"FBC" (space) message & send to 7575

ڈیموکریسی (اِن) ایکشن

پاکستان میں سیاست مضحکہ خیز چیزوں کو ظاہری اعتبار سے ارفع و اعلیٰ بنا کر پیش کرنے کا فن ہے۔ جیسا کہ جارج آر ویل (جن کا اصل نام ایرک آرتھر بلیئر تھا) کا معروف قول ہے، ''سیاسی زبان جھوٹ کو سچ اور قتل کو قابلِ احترام ظاہر کرنے اور محض ہوا کو ٹھوس روپ دینے کے لیے وضع کی گئی ہے‘‘۔ جب یہ بات کہی گئی تھی (بیسویں صدی کی برطانوی سلطنت کے اوائل کے زمانے میں) تب شاید یہ بات بڑھا چڑھا کر کی گئی ہو لیکن جدید دور کے پاکستانی سیاست دانوں نے، بالخصوص پاناما منظرنامے کے بعد، آر ویل کی اس بات کو سچ ثابت کر دیا ہے۔
آئیے ہم چوٹی سے آغاز کرتے ہیں: میاں نواز شریف کو... جو ہنوز پاکستان کے طاقتور ترین سیاسی کھلاڑی ہیں... معزز سپریم کورٹ آف پاکستان نے (آئین کے آرٹیکل 62(1)کی رُو سے) ڈِس کوالیفائی قرار دے دیا ہے اور جن پر منی لانڈرنگ اور ظاہر کردہ ذرائع سے زیادہ مالیت کے اثاثوں کے مالک ہونے پر نیب کی عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے۔ انھوں نے ان الزامات کا جو سب سے کھرا دفاع (اپنے بیان کے مطابق) پیش کیا ہے وہ سادہ سا ہے: ''تمھیں کیا؟‘‘ اب بھی موجودہ وزیرِ اعظم سمیت ان کی پارٹی کی سیاسی اشرافیہ، کسی ناقابلِ وضاحت وجہ سے، انھیں وزیرِ اعظم (دلوں کا!) کہتی ہے۔ ان حالات میں وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کی کابینہ سے دریافت کیا جانا چاہیے کہ کیا 'دلوں کی یہ حکمرانی‘ وزارتِ عظمیٰ ختم ہونے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے یا یہ ریاست کے دوسرے اداروں تک توسیع پا جاتی ہے؟ سادہ الفاظ میں کیا ضیاالدین بٹ اب بھی دلوں کی آئی ایس آئی کے ڈی جی ہیں؟ کیا ملک قیوم اب بھی ان کے دلوں کے جسٹس ہیں؟ اور کیا قمر زمان چوہدری اب بھی دلوں کے نیب کے ڈی جی ہیں؟
اور اسحاق ڈار والے قصے کے بارے میں کیا خیال ہے... جو منی لانڈرنگ کے مجرم قرار دیے جانے سے صرف ایک دل کی دھڑکن (طنز قطعاً مقصود نہیں) کی دوری پر ہونے کے باوجود پاکستان کے وزیرِ خزانہ کی حیثیت سے خدمات انجام دینا جاری رکھے ہوئے ہیں! سچ تو یہ ہے کہ اسحاق ڈار کی صورتِ حال سیاست کی شرمناک کج روی ہے حتیٰ کہ پی ایم ایل (ن) کے معیارات سے بھی۔ ایک شخص جو (مجاز مجسٹریٹ کے سامنے) اعتراف کر چکا ہو کہ اس نے اپنے سیاسی آقا کو منی لانڈرنگ میں مدد دی تھی، ہمارے قومی خزانے کی کنجی آج بھی اس کے ہاتھ میں ہے۔ بہرحال ماضی کا رونا کیا رونا... ایک شخص جس پر اس وقت بھی منی لانڈرنگ اور ذاتی دولت میں (92گنا) ناقابلِ وضاحت اضافے کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہو، ہمارے ملک کا سب سے اعلیٰ مالیاتی منصب دار چلا آ رہا ہے۔ اگر اس سے بھی روح نہیں کانپتی تو ذرا اس پر غور کیجیے... ایک شخص جس کے اثاثے اور بینک اکاؤنٹ منجمد کیے جا چکے ہوں، جو اپنے ذاتی اکاؤنٹ کے ایک چیک پر بھی دستخط نہیں کر سکتا ہو، وہ اب بھی ہمارے قومی خزانے پر دستخط کر رہا ہے۔ اس کے متعین کردہ افراد سٹیٹ بینک، ایس ای سی پی، این بی پی اور سٹاک مارکیٹ جیسے اداروں کو کنٹرول کر رہے ہوں۔ اس سے بدتر امر یہ ہے کہ ایک شخص جو (مبینہ طور) برطانیہ میں کہیں کسی مقام پر کسی ہسپتال میں صاحب فراش ہے، اور ہماری عدالتوں کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر چکا ہے... اب بھی ہماری اجتماعی معاشی تقدیر کا مالک ہے۔
مزید مثالیں ملاحظہ کیجیے: ہمارا وزیرِ خارجہ (جو مان چکا ہے) اقامہ کا حامل ہے۔ ہمارا ریلوے کا وزیر اربوں روپے مالیت کی اراضی کے مبینہ گھپلے میں زیرِ تفتیش ہے۔ ہمارے سب سے بڑے صوبے کے وزیرِ اعلیٰ پر ماڈل ٹاؤن میں 14 معصوم افراد کو قتل کروانے کا الزام ہے۔ ان کے وزیرِ قانون کی تاریخ یہ ہے کہ ان پر درجن سے زیادہ ایف آئی آر کٹی ہوئی ہیں۔ اُدھر سندھ میں حکمراں سیاسی جماعت کا سربراہ ایک ایسا فرد ہے جسے عوامی زبان میں مسٹر ٹین پرسنٹ کہا جاتا ہے۔ اس کی بہن... عملاً صوبے کی وزیرِ اعلیٰ ہے۔ سندھ کے آئینی وزیرِ اعلیٰ کو، جن کے پورے حلقۂ انتخاب میں ایک بھی قابلِ ذکر ہسپتال موجود نہیں (جیسا کہ سیہون بم حملے کے وقت عیاں ہوا)، وضاحتی بیانات جاری کرنا پڑے کہ وہ اپنی ہی حکومت کے خلاف 'وعدہ معاف گواہ‘ نہیں ہیں۔ کراچی میں غالب سیاسی جماعت بوری بند لاشوں اور ٹارچر سیلوں کے ورثے کی حامل ہے۔ چند مہینے پہلے تک اس کا مرکزی دفتر ایک ایسے علاقے میں تھا جو ریاستی اداروں اور افراد کے لیے 'نو گو ایریا‘ قرار پا چکا تھا۔ آج بھی اس کے کلیدی ارکان بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کی رپورٹ کو عوام کے سامنے لانے سے روکنے میں ملوث ہیں۔
ان حقائق کا جواز کسی طور پیش نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے جمہوری یقین کی اس تنسیخ کا کوئی سیاسی یا قانونی جواز نہیں۔ ان افراد کے پاس اقتدار میں رہنے کا واحد بہانہ عوامی مینڈیٹ ہے، جسے ڈھالا گیا ہے۔ سیاسی طاقت کے تمام ملوث عناصر یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ انھیں 'ووٹ دیے گئے ہیں‘۔ نیز یہ کہ ان پر سوال اٹھانا یا انھیں ہماری معزز عدالتوں کے سامنے قابلِ احتساب ٹھہرانا عوامی مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف ہے۔
حیران کن امر یہ ہے کہ تصورات کی منڈی میں اس بیانیے کے (اچھے خاصے) خریدار موجود ہیں۔ کسی ناقابلِ وضاحت وجہ سے ہمارے عوام کا اچھا خاصا حصہ یقین رکھتا ہے کہ احتساب کا عمل حقیقت میں غیر جمہوری سازش ہے۔
یہ بیانیہ کیوں مقبول ہے؟ اس کی دو وجوہ ہیں: 1) کریڈٹ مریم نواز صاحبہ کی سیاسی مشینری کو اور اس طاقتور انداز کو دیا جانا چاہیے جس سے انھوں نے عوام کو اشتعال انگیز پیغام دیا ہے؛ 2) پاناما کے فیصلے کے بعد والے منظرنامے میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اسے غلطی سے سیاسی فتح سمجھ لیا تھا۔ انھوں نے موقع سے فائدہ اٹھانے میں سستی دکھائی اور نتیجتاً سیاسی تحرک پی ایم ایل (ن) کے سپرد کر دیا۔
چنانچہ ہمیں اس بحث کو نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ہم ایک خالص جمہوریت میں نہیں جی رہے، جہاں محض ہاتھ کھڑے کرنے سے گناہِ کبیرہ معاف ہو جاتے ہوں۔ ہم ایک 'آئینی جمہوریت‘ میں جی رہے ہیں، ایک ایسے نظامِ حکومت میں جہاں 'ووٹ‘ کو جرم سے تحفظ حاصل نہیں۔ جہاں سٹریٹ پاور نیب آرڈیننس یا مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات میں تخفیف نہیں کر سکتی اور کوئی 'دلوں کی حکومت‘ عدالتی فیصلوں کی رسائی اور وسعت کو گھٹا نہیں سکتی۔ 
آئیے دعا کو ہاتھ اٹھائیں کہ سیاسی احتساب کا یہ موسم بغیر کسی استثنا کے اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔ آئیے دعا کو ہاتھ اٹھائیں کہ یہ صرف ایک خاندان یا ایک سیاسی جماعت کے جرائم کا نہیں بلکہ پوری سیاسی اشرافیہ کے بے بس پاکستانی عوام کے خلاف (کردہ و ناکردہ) جرائم کا احتساب ہو۔ آئیے دعا کو ہاتھ اٹھائیں کہ احتساب کی یہ مہم کسی این آر او یا محفوظ جلاوطنی پر ختم نہ ہو۔ آیئے دعا کو ہاتھ اٹھائیں کہ ہمارے وطن میں ایک بامعنی اور ضرر سے محفوظ جمہوریت قائم ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں