون کا معاملہ ہے تو (سیاسی جماعتوں) کے فنڈز کے ذرائع کے احتساب کا تصور خود آئین سے صادر ہوتا ہے (آرٹیکل17(3)) جس میں لازم قرار دیا گیا ہے کہ ''ہر سیاسی جماعت کو اپنے فنڈز کے ذرائع کا حساب دینا ہو گا‘‘، جیسا کہ قانون میں تجویز کیا گیا ہے۔ مزید برآں الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق ہر سیاسی جماعت پر لازم ہے کہ اپنے اثاثوں اور واجب الادا قرضوں، آمدنی اور اخراجات کے علاوہ اپنے فنڈز کے ذرائع کی سالانہ رپورٹ بھی الیکشن کمیشن میں جمع کروائے۔ اس ایکٹ میں یہ بھی درج ہے کہ سیاسی جماعت کے راہنما کو لازماً تصدیق کرنا ہو گی کہ اس کی جماعت کو ملنے والا کوئی بھی فنڈ ''ممنوعہ‘‘ ذرائع سے حاصل نہیں کیا گیا۔
انفرادی امیدواروں کے لیے الیکشن ایکٹ 2017ء (عوامی نمائندگی کے ایکٹ 1976ء کا جانشیں) لازم قرار دیتا ہے کہ ہر امیدوار کو کاغذاتِ نامزدگی جمع کرواتے وقت اپنے اور اپنی بیوی یا شوہر اور منحصر افراد کے ''اثاثوں اور واجب الادا قرضوں‘‘ کی سٹیٹمنٹ پیش کرنا ہو گی، جسے ہر شخص ''ملاحظہ‘‘ کر سکتا ہے۔ نئے کاغذاتِ نامزدگی سے راز فاش کرنے والی کئی اہم شقوں کا نکال دیا جانا ایک ایسا مباحثہ ہے جسے کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں (یہ معاملہ معزز لاہور ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرِ سماعت ہے)۔ اس سے قطعہ نظر کہ منتخب ارکان پر لازم ہے کہ اپنے اثاثوں اور واجب الادا قرضوں کی سٹیٹمنٹ ہر سال الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں اور اگر ایسا کوئی ڈیکلریشن ''ٹھوس تفصیلات میں جھوٹا‘‘ پایا گیا تو امیدوار پر ''بدعنوانی‘‘ کا مقدمہ کروایا جا سکتا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 132 میں امیدواروں (یا اس کے حامیوں) کی طرف سے ہر حلقۂ انتخاب میں خرچ کی جانے والی مجموعی رقم کی حد متعین کی گئی ہے۔ بطورِ خاص قانون کہتا ہے، ''کسی امیدوار کے انتخابی اخراجات میں امیدوار کی جانب سے کسی بھی شخص یا سیاسی جماعت کی خرچ کردہ رقم یا کسی سیاسی جماعت کی طرف سے خاص طور سے کسی امیدوار کے لیے خرچ کردہ رقم شامل ہو گی‘‘۔ یوں ایسے اخراجات (الف) ''سینیٹ کی نشست کے لیے پندرہ لاکھ‘‘ (ب) ''قومی اسمبلی کی نشست کے لیے چالیس لاکھ‘‘ اور (ج) ''صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے بیس لاکھ‘‘ سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔
کیا اب وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی تصدیق کریں گے کہ پی ایم ایل (نون) کے ہر منتخب رکن نے اپنی اپنی انتخابی مہم کے دوران ان مخصوص حدود سے زیادہ رقم خرچ نہیں کی؟ یا کیا ان کی جماعت اور اس کے امیدواروں نے (تمام دوسری جماعتوں اور امیدواروں کی طرح) اضافی رقم خرچ کرکے (شخصی اور ترقیاتی معاملوں پر) ووٹ ''خریدے‘‘ تھے؟ کیا حکومتی جماعت تصدیق کرے گی کہ آنے والے انتخابات میں ان قانونی تقاضوں کی پابندی کی جائے گی؟ کیا خود وزیرِ اعظم کو اس بات کا یقین ہے؟ یا حکومت (اور دوسری جماعتیں) ووٹ خریدنے کے لیے روپیہ پیسہ خرچ کرنا جاری رکھیں گی؟
بہرحال حیران کن امر یہ ہے اور ہماری قانونی تاریخ کے جائزے سے عیاں ہوتا ہے‘ کہ انتخابی مہم کے اخراجات کے حوالے سے کوئی خاص مقدمہ آج تک کسی عدالت میں دائر نہیں کروایا گیا۔ اس کا سبب یہ نہیں کہ تمام جماعتوں اور امیدواروں نے قانونی اعتبار سے جائز رقوم خرچ کیں بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ چونکہ سیاسی تقسیم کی ہر جانب کے امیدوار انتخابی مہم میں اخراجات کا قانون توڑنے کے مرتکب ہوئے ہیں، اس لیے کسی کو بھی یہ معاملہ اٹھانے میں دلچسپی نہیں۔ نتیجتاً ہمارا سیاسی عمل یہاں تک پست ہو کر رہ گیا ہے کہ انتخاب میں حصہ لینے کے لیے کون سب سے زیادہ پیسہ خرچ کر سکتا ہے (اور پھر انتخاب میں دوبارہ حصہ لینے کے لیے اپنے عہدے کی میعاد کے دوران کما سکتا ہے)۔
انتخابی عمل کو سرمائے کے اندھا دھند استعمال والی سرگرمی بنا کر ہم نے انتخاب میں ''ہر شخص‘‘ کو حصہ لینے کا موقع دینے کے آئیڈیل کو تَرک کر دیا ہے۔ اس المناک حقیقت نے منظم انداز میں ہماری آبادی کی اکثریت کو سیاسی منصب کی خواہش کرنے تک کے قابل نہیں چھوڑا اور ہم اس حد کو کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ قانون کا نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے پہنچے ہیں، جو پہلے سے کتابوں میں موجود ہے۔
اگر آزادی خدا کی شان ہے اور جمہوریت اس کا پیدائشی حق ہے تو پھر ہمارے انتخابی قوانین کے تقاضوں کو من و عن نافذ کرکے ہماری آبادی کے بڑے حصے کو اس پیدائشی حق میں حصہ لینے کا موقع دینا ہو گا۔ صرف اسی طرح ہم اپنے ملک میں موقع کا دائرہ وسیع کر سکتے ہیں اور اپنی آزادی کے معانی کوگہرائی د ے سکتے ہیں۔
وزیرِ اعظم عباسی دوسروں پر انگلیاں اٹھانے سے پہلے اپنے گھر (یعنی جماعت) کو درست کرنے کا کام بخوبی انجام دیں گے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ اچھا کام اپنے گھر سے شروع ہوتا ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں